تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     11-06-2016

خواجہ آصف وزیر اعظم ہوتے تو؟

خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں ایک خاتون رکن کی توہین کر کے‘ جو معرکہ سرانجام دیا تھا‘ اس پر داغِ ندامت دھونے کے لئے وہ چلو بھر پانی کی تلاش میں نکلے‘ لیکن بدحواسی میں سیالکوٹ سے پہلے انہیں کوئی نہر نہ ملی اور جب سیالکوٹ جا کر ایک بھری نہر مل گئی‘ تو اس کا پانی انہیں ڈبونے کے لئے تیار نہ ہوا۔ ایسی حرکت کرکے عموماً شرم و حیا والے لوگوں کے لئے چلو بھر پانی کافی ہوتا ہے‘ لیکن جہاں غیرت کی کمی ہو‘ وہاں سمندر کا پانی بھی کم پڑ جاتا ہے۔ قومی اسمبلی کے یہی معزز رکن تھے جنہوں نے بھرے ایوان میں کھڑے ہو کر پورے ہائوس کو یاد دلایا تھا کہ ''کوئی شرم ہوتی ہے‘ کوئی حیا ہوتی ہے‘‘۔ لیکن جب خود انہیں ضرورت پڑی تو ان کا دامن خالی تھا۔ حالانکہ کسی خاتون کے ساتھ بھی غلطی سے کوئی بدتمیزی ہو جائے‘ تو ا نسان سو مرتبہ معافی مانگتا ہے لیکن شرم و حیا والے یہ صاحب‘ ایک معزز خاتون کے لئے نازیبا الفاظ استعمال کر بیٹھے‘ تو انہیں اپوزیشن کی تمام خواتین‘ ان کی حرکت کے بارے میں احساس دلانے کی کوشش کر رہی تھیں لیکن یہ اپنی جگہ ڈٹے ہوئے تھے۔ اسحق ڈار شرم و حیا کا خزانہ لے کر ان کے قریب آئے۔ یاد دلایا کہ انہیں کس چیز کی ضرورت ہے‘ لیکن انہوں نے سنی ان سنی کر دی‘ اور وہ ایک لفظ معذرت یا معافی ان کے لبوں پر نہیں آیا۔ حزب اختلاف کے تمام اراکین انہیں یاد دلاتے رہے مگر کیا مجال کہ شرم و حیا کا احساس‘ ان کے قریب آیا ہو۔
سپیکر قومی اسمبلی‘ جو باوقار منصب کے فرائض‘ ذمہ داریوں سے ادا کرتے رہے‘ لاہور میں ضمنی الیکشن لڑنے کے بعد پوری طرح بدل چکے ہیں‘ ورنہ جس طرح سے یہ معاملہ بگڑا‘ سپیکر صاحب کی فرض شناسی کی ذرا سی جنبش سے سدھر سکتا تھا۔ تمام جمہوری ملکوں میں سپیکر یا چیئرمین اکثریتی پارٹی کے رکن ہوتے ہیں‘ لیکن جب انہیں پارٹی سپیکر یا چیئرمین کا باوقار منصب دلواتی ہے تو حلف اٹھاتے ہی وہ اپنے منصب کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں۔ اس کے بعد وہ پارٹی کی وفاداریوں سے آزاد ہو کر اپنے فرائض‘ غیر جانبداری سے ادا کرنے لگتے ہیں۔ جب تک سپیکر صاحب ضمنی انتخاب نہیں لڑے تھے‘ وہ ایک باوقار اور غیر جانبدار سپیکر تھے لیکن دوبارہ منتخب ہونے کے بعد وہ ایک بدلے ہوئے انسان نظر آئے۔ اور یہ بدلا ہوا انسان‘ پوری طرح سے گزشتہ روز بے نقاب ہوا‘ جب ایک خاتون کے صنفی احترام کو بالائے طاق رکھتے ہوئے‘ انہوں نے پارٹی وفاداری کو ترجیح دی اور اپنی اسلامی‘ اخلاقی اور انسانی ذمہ داریوں کو بھی فراموش کر دیا۔
شیریں مزاری محض نسوانی احترام کی حق دار نہیں۔ وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور عزت دار گھرانے کی خاتون بھی ہیں۔ ایک منتخب رکن کی حیثیت سے وہ قومی اسمبلی میں تشریف لاتی ہیں۔ تہذیبی تقاضوں کی ذرا سی شدھ بدھ رکھنے والے حضرات بھی خواتین کے صنفی وقار کا احترام کرتے ہیں۔ جب آپ کسی راستے پر چل رہے ہوں یا کسی عمارت میں داخل ہونے لگے ہوں اور کوئی خاتون قریب آ جائے تو مرد احتراماً راستہ دے دیتے ہیں‘ اور جب تک وہ آگے نہ نکل جائے‘ اپنی جگہ پر کھڑے رہتے ہیں۔ اسی طرح اگر آپ کسی تقریب یا ہال میں داخل ہو کر کرسیوں کے قریب جائیں تو پہلے خاتون کو خالی نشست پر بیٹھنے کی درخواست کرتے ہیں اور اس کے بعد خود بیٹھتے ہیں۔ اور اتفاق سے آس پاس کوئی خالی نشست نہ ہو تو خود ایسی جگہ چلے جاتے ہیں جہاں پر نشستیں خالی ہوں۔ یہ معمول کے تہذیبی اطوار ہیں لیکن اگر آپ کسی بھی جمہوری معاشرے کے اعلیٰ اور منتخب ایوان میں جائیں تو اس کے سپیکر یا چیئرمین کو سب سے زیادہ احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کے بعد معزز ایوان کے تمام اراکین‘ تعظیم کے حق دار قرار پاتے ہیں‘ مگر فوقیت خواتین کو حاصل ہوتی ہے۔ لیکن اسی قانون ساز ادارے کے اراکین اگر خود ''تھڑا کلچر‘‘ کی نمائندگی کرنے لگیں تو معاشرے کی پست اخلاقی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
میں اپنے معاشرے کی تہذیبی و اخلاقی حالت کے بارے میں زیادہ خوش فہمی کا شکار نہیں۔ میں جانتا ہوں کہ ہم سب جس اخلاقی ابتری کی لپیٹ میں آچکے ہیں‘ اس نے ہمیں اپنی اقدار اور معیاروں سے محروم کر دیا ہے۔ دور کیوں جائوں؟ جس خواجہ آصف صاحب کا میں ذکر کر رہا ہوں‘ ان کے والد محترم خود بھی ایک قانون ساز ادارے کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ وہ ایوان کے وقار کے محافظ تھے۔ قومی اسمبلی کی رکنیت حاصل کر کے‘ جو یقینی طور پر اپنے معزز باپ کے طفیل انہیں نصیب ہوئی‘ اس کے وقار کا خیال رکھنا‘ ان کا فرض تھا‘ لیکن اخلاقی زبوں حالی کی حالت زار دیکھئے کہ خواجہ صاحب کا فرزند بھی ایوان کے وقار کو پامال کرنے میں پیش پیش ہے۔ اس نے ایک خاتون رکن کی توہین ہی نہیں کی بلکہ اپنے والد مرحوم کی عزت کا بھی خیال نہیں کیا۔ اجتماعی زوال کی حالت یہ ہے کہ سپیکر صاحب‘ جنہیں اپنے عہدے کا وقار بھی ملحوظ رکھنا 
تھا‘ انہوں نے ایک ڈاکئے کی حیثیت میں کام کرنا گوارا کر لیا۔ خواجہ صاحب نے انہیں معذرت کا ایک خط دیا‘ جسے بطور سپیکر‘ ایوان کے سامنے پیش کرکے‘ معزز خاتون رکن کا موقف لینا چاہئے تھا‘ مگر انہوں نے ایک پوسٹ مین کی طرح خط کا پیغام پڑھ کر سنا دیا‘ اور بات ختم کر دی۔ حالانکہ اس پر کارروائی کرنا‘ ان کا فرض منصبی تھا۔ جب متعلقہ خاتون نے اس پر احتجاج کرتے ہوئے خواجہ صاحب کا معافی نامہ لفظ بہ لفظ قبول کرنے سے انکار کر دیا تو اپوزیشن کی دیگر معزز خواتین اراکین نے شیریں مزاری کی تائید کرتے ہوئے تقاضا کیا کہ خواجہ صاحب‘ معزز خاتون کا نام لے کر ان سے معافی مانگیں۔ خاندانی سیاست دان اور تہذیب و شائستگی کے مالک‘ شاہ محمود قریشی نے معاملے کو نمٹانے کی خاطر تجویز پیش کی کہ اگر خواجہ صاحب صرف چند الفاظ کا اضافہ کر کے‘ معاملہ نمٹا دیں تو ایوان کا وقت ضائع ہونے سے بچ جائے گا۔ شاہ صاحب نے تجویز بھی کر دیا کہ خواجہ صاحب اگر مزید یہ کہہ دیں کہ ''اگر میرے الفاظ سے شیریں مزاری کو دکھ پہنچا ہے تو میں ان سے معذرت چاہتا ہوں‘‘۔ جو لوگ ذرا بھی تہذیب و تمدن کا وقوف رکھتے ہیں‘ انہیں معلوم ہے کہ یہ مشروط معافی بے ضرر ہوتی ہے۔ جو کچھ کہا جاتا ہے‘ وہ صرف یہ ہوتا ہے کہ اگر کسی کو تکلیف پہنچی ہے تو میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں یا معذرت چاہتا ہوں۔ اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ کہنے والے کا مقصد‘ دل آزاری نہیں تھا۔ اگر اس نے محسوس کیا ہے تو میں معافی چاہتا ہوں۔ شاہ صاحب کے یہ الفاظ مہذب سوسائٹی کے آزمودہ ہیں‘ جن میں کچھ کہے بغیر بھی کہہ دیا جاتا ہے‘ مگر وہ کس ایوان میں بات کر رہے تھے؟ کس سپیکر کو مخاطب کر رہے تھے؟ اور کس معزز رکن کو آبرومندی کے ساتھ‘ اپنے موقف سے پسپا ہونے کی راہ دکھا رہے تھے؟ سچ ہے‘ جو لوگ دھکم پیل کر کے‘ معاشرے میں پوزیشن بنا لیتے ہیں‘ ضروری نہیں وہ اس پوزیشن کے اہل بھی ہوں۔ عمران خان نے ایک بار کہا تھا کہ جب خواجہ آصف‘ ایوان میں داخل ہوتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ کوئی رنگ باز ایوان میں داخل ہو گیا ہے۔ لیکن صرف خواجہ آصف سے کیا گلہ؟ ان کی پارٹی میں تو ایک سے ایک رنگ باز بیٹھا ہے۔ رکن قومی اسمبلی نفیسہ شاہ نے برطانوی پارلیمنٹ کی مثال پیش کی اور ایوان میں سپیکر کے وقار اور دبدبے کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ سپیکر برطانوی پارلیمنٹ نے قائد ایوان یعنی وزیر اعظم کو سزا کے طور پر‘ ایوان سے باہر نکال دیا تھا اور وزیر اعظم کو اپنی اس غلطی کی سزا بھگتنا پڑی کہ انہوں نے سپیکر کا حکم نہیں مانا تھا۔ ذرا سوچئیے کہ اگر نواز شریف کی جگہ خواجہ آصف‘ قائد ایوان ہوتے تو معزز ایوان کے اراکین‘ کتنے معزز رہ جاتے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved