یہ کسی ایک واقعہ کا ردعمل نہیں‘ واقعات کا ایک سلسلہ ہے جس نے پاکستان کی سول اور فوجی قیادت کو یہ احساس دلایاہے کہ ''امریکہ مطلبی دوست ہے کام نکل جائے تو پوچھتا بھی نہیں امریکہ سے سٹریٹجک تعلقات آگے نہیں بڑھ سکتے‘‘مگر یہ رائے قائم کرنے والوں سے کون پوچھے ع
کب کھلا تجھ پر یہ راز‘ انکار سے پہلے کہ بعد؟
ہماری سول قیادت اور اسٹیبلشمنٹ کیا واقعی اتنی ہی زودفراموش اور اقبال کے الفاظ میں پست فطرت ہے کہ اسے طوطا چشم امریکہ کے بارے میں آج یہ علم ہوا؟ کیا ان میں سے کسی نے ایوب خان کی کتابFriends not Masters نہیں پڑھی۔ کسی کو جنیوا معاہدے کے بعد جنرل ضیاء الحق کا پچھتاوا یاد نہیں جب انہوں نے کہا''کوئلوں کی دلاّلی میں ہم نے اپنا منہ کالا کر لیا‘‘اور بے نظیر بھٹو کے ساتھ ڈاکٹر ہنری کسنجر کا مکالمہ بھی کسی کے علم میں نہیں جس میں موصوف نے اپنے دوست ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی کو تنبیہ کی تھی کہ ''امریکہ اپنے کسی دشمن کو نقصان پہنچا سکے یا نہ پہنچا سکے مگر اپنے دوست کو ضرور پہنچاتا ہے اس لیے امریکی دوستی پر اعتماد کی غلطی ہرگز نہ کرنا‘‘۔
شریف خاندان کے ایک فرد نے 2008ء میں مجھے اعتماد میں لے کر شاہ عبداللہ کی ایک نصیحت کے بارے میں بتایا تھا جو مرحوم نے الوداعی ملاقات میں میاں نواز شریف کو کی تھی کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے امریکہ پر کبھی اعتماد نہ کرنا۔ ان تمام واقعات کا عوام کو علم ہو نہ ہو ہمارے حکمرانوں اور پالیسی سازوں کو پوری شرح صدر کے ساتھ ہے مگر برا ہو طمع و لالچ‘ وقتی مفادات ‘ خواہش اقتدار اور ہتھیاروں کی خریدوفروخت میں ملنے والی کک بیکس کا کہ ہر سول اور فوجی حکمران نے ماضی کے تلخ تجربات اور قومی خود مختاری کو بالائے طاق رکھ کر ہمیشہ امریکہ کو سر آنکھوں پر بٹھایا‘ اسے آقائے ولی نعمت جانا اور اس کے ہر حکم کی تعمیل کی۔ امریکہ کے اتحادی اگرچہ ہم1950ء کے عشرے سے ہیں مگر محمد علی بوگرا‘ ایوب خان‘ بھٹو ‘ ضیاء الحق ‘ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے سابقہ ادوار میں ہم اس قدر محتاط ضرور تھے کہ ہم نے متبادل راستے بھی کھلے رکھے اور اہم مواقع پر اپنی آزادی‘ خود مختاری اور سلامتی کے حوالے سے اپنے فیصلے خود کیے۔ امریکہ جب عوامی جمہوریہ چین کا نام سننا پسند نہیں کرتا تھا ہم نے چین کو اپنا جگری یار بنایا اور امریکی مخالفت کی پروا نہیں کی۔ امریکہ چین سے کس قدر الرجک تھا اندازہ ایک واقعہ سے ہوتا ہے جو قدرت اللہ شہاب نے ''شہاب نامہ‘‘ میں درج کیا ہے۔
لکھتے ہیں کہ ایوب خان نے مجھے ہدایت کی کہ ایک اہم امریکی سفارت کار اسلام آباد رہا ہے۔ تم خود ایئر پورٹ جا کر اس کا استقبال کرو اور احترام سے ایوان صدر لائو۔ قدرت اللہ شہاب موصوف کو سرکاری گاڑی میں بٹھا کر اسلام آباد لا رہے تھے کہ زیرو پوائنٹ پر وہ اچانک اپنا سر جھولی میں دے کر نو ‘ نو پکارنے لگے پہلے تو شہاب سمجھے کہ انہیں قولنج کا درد اٹھا ہے اور شدت سے انہوں نے سر نیچے کر لیا ہے مگر جونہی گاڑی نے زیرو پوائنٹ کا پُل (اب یہاں فلائی اوور بن گیا ہے)عبور کیا وہ اُٹھ کر بیٹھ گئے۔ شہاب صاحب نے پوچھا ایکسیلینسی خیر با شد۔ بولے بیجنگ کے لیے پی آئی اے کی پرواز کا بورڈ دیکھ کر میرا دوران خون تیز ہو گیا تھا‘ اب میں ٹھیک ہوں۔ یہ تھی امریکیوں کی چین سے نفرت مگر ہم پروا کیے بغیر تعلقات کو وسعت دیتے رہے۔
پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے بھی امریکی آج تک خوش نہیں مگر بھٹو‘ ضیا ء الحق ‘غلام اسحق خان‘ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی حکومت نے کسی سطح پر کمپرومائز نہیں کیا اور ہم ایٹمی قوت بن گئے ضیاء الحق پر امریکہ کے پٹھو ہونے کا الزام عائد کیا جاتا ہے مگر اس نے پاکستان کو غیر جانبدار تحریک کا رکن بنایا اور افغان جنگ کی آڑ میں ایٹمی پروگرام مکمل کیا۔ اسی کے دور میں کسی امریکی کو یہ اجازت نہ تھی کہ وہ افغان مجاہدین سے براہ راست رابطہ کر سکے۔ سی ٹی بی ٹی پر دستخطوں کے حوالے سے بھی امریکی دبائو کا ہم نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور بھارت کو خطے کا چودھری بنانے کی امریکی خواہش پر کبھی صاد نہیں کیاامریکی دبائو کا مقابلہ کرتے ہوئے ہم زندہ رہے اور باوقار بھی ثابت ہوا کہ امریکہ کسی کومٹانے پر قادر نہیں۔فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے دور میں البتہ یہ توازن برقرار نہ رہا اور افغانستان پر حملوں کے لیے پاکستانی سرزمین بے دردی سے استعمال ہوئی‘ پاکستانی علاقوں پر حملوں کے لیے ڈرون بھی ہمارے ہی ایئر پورٹس سے اڑتے رہے‘ جب سلالہ چیک پوسٹ کا واقعہ ہوا تو شمسی ایئر بیس خالی کرا لیا گیا اور کئی ماہ نیٹو سپلائی بند رہی۔
ہم اگر اتنے نادان ہیں‘ اب تک نہیں سمجھ سکے تو کم از کم اب سمجھ جائیں کہ پاکستان کا مذہبی عقیدہ‘ اسلامی کلچر‘ سٹریٹجک محل وقوع ‘ ایٹمی پروگرام‘ لڑاکا فوج اور ملاکا سے مراکش تک اسلامی ممالک کی مضبوط کڑی سے ربط امریکہ کے لیے ماضی میں قابل قبول تھا نہ اب ہے اور نہ آئندہ کبھی ہو گا۔ امریکہ نے پاکستان میں اپنے گماشتے تعلقات مضبوط بنانے کے لیے نہیں ہمیں ہر قیمت پر اپنے سامنے سرنگوں و محتاج رکھنے کے لیے پیدا کیے جب تک ہتھیار بیچنے اور خطے میں اپنے سیاسی‘ دفاعی اور سٹریٹجک مقاصد پورے کرنے کے لیے اسے ہماری ضرورت تھی وہ پیار کی پینگیں بڑھاتا اور اپنا مطلب نکالتا رہا۔ جب بھارت خود ہی روس کو چھوڑ کر اس کی گود میں جا بیٹھا تو ہرجائی دوست کو ہماری ضرورت رہی نہ دوستی یاد۔ ویسے بھی بھارت‘ ایران اور افغانستان کی صورت میں امریکہ کو زیادہ مفید اتحادی مل چکے ہیں‘ جن کے ساتھ مل کر وہ چین‘ روس اور سعودی عرب کے خلاف ریشہ دوانیوں کا سلسلہ آسانی سے جاری رکھ سکتا ہے۔ ہم ایران پر پابندیوں کے دور میں محض امریکی خوشنودی کے لیے اس سے گریزاں رہے جبکہ بھارت تجارتی روابط بڑھاتا رہا تو قصور کس کا ہے؟ افغانستان میں بھارتی دخل اندازی کو روک نہیں پائے تو غلطی ہماری ہے کسی اور کی نہیں اور اپنی سرزمین کو ہم نے امریکیوں‘ بھارتیوں اور افغانیوں کی چراگاہ بنائے رکھا تو ذمہ دار کون ہے؟
ہمارے بعض بیورو کریٹس‘ جاگیردار ‘سرمایہ دار‘ سیاستدان‘ مرعوب دانشور اور فوجی عہدیدار امریکہ کے سوا جینے کا تصور نہیں کر سکتے۔ ان کے بچے امریکہ میں پڑھتے‘ ان کے اہل خانہ گرین کارڈ ہولڈر اور ریٹائرمنٹ کے بعد وہ امریکہ کو ہی پناہ گاہ سمجھتے ہیں مگر عوام کی سوچ یہ نہیں۔ دفاعی معاملات میں بھی ہمارا کل انحصار اب امریکہ پر نہیں۔ کیانی کے دور میں جب پاک امریکہ تعلقاتmake ar Breakeکی حالت میں تھے تو اعلیٰ فوجی حکام نے ایک بریفنگ میں دعویٰ کیا تھا کہ بری‘ بحری اور فضائی فوج کا انحصار امریکہ پر بہت کم ہے‘ یہ سول حکومت کی مجبوریاں ہیں جن کا فائدہ امریکہ اٹھاتا ہے۔ قرضوں کی قسطیں ادا کرنے کے لیے عالمی مالیاتی اداروں سے مزید قرضے اور امریکی اتحادیوں کے ساتھ معاشی روابط وغیرہ لیکن ان مجبوریوں کی بناء پر ہم کب تک غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رہیں گے اور امریکہ ان کا فائدہ اٹھا کر ہمیں بلیک میل کرتا رہے گا؟ امریکہ کو نیو کلیر سپلائر گروپ کی رکنیت کے لیے بھارت پسند ہے‘ پاکستان کے بارے میں طرح طرح کے عذر اور اعتراضات ہیں جبکہ ڈرون حملوں کے ذریعے اس نے ہماری خود مختاری ہی پامال نہیں کی ہمارے ایٹمی پروگرام کے لیے بھی خطرات پیدا کر دیئے ہیں۔ امکان یہی ہے کہ بھارت کو نیو کلیر سپلائر گروپ کی رکنیت دلانے کے بعد امریکہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف نئی مہم شروع کرے گا اور ایک مقروض ملک کے خلاف عالمی مالیاتی اداروں کے دبائو اور پابندیوںکا حربہ بھی استعمال کیا جائے گا چین اکیلا آخر کب تک ہر قرارداد کو ویٹو کرے گا اور امریکی مخالفت میں ڈٹا رہے گا جبکہ اسے یہ بھی یقین و اعتماد نہیں کہ پاکستان اچانک چھلانگ لگا کر امریکی گود میں نہیں جا بیٹھے گا۔ ماضی میں ہم کئی بار چین کو مایوس کر چکے ہیں۔ سول و فوجی قیادت کو اگر واقعی سمجھ آ گئی ہے کہ امریکہ طوطا چشم یار ہے اور سدا کا مطلبی و بے وفا تو پھر غیرت و حمیت پر کوئی فیصلہ کرنے میں کیا حرج ہے امریکہ سے دشمنی کی ضرورت نہیں مگر دوستی کامزید فریب کھانا بھی دانشمندی نہیں تو کیوں نہ پھر امریکی وفد کے ارکان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی جائے اور مزید اپیلیں اور مطالبات کرنے کے بجائے دو ٹوک الفاظ میں بتایا جائے کہ حضور!بہت ہو چکی۔ آپ بھارت پر مرمٹے ہیں تو ہمارے لیے بھی کئی راستے کھلے ہیں ؎
تو ہے ہرجائی تو اپنا بھی یہی طور سہی
تو نہیں اور سہی‘ اور نہیں اور سہی
کیا دفتر خارجہ اور جی ایچ کیو میں کسی نے امریکیوں کو یہ باور کرایا؟