تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     11-06-2016

گریٹ گیم کا آغاز

دیکھا جائے تو پاکستان اس خطے کا واحد ملک ہے جسے افغانستان میں مکمل امن کی خواہش سب سے زیا دہ ہے کیونکہ اس کی مغربی سرحدوں سے متصل افغانستان میں امن ہوگا تو اس کا براہ راست فائدہ پاکستان کو پہنچے گا۔ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں کمی واقع ہوگی اور بیرونی سرمایہ کاری کا رجحان بڑھے گا جس سے معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ اس سے افغانستان کو بھی بھر پور فائدہ پہنچے گا۔ امن کی صورت میں سرحد کی دونوں جانب کسی تخریب کاروں کو جائے پناہ نہیں مل سکے گی۔ لیکن عجب اتفاق ہے کہ جب بھی امن کی منزل قریب آنے لگتی ہے تو وہ ہاتھ جس کا ہر کسی کی گردن پر ہاتھ ہوتا ہے اس منزل کو بہت دور لے جاتا ہے۔ شاید یہ ہاتھ نہیں چاہتا کہ پاکستان اور افغانستان میں امن ہو۔ وہ دوست جو خود کو ہمارا خیر خواہ کہتے نہیں تھکتا، امن کی پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہوئے افغان امن مذاکرات کے اہم کردار، ملا منصور کو نشانہ بنانے کی مذموم کوشش کی ہے۔ ملا اختر منصورکو قتل کر کے امریکہ نے طالبان اور افغانستان کے مابین امن مذاکرات کو نقصان پہنچا کر امن کو کوسوں دور کر دیا ہے۔ لگتا ہے امریکہ خطے میں اب کوئی نیا 'فارمولہ‘ ظاہر کرنے والا ہے۔ اس کے پاس کوئی نئے نقشے ہو سکتے ہیں اور نئی محاذ آرائیاں بھی۔ وہ ڈبل گیم کھیلتے ہوئے پاکستان کو دبائو میں لانے کے لئے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرے گا۔ ایک بات تو طے ہے کہ طالبان اب امریکہ یا کسی عرب ملک کے کہنے پر ڈائیلاگ کی میز پر نہیں آئیں گے کیونکہ اب تیسری دفعہ امریکہ سے فریب کھا چکے ہیں۔ جب بھی طالبان ڈائیلاگ کے لئے تیار ہوئے، ان کے امیرکو ڈرون کے ذریعے نشانہ باندھ کر ہلاک کردیا گیا۔ ان کے نئے امیر اور نئی شوریٰ کسی پر کیسے اعتماد کر سکیں گے۔
مری میں ہونے والے مذاکرات جن کی نگرانی براہ راست امریکہ اور چین کر رہے تھے، اس کے دوسرے مرحلے سے چند گھنٹے پہلے جولائی 2015ء میں ملا عمر کے انتقال کی خبر کس نے جاری کرائی؟ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اب ملا منصور کی ڈرون حملے میں ہلاکت نے تو طالبان کو اس قدر مشتعل کر دیا ہے کہ حالات سنبھلنے کی کوئی امید نظر نہیں آ رہی۔ طالبان اپنے امیر کی ہلاکت کا انتقام لینے کے لئے افغانستان میں بھر پور کارروائیاں کر رہے ہیں۔ پہلی بار انہوں نے رمضان میں جنگ بندی کی اپیل نامنظور کرتے ہوئے مزید حملوں کا اعلان کر دیا ہے۔ خدشہ ہے کہ پاکستان پر ایک بار پھر 'ڈو مور‘ کی چڑھائی کرتے ہوئے طالبان کے خلاف کارروائی کرنے کا کہا جائے گا اور انکار کی صورت میں اپنا دہرا کھیل یہ کہتے ہوئے شروع کر دیا جائے گا کہ پاکستان دہشت گردوں کو پناہ دے رہا ہے۔ ان کی آواز کو مضبوط بنانے کے لئے پاکستان کے اندر سے کچھ میڈیا پرسنز اور سیاسی ورکر 'گڈ طالبان، بیڈ طالبان‘کا راگ دوبارہ سے الاپنا شروع کر دیں گے۔ یہ ہے ہمارے خطے کی وہ ممکنہ صورت حال جس کا ہمیں آنے والے وقت میں سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس سے نمٹنے کے لئے ہماری سیا سی، سفارتی اور فوجی قیادت کے علاوہ محب طن میڈیا نے کیا لائحہ عمل اختیار کرتا ہے۔
میری نظر میں اس وقت پاکستان کو ایک فوقیت توحاصل ہو چکی ہے کہ اس کی افواج، عوام اور خصوصی طور پر خفیہ ایجنسیوں نے تحریک طالبان اور اس کے پانچ گروپوں کے علاوہ لشکر جھنگوی کے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کر دیا ہے۔ اب یہ سب شوال اور دیگر علاقوں سے فرار ہو کر ملا فضل اﷲ کی پناہ میں جا چکے ہیں جبکہ ملا فضل اﷲ خود اور ٹی ٹی پی کے دہشت گرد اس وقت افغانستان کے نورستان اورکنار صوبوں میں امریکی اشیر باد سے بھارتی سفارت کاروں اور اس کی خفیہ ایجنسیوں کی پناہ میں ہیں۔ انتہائی باخبر ذرائع بتاتے ہیں کہ ملا فضل اﷲ بھارت اور این ڈی ایس کی زیر نگرانی پاکستان میں کسی بڑی کارروائی کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ امن مذاکرات سے متعلق پارٹیوں کی جانب سے یہ تاثر دینا مناسب نہیں کہ طالبان کو''پاکستان‘‘ کی حمایت حاصل ہے، اگر زمینی حقائق کو سامنے رکھا جائے تو بہتر ہو گا۔ کسی فریق کی جانب سے اپنی شرائط پر مذاکرات کا دروازہ کبھی بھی نہیں کھل سکتا، اگر اپنی فتح یا اپنی شکست کو سامنے رکھنے کی بجائے فقط 'امن‘ کو سامنے رکھ کر ایک دوسرے کے سامنے بیٹھیں تو سب کچھ ہو سکتا ہے۔
افغانستان کی سکیورٹی فورسز اس وقت کرپشن، باہمی رابطوں سے اجتناب، لسانی اور مذہبی انتہا پسندی کی شکار ہیں۔ اس کے اہلکار مختلف مقامات پر قائم بیرکوں اور یونٹوں سے بھاگ رہے ہیں۔اے این ایس ایف کی کسی بھی کمانڈ میں طالبان سے نمٹنے کی سوچ پیدا نہیں ہو رہی کیونکہ طالبان کی صوبہ فریاب، قندوز اور ہلمند میں کامیابی کے علاوہ وہاںاے این ایس ایف کی بے تحاشا کلنگ ظاہر کرتی ہے کہ اس میں مقابلے سے بھاگنے کا عمل دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔
دنیا بھر میں یہ اصول ہے کہ ہر ملک کی خفیہ ایجنسیاں اپنے ملک کو اندرونی اور بیرونی خطرات سے محفوظ ررکھنے کے لئے ہر وقت سرگرم رہتی ہیں لیکن افغانستان کی این ڈی ایس اپنے ملک کی بہتری کی بجائے ساری توجہ پاکستان کو نقصان پہنچانے پر مرکوز کیے ہوئے ہے۔ اس کی وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ اس کی فنڈنگ اور تربیت چونکہ بھارت کی 'را‘ کے ہاتھ میں ہے اس لئے یہ اپنے ملک اور اس کے عوام کے لئے نہیں بلکہ بھارت کے لئے کام کرتی ہے۔ یہ ایجنسی پاکستان میں 36 برسوں سے مقیم افغان مہاجرین کے بارے میں شکوک و شبہات بڑھانے میں مصروف ہے اور اسی کی وجہ سے اب پاکستان میں وہ آوازیں مضبوط ہوتی جا رہی ہیں جو ان افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کے لئے اٹھتی تھیں۔ این ڈی ایس کھل کر پاکستان کو عدم استحکام کا شکارکرنے کے لئے دن رات ایک کئے ہوئے ہے۔ بلوچستان سے بھارتی را کے کمانڈرکلبھوشن یادیو کی گرفتاری کے ایک ہفتے بعد بلوچستان ہی سے این ڈی ایس کے چھ سینئر ارکان کی گرفتاری بہت سی کہانیاں بیان کر رہی ہے۔ ان گرفتاریوں کے بعد بھارت اور افغانستان کی ایجنسیوں کے تربیت یافتہ 126 دہشت گردوں کو پشاور، گلگت بلتستان، سوات،جنوبی وزیرستان، اٹک، اسلام آباد، راولپنڈی، چمن اور کوئٹہ میں گرفتار یا ہلاک کیا جا چکا ہے۔ 
پاکستان کی سکیورٹی ایجنسیاں اور ادارے این ڈی ایس اور را کی تخریبی کارروائیوں کو روکنے کی مکمل استطاعت رکھتے ہیں اور وہ اپنی جگہ چوکنا بھی ہیں، لیکن ایک بہت بڑا خلا جس کا انہیں سامنا ہے، وہ تیس لاکھ سے زائد ان افغان مہاجرین کا ہے جن میں نہ جانے کتنے را اور این ڈی ایس کے اہلکار گھسے ہوئے ہیں۔ اب وقت ہے کہ ان سب کو ان کے وطن بھیجا جائے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ پاک افغان طویل سرحدوں پر اسی طرح فینسنگ وال کھڑی کی جائے جس طرح بھارت نے پاکستان کی سرحدوں پر الیکٹرک باڑ نصب کی ہوئی ہے۔ اس کے لئے حکومت کی رضا مندی اور فنڈز کی فراہمی ضروری ہے۔ اس قومی ضرورت کے لئے اسے اپنے سکیورٹی اداروں کا ساتھ دینا ہوگا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved