تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     11-06-2016

قادری صاحب کا نزولِ ثانی

طاہرالقادری صاحب کے نزولِ ثانی کا اعلانِ عام ہو چکا۔ خواہش تھی کہ وہ آتے اور اپنے علم و فضل سے اس معاشرے کو منور کرتے۔ مژدہ مگر یہ ہے کہ وہ آ رہے ہیں اور دھرنابکف۔ 
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق
احتجاج کا کلچر، آج معاشرے کا عمومی چلن بن چکا۔ اساتذہ احتجاج پر ہیں اور طالبِ علم بھی۔ ڈاکٹر احتجاج پر ہیں اور مریض بھی۔ بینا بھی اور نابینا بھی۔ کسان بھی اور مزدور بھی۔ کسی طبقے کا نام لیجیے، معلوم ہو گا کہ کام پر نہیں، احتجاج پر ہیں۔ یہاں تک کہ پارلیمان میں ایک محترم رکن ایسے بھی ہیں‘ جو اپنی پیشانی پر احتجاجی نعرے رقم کیے معزز ایوان میں تشریف فرما ہوتے ہیں۔ کیا ہمیں اس کے علاوہ بھی کوئی کام آتا ہے؟ احتجاج کا کلچر یہاں کیوں فروغ پذیر ہے؟
بچہ روئے نہیں تو ماں دودھ نہیں دیتی۔ بچپن سے یہی سنتے آئے ہیں۔ کسی حد تک صداقت بھی ہو گی لیکن کیا انسانی تجربے اور عقل کا حاصل محض یہی جملہ ہے؟ کیا معاشرہ اس اساس پر تعمیر ہوتا اور کھڑا ہوتا ہے؟ اور کیا راہنماؤں کا کام یہی ہے کہ بچے کو رونے پر اکساتے رہیں؟ کیا اس میں کوئی حرج ہے کہ روئے بغیر دودھ کی فراہمی کی کوئی سبیل نکالی جائے؟ کیا معاشرے نے بڑا نہیں ہونا؟ کیا اسے ہمیشہ بچہ ہی رہنا ہے؟
عام آدمی نے یہ تو جان لیا کہ احتجاج کا کلچر، بالآخر نقصان دہ ہی ہوتا ہے۔ زندگی مفلوج ہو جاتی ہے۔ کبھی کبھار تو اسے گوارا کیا جا سکتا ہے لیکن اگر یہ روزمرہ بن جائے تو پھر حیات عذاب ہو جاتی ہے۔ جو دودھ ملنا ہوتا ہے وہ بھی نہیں ملتا۔ ایک کام مؤخر ہوتا ہے تو اس کے نتیجے میں کئی کام تاخیر کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں۔ گتھی سلجھنے کی بجائے مزید الجھنے لگتی ہے۔ گیلپ کا تازہ ترین سروے یہ کہتا ہے کہ اس ملک کے 75 فیصد لوگ اس حق میں ہیں کہ احتجاج کے لیے مقامات متعین ہو جانے چاہییں۔ ہر شہر میں ایک گوشہ اس کے لیے مختص ہو جانا چاہیے۔ احتجاج کا حق تو ثابت ہے لیکن کسی کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ دوسروں کی زندگی متاثر کرے۔ ضرورت ہے کہ اس مسئلے پر سوچا جائے۔ مزید تاخیر نفسیاتی پیچیدگیوں میں اضافہ کر دے گی۔ ذہنی طور پر ہم نے اس معاشرے کو بیمار بنانے میں بہت محنت کی ہے۔ ہمیں سماجی نفسیات پڑھنی اور اس کا کوئی حل تلاش کرنا چاہیے۔
احتجاج کیوں ہوتا ہے؟ آپ کہیں گے کہ جب کوئی کام سیدھی طرح نہ ہو تو اس کے سوا چارہ نہیں ہوتا۔ آپ ٹھیک کہتے ہیں مگر آپ کی توجہ ایک دوسری جانب دلانا چاہتا ہوں۔ یہ دنیا نامکمل ہے۔ معاشرہ منظم ہو جائے تو بھی مسائل باقی رہتے ہیں۔ پھر یہ کہ نظام اور معاشرے میں فرق ہوتا ہے۔ نظام کہیں بھی مکمل نہیں ہوتا۔ معاشرتی قوت نظام کی کمزوریوں کا مداوا کرتی ہے۔ جب معاشرہ مضبوط نظامِ اقدار پر قائم ہوتا ہے تو سسٹم کی کمزوریوں کو اپنی قوت سے دور کر دیتا ہے۔ نظام جب افراد کی معاشی کفالت میں ناکام ہو جائے تو ایثار، انفاق اور مواخات کی اقدار بروئے کار آتی ہیں۔ پھر کوئی عثمانؓ بن عفان اُٹھتا اور بندوں کے بجائے ا پنے پروردگار سے تجارت کا فیصلہ کرتا ہے۔ یوں معاشرتی قوت، سسٹم کی کمزوریوں پر پردہ ڈال دیتی ہے۔
اس کے برخلاف احتجاج کا کلچر مطالبے کی نفسیات سے اٹھتا ہے۔ جب ہمارے معاشے میں یہ تصور مقبول ہوا کہ اصل ذمہ دار ریاست اور عمال ہیں۔ میرے پڑوسی کی بھوک سے لے کر گلی کی صفائی تک، ہر کام ریاست کو کرنا ہے۔ پڑوسی کے بارے میں میری کوئی ذمہ داری اس کے سوا نہیں کہ میں حکومت سے مطالبہ کروں کہ وہ عام شہری کی کفالت کرے۔ یقیناً اسے کرنی چاہیے لیکن مطالبے کی نفسیات مجھے آہستہ آہستہ میری ذمہ داریوں سے بے خبر کر دیتی ہے۔ سماجی اقدار کی اہمیت کم ہو جاتی ہے۔ پھر میں احتجاجی جلوس میں شرکت کے لیے گھنٹوں وقف کر سکتا ہوں مگر پڑوسی کی تیمارداری کے لیے چند منٹ دینے کو تیار نہیں ہوں۔ انقلابی نظریات نے معاشرے میں اس نفسیات کو فروغ دیا ہے۔ اب تو عالم یہ ہو گیا ہے کہ سیاست دان تو سیاست دان، عالم بھی اس قوم کو دھرنے کی دھمکی دیتا ہے۔
مہاتیر محمد کا لوگ بہت حوالہ دیتے ہیں۔ میں بھی ایک بار ان سے ملا تھا۔ وہ پاکستان آئے تو اسلامی یونیورسٹی میں چند افراد کے ساتھ ان کی ایک نشست کا اہتمام ہوا۔ مہاتیر محمد نے اپنی کامیابیوں کے راز سے پردہ اٹھایا تو ایک بات اسی احتجاج کے کلچر کے بارے میں بھی کی۔ کہا: جب میں وزیر اعظم بنا تو میں نے کوالالمپور کے ٹیکسی ڈرائیورز کی یونین کے ذمہ داران کو بلایا۔ اسی طرح دوسرے طبقات کے نمائندوں کو بلایا۔ سب سے ایک بات کہی کہ وہ ان کے مسائل کو حل کریں گے لیکن ان سے ایک بات کی ضمانت چاہتے ہیں کہ وہ کبھی ہڑتال نہیں کریں گے۔ معیشت کا پہیہ کبھی رکنے نہیں دیں گے۔ قومیں احتجاج کے کلچر سے نہیں بنتیں، محنت اور جدوجہد سے بنتی ہیں۔
یہ سوال مگر جواب طلب ہے کہ جب حکومت و ریاست اپنی ذمہ داری ادا نہ کریں تو پھرکیا کیا جائے؟ جب قانون بروئے کار نہ آئے تو پھر احتجاج کے سوا چارہ کیا ہے؟ یہ دلیل اپنے اندر وزن رکھتی ہے۔ اس کا کوئی اطمینان بخش جواب ضرور ہونا چاہیے۔ میں اس ضمن میں چند باتیں کہنا چاہتا ہوں۔ سب سے پہلے تو معاشرتی رویوں کی تشکیل نو ہے۔ اسے حقوق کے بجائے فرائض کے پیراڈائم میں بدل دینا چاہیے۔ میرا خیال ہے اس سے ایک جوہری تبدیلی بھی آئے گی۔ اس سے امکان ہے کہ لوگ مطالبے کی نفسیات سے نکل کر معاشرتی تعمیر کے دائرے میں سوچنے لگیں۔ دوسرا یہ کہ عدالتی نظام کو موثر بنایا جائے اور اس کے لیے قانون سازی کی جائے۔ مثال کے طور پر جہاں کہیں آجر اور اجیر میں جھگڑا ہے، عدالت دو ہفتے میں فیصلہ دینے کی پابند ہو گی۔ اس دوران میں کوئی ہڑتال ہو گی نہ احتجاج۔ تیسرا یہ کہ بعض شعبوں میں جیسے طب ہے، عوامی خدمات ہیں جن سے عام آدمی متاثر ہوتا ہے، وہاں ہڑتال یا احتجاج کسی حال میں بھی جائز نہیں ہوں گے۔ رہی سیاسی جماعتیں تو ان کے لیے بڑے شہروں میں ایک گوشہ مختص کر دیا جائے جہاں احتجاجی جلسے وغیرہ کیے جا سکتے ہیں۔
سیاسی جماعتوں کے احتجاج کے پس پردہ کیا کیا ہنگامے چھپے ہوتے ہیں، اس کا اندازہ اس دھرنے سے بڑی حد تک ہو چکا‘ جو قادری صاحب نے عمران خان کی معیت میں دیا تھا۔ جاوید ہاشمی کی یہ خدمت شاید سب خدمات پر حاوی ہے کہ انہوں نے پس پردہ ہنگاموں سے پردہ اٹھایا تھا۔ اب لگتا ہے کہ ایک بار پھر ہنگامہ برپا ہونے کو ہے۔ ہراول دستہ شاید قادری صاحب کا ہے۔ دفاع پاکستان کونسل بھی متحرک ہو چکی۔ خطے میں بڑی حد تک غیر معمولی تبدیلیوں کی بنیاد رکھی جا رہی ہے، جو متقاضی ہیں کہ پاکستان پُرسکون اور پُرامن ہو۔ ہم مگر ہنگاموں میں اپنے عیب چھپانے کے عادی ہیں۔ کیا ایک آزمودہ نسخہ ایک بار پھر آزمانے کی تیاریاں ہیں؟ حتمی جواب تو وہی دے سکتا ہے جو محرم راز درون مے خانہ ہے۔ میں تو صرف یہ عرض کر سکتا ہوں کہ احتجاج کے کلچر میں نہ کل کوئی خیر تھا نہ آج ہے۔ مسائل کا حل نظام میں تلاش کیجیے۔ اس میں کمزوریاں ہیں تو انہیں دور کیجیے۔ اس کے سوا اصلاح کا کوئی امکان نہ پہلے تھا‘ نہ اب ہے۔ اگر اہل سیاست کی باگ جذبۂ انتقام کے ہاتھ میں ہے تو پھر وہ اپنا گریبان تو چاک کریں گے ہی، ساتھ اس قوم کے گریباں کو بھی عاشق کا گریباں بنا دیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved