تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     10-06-2016

باون برس پہلے بھی

''آپ کے نظام ِ تعلیم میں اردو زبان کو محض ثانوی حیثیت حاصل ہے۔ کسی زبان میں چند جواب مضمون لکھنے سے زبان نہیں آتی۔ وہ اسی وقت آسکتی ہے جب اس میں دوسرے مضامین بھی پڑھائے جائیں۔ جب تک اردو زبان کو ذریعہء تعلیم نہیں بنایا جائے گا، موجودہ صورتِ حال میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئے گی۔ میں سمجھتا ہوں کہ انسانی علوم بڑی آسانی سے اردوزبان میں پڑھائے جاسکتے ہیں‘‘۔ 
اردو زبان کے بارے میں انگریزی ماحول میں پرورش پانے والے شخص کے یہ خیالات سن کر مجھے خوشی تھی اور ندامت سے میری پیشانی عرق ریز بھی ہوگئی۔ عرقِ ندامت پیشانی سے پونچھ ہی رہا تھا کہ جسٹس صاحب کے یہ الفاظ میرے کانوں سے ٹکرائے: 
'' انگلستان میں انگریزی کے ساتھ فرانسیسی زبان بھی پڑھائی جاتی ہے، لیکن اس کی حیثیت ایک ثانوی زبان کی ہے۔ یہی حیثیت پاکستان میں انگریزی کو حاصل ہونی چاہیے‘‘، وہ مزید کہہ رہے تھے ـ ،''میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ ہم ابھی تک انگریزی کے ساتھ کیوں چمٹے ہوئے ہیں۔ آپ لوگوں کو انگریزی میں علوم وفنون کی تحصیل میں جو دقت پیش آتی ہوگی، اس کا اندازہ میں اپنی ذات کے حوالے سے کرتا ہوں۔ میں جتنے وقت میں اردو کا ایک صفحہ پڑھتا ہوں انگریزی کے چھے صفحے پڑھ سکتا ہوں۔ مجھے اس حقیقت کا بھی احساس ہے کہ غیر مادری زبان میں انسان اپنا مافی الضمیر صحیح روح کے ساتھ بیان ہی نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپ انگریزی میں مضمون پڑھتے ہیں تو آپ اصطلاحیں اور فقرے کے فقرے مفہوم سمجھے بغیر رٹ لیتے ہیں اور یہ اس لیے کرتے ہیں کہ آپ مفہوم سمجھ رہے ہوتے ہیں نہ سمجھنے پر قدرت رکھتے ہیں‘‘۔
میں نے گفتگو کی مناسبت سے چیف جسٹس صاحب سے سوال کیا، ''کیا اعلٰی عدالتوں میں بھی اردو رائج کی جاسکتی ہے؟‘‘۔ 
جسٹس صاحب نے بے ساختہ جواب دیا:''کیوں نہیں؟‘‘
''جسٹس صاحب ، آپ کے خیال میں کیا زبان فرد کے ذہن اور خیالات کی تشکیل میں کوئی کردار ادا کرتی ہے؟‘‘۔ 
چیف جسٹس صاحب نے بڑی فکر آمیز متانت سے کہا ،'' زبان کا خیالات کی تشکیل میں بظاہر کوئی حصہ نہیں ہوتا، لیکن ہر زبان کا ہر لفظ اپنا ایک تاریخی اور تہذیبی پس منظر رکھتا ہے۔جب آپ کسی زبان کا کوئی لفظ استعمال کرتے ہیں، تو غیر شعوری طور پر اس لفظ کاپس منظر بھی جذب کرلیتے ہیں۔ یہ پس منظر آپ کے ذہن کو خاص خطوط پر ڈھالتا رہتا ہے اور بالآخر آپ اسی رنگ میں رنگ جاتے ہیںجو اس زبان کا تہذیبی اور فکری رنگ ہے‘‘۔ 
ؔ''ہم پاکستان میں قانون کی حکمرانی کس طرح قائم کرسکتے ہیں؟‘‘۔
انہوں نے اردو زبان میں ٹھہر ٹھہر کر کہنا شروع کیا: 
''قانون کی اطاعت کا جذبہ اس وقت ابھرتا ہے جب دل میں قانون کے لیے احترام پایا جاتا ہو۔احترام ایک خودروجذبہ ہے جو دل کی گہرائیوں سے پھوٹتا ہے اور اپنے اظہار کے لیے کسی خارجی محرک کا محتاج نہیں ہوتا۔ پھر یہ بھی ایک عظیم حقیقت ہے کہ ہمارے دل میں صرف اسی قانون کا احترام پیدا ہوسکتا ہے جو ہمارے احساسات کے مطابق ہو۔ اگر ہم پاکستان میں قانون کی حکمرانی قائم کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں اس نظامِ قانون کو نافذکرنا ہوگا جسے عامتہ الناس پسند کرتے ہیں، اور یہ نظامِ قانون، اسلامی قانون ہے۔ اہلِ پاکستان اپنے دلوں میں اسلامی شریعت کے لیے بے پناہ محبت اور شدید پیاس رکھتے ہیں اور یہ پیاس ہر لحظہ بڑھتی رہے گی۔ میرا یقین ہے کہ اسلامی قانون کے نفاذ سے اس ملک کی قانونی زندگی میں ایک خوشگوار انقلاب جنم لے گا‘‘۔
''کیا اس عہدمیں اسلامی قانون نافذ کیا جاسکتا ہے؟‘‘
''صاحب ، کیوں نہیں کیا جاسکتا؟ آج تو یہ کام اور بھی آسان ہے۔ عدالتیں موجود ہیں اور ان کا نظام موجود ہے، لوگ قانونی ضابطوں کے عادی ہیں۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی قانون اس طرح مدون کیا جائے کہ اسے سمجھنا اور اس کے مطابق فیصلے کرنا آسان ہو جائے ۔ دراصل بات سمجھ لینے والی ہے کہ اسلامی قانون کسی دور میں بھی زندگی سے کٹا نہیں رہا۔ اس قانون کی ایک تاریخ ہے، اس کا ایک پس منظر ہے، اس قانون کی طاقت سے بڑی بڑی سلطنتیں چلتی رہی ہیں اور ماضی قریب میں بھی یہ قانون عدالتوں میں رائج رہا ہے۔اس اعتبار سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسلامی قانون تسلسل کی تمام کڑیاں اپنے اندر رکھتا ہے۔ اگر آپ اسلامی قانون کو جدید طرز پر مدون کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو اس کے مطابق مقدمات کے فیصلے کرنے میں کوئی ذہنی خلا پیدا نہیں ہوگا۔ جب اسلامی قانون کی کتابیں وکلاء بھی پڑھیں گے اور جج صاحبان بھی ، تو پھر یہی قانون ہماری قانونی فضا میں رچ بس جائے گا‘‘۔ 
اوپر دیا ہوامکالمہ آج سے ٹھیک باون برس پہلے ایک اخبار نویس اور پاکستان کے چیف جسٹس کے درمیان کراچی میں ہوا۔ اخبار نویس کا نام ہے الطاف حسن قریشی اور چیف جسٹس کا نام تھاجسٹس اے آر کارنیلیس۔اسے پاکستان کی بدنصیبی ہی کہیے کہ نصف صدی پہلے کا یہ مکالمہ آج بھی حالات سے اتنا ہی متعلق ہے جتنا انیس سو تریسٹھ میں تھا۔ اردو اوراسلامی قانون کے بارے میں ہم جہاں کھڑے تھے ،آج بھی وہیں کھڑے ہیں۔ اردو کو واحد ذریعہء تعلیم بنانے کی بات ہوتی ہے تو انگریزوں کی باقیات ستر برس پرانی گھسی پٹی دلیلوں کے ساتھ لیس ہوکر میدان میں اتر آتی ہے ، اسلامی نظام قانون کا تقاضاہوتا ہے تو کج بحث دانشور اسی طرح نئے عہد کی ضرورتوں کو رونا رونے لگتے ہیں جیسے یہ ہمیشہ سے روتے آرہے ہیں۔ انتہا یہ ہے کہ ان معاملات میںجنرل ایوب خان کی آمریت اورنواز شریف کی جمہوریت کا رویہ بھی ایک جیسا ہی ہے یعنی تقریر وں میں اللہ کو یاد کرنا اوراس کے قانون کو ریاست کے ہر شعبے سے دور رکھنا۔ محاورہ تو یہ سنا جاتا ہے کہ تاریخ خود کو دہراتی ہے لیکن پاکستان کے معاملے میں تاریخ تو خود کو دہراتی بھی نہیں بس ایک ہی جگہ ساکت و جامد معلوم ہوتی ہے۔تاریخ کے اس سکوت و جمود کو الطاف حسن قریشی نے اپنی کتاب ''ملاقاتیں کیا کیا‘‘ میں مختلف شخصیات کے انٹرویوز کے ذریعے اجاگر کیا ہے۔ اس کتاب کی خوبی کہیے ،صاحب کتاب کی دوربینی کی داد دیجیے یا اپنی بدقسمتی کو روئیے کہ انہوں نے جس خرابیء حالات پر پریشان ہوکر جو سوال انیس سو اکسٹھ سے لے کر انیس سو سڑسٹھ تک کے زمانے میں زندہ عبقریو ں سے کیے تھے ، آج تک نہیں بدلے۔ ہم سب آغازِ سفر میں ہی ٹامک ٹوئیاں مارنے میں دو نسلیں برباد کر چکے ہیں۔
تصور کیجیے کہ مولانا ظفر احمد انصاری کو دستور و قانون کے بارے میں ٹھیک ٹھیک وہی پریشانی لاحق تھی جو آج چئیرمین سینیٹ رضا ربانی کو ہے، ذوالفقار علی بھٹو کو اسٹیبلشمنٹ سے اسی مزاحمت کا سامنا تھا جس کا آج نواز شریف کو ہے، جیسے ایوب خان ترکی ماڈل کے نام پر ہماری گردنوں پر سوار ہوئے اسی دلیل کے زور پر بغلوں میں کتے دابے جنرل پرویز مشرف بندوق کے زور پر ہمیں اپنے اقتدار کے کھیت میں جوتے رہے۔ جس طرح سکندر مرزا اس ملک کے صدر ہوتے ہوئے بلوچستان میں شورش پیدا کرنے میں مصروف تھے آج بھی کچھ مصلحت نا اندیش بلوچستان کے لیڈر ہوکر بھی بلوچستا ن کی تباہی کے درپے ہیں۔ مختصر یہ کہ جتنے نالائق ہم آج سے پچاس سال پہلے تھے ، آج بھی اتنے ہی ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved