تحریر : انجم نیاز تاریخ اشاعت     12-06-2016

سویلین حکومتیں اور حج سکینڈلز

جب بھی پیپلز پارٹی یا نون لیگ کی حکومت آتی ہے تو متعدد حج سکینڈلز بھی سامنے آ جاتے ہیں۔ یہ ایک ایسی بات ہے جس کی پوری قوم کو سخت مذمت کرنی چاہئے۔ زرداری صاحب جب صدر تھے تو ان کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنے ملتان کے ایک ساتھی حامد سعید کاظمی کو مذہبی امور کی وزارت سونپ دی تھی۔ 2010ء سے لے کر 2012ء کے دوران ملک کے سیاسی منظر پہ حج کرپشن سکینڈل کا چرچا رہا۔ اس سکینڈل کے نتیجے میں حامد سعید کاظمی کی گرفتاری عمل میں آئی۔ 2009ء کے حج انتظامات میں بے قاعدگیوں اور یوں قومی خزانے کو شدید نقصان پہنچانے کے الزامات میںکاظمی صاحب کو دو سال کی جیل ہوئی۔ آج کل موصوف پھر خبروں میں آ رہے ہیں‘ اور وجہ یہ ہے کہ گزشتہ دنوں انہیں حج کرپشن کیس میں سولہ سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ یہ سزا سپیشل کورٹ سنٹرل، جو ایک زیریں عدالت ہے، کے ایک جج نے سنائی۔ اسی فیصلے میں ڈائریکٹر جنرل حج رائو شکیل کو بھی چالیس سال قید کی سزا سنائی گئی۔ ان کے علاوہ وزارتِ مذہبی امور کے جائنٹ سیکرٹری آفتاب الاسلام کو بھی سولہ سال قید کی سزا سنائی گئی۔ اس مقدمے میں استغاثہ کی جانب سے ساٹھ گواہان پیش کئے گئے‘ جن پہ جرح کے بعد فیصلہ سنایا گیا۔ حامد سعید کاظمی، رائو شکیل اور آفتاب الاسلام پر عائد کی گئی فردِ جرم کے مطابق یہ تینوں افراد فراڈ، دھوکہ دہی، اختیارات کے غلط استعمال، قومی خزانے اور مفادِ عامہ کو نقصان پہنچانے کے مرتکب پائے گئے ہیں۔ خاص طور پر ایک الزام ان پہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے مکہ میں پاکستانی حاجیوں کے قیام کے لئے ایک غیر معیاری عمارت انتہائی اونچے کرائے پہ حاصل کی تھی‘ اور اس سارے معاملے میں کک بیکس وصول کئے تھے۔ بے نظیر بھٹو کی وزارتِ عظمیٰ کی دوسری میعاد بھی اسی طرح کا ایک حج سکینڈل سامنے آیا تھا۔ اس سکینڈل کی تمام تفصیلات ایک اندرونی مخبر نے ہمیں بتائی تھیں‘ جو ہم نے 1997ء میں ایک انگریزی جریدے میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں تحریر بھی کر دی تھیں۔ پی پی پی حکومت میں مذہبی امور کے وزیر جہانگیر بدر نے نبی بخش لہری کو ہٹا کر مکہ میں ڈائریکٹر حج کے عہدے پر اپنا ایک آدمی تعینات کر دیا تھا۔ کہا یہ جا رہا تھا کہ جہانگیر بدر آصف زرداری کے ساتھ مل کر پیسہ بٹورنے کے چکروں میں تھے۔ زرداری صاحب کے ایک سعودی معلم کمال ناصر کے ساتھ بڑے گہرے مراسم تھے۔ حکومتِ پاکستان نے کمال ناصر کو پاکستانی حاجیوں کے لئے مکہ میں قیام کے انتظامات کی ذمہ داری سونپی تھی۔ اس شخص نے ہمارے حاجیوں کے لئے تیسرے درجے کے اقامتی انتظامات فراہم کر کے لاکھوں کروڑوں روپے پاکستانی خزانے سے لوٹے۔ حامد سعید کاظمی اور ان کے ساتھیوں نے بھی ایسا ہی کیا۔ کمال ناصر اکثر و بیشتر لاہور کے چکر لگایا کرتے‘ جہاں ان کے دوست زرداری صاحب کی جانب سے ان کے لئے تفریح کا انتظام کیا جاتا تھا۔ تفریح کا سارا بندوبست چیف سیکرٹری اسلم حیات قریشی کیا کرتے تھے۔ نومبر 1996ء میں جب کرپشن کے الزامات میں صدر لغاری نے بے نظیر بھٹو کی حکومت برطرف کی اور قائم مقام حکومت آئی تو نبی بخش لہری اپنے عہدے پہ بحال کر دیے گئے تھے۔ میاں نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ کی دوسری میعاد تک پھر وہ اس عہدے پہ کام کرتے رہے۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ 1997ء میں منیٰ میں آگ لگی تھی‘ جس کے نتیجے میں ڈھائی سو تا تین سو افراد جان سے گئے تھے۔ ان میں کئی پاکستانی بھی شامل تھے۔ سعودی عرب میں اس وقت کے پاکستانی سفیر شاہد امین نے واقعے کے معاً بعد ایک بیان دیا جو ان کی بے حسی کا نمونہ تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ اس واقعے میں وزیر اعظم میاں نواز شریف کی اہلیہ اور صدر لغاری کے فرزند محفوظ رہے ہیں‘ یعنی ہمارے سفیر صاحب کے لئے اہمیت صرف ان وی وی آئی پی شخصیات کی زندگیوں کی تھی۔ ذرائع کے مطابق منیٰ کے اس واقعے کی جزوی ذمہ داری نواز حکومت پر بھی عائد ہوتی تھی کیونکہ حاجیوں کی تعداد مقرر کردہ حد یعنی ایک لاکھ تک محدود رکھنے کی بجائے بالکل آخری لمحات میں پچیس ہزار اضافی حاجیوں کو بھجوانے کا فیصلہ کیا گیا تھا‘ جس کی وجہ سے حج ڈائریکٹوریٹ کے تمام انتظامات کا ستیاناس ہو گیا تھا۔ اس کے علاوہ خدمۃ الحجاج کے نام پر ڈیڑھ سو سرکاری افسران کی بجائے محض پی ایم سیکرٹریٹ کو خوش کرنے کے لئے وزیرِ مذہبی امور نے ڈھائی سو یعنی ایک سو اضافی سرکاری افسران بھیجے۔ ہمیں یہ تمام باتیں اندرونی معلومات رکھنے والے ایک افسر نے بتائی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بے نظیر بھٹو بھی یہی سب کیا کرتی تھیں اور اب میاں نواز شریف بھی انہی کے نقشِ قدم پہ چل رہے ہیں۔ منیٰ کے حادثے کے بعد ڈائریکٹر حج کے طور پر نبی بخش لہری کا کردار بھی خاصا مایوس کن رہا۔ اس واقعے میں بچ جانے والے ایک شخص نے ہمیں بتایا کہ واقعے کے بعد نبی بخش لہری ہمیں کہیں بھی دکھائی نہیں دیے۔ ہمیں کہا گیا تھا کہ وہ ایک اجلاس میں شرکت کے لئے جدّہ گئے ہیں۔ بے چارے پاکستانی حاجیوں نے اپنے پیارے بھی کھو دیے تھے اور ان کے پاس پیسہ یا سامان بھی نہیں بچا تھا۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ پی آئی اے والے بھی ان کی مدد کو تیار نہیں تھے۔ جو لوگ بارسوخ تھے اور اپنے پاسپورٹ واپس پانے کے لئے معلم کو رشوت دینے کے وسائل رکھتے تھے انہی کو واپسی کے لئے جلد پروازیں نصیب ہو سکیں۔ باقی جتنے لوگ بچے تھے ان سب کے ساتھ پاکستانی سفارت خانے اور پی آئی اے کا رویہ بھی نہایت افسوسناک رہا۔ ایک اور حاجی نے ہمیں بتایا کہ ہم سعودیوں سے کیوں گلہ کریں کہ انہوں نے پاکستانیوں کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک روا رکھا جبکہ ہمارے اپنے لوگ ہی وہاں ہم سے بے نیازی برتتے رہے۔ انہوں نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ ترکی، انڈونیشیا، ایران حتیٰ کہ ہندوستان سے آنے والے حاجیوں تک کو بہتر رہائشی سہولیات میسر تھیں‘ اور ہم سے بہتر بسوں میں وہ سفر کیا کرتے تھے۔ اگر زرداری صاحب اور ان کے ساتھی حج فنڈز سے کروڑوں روپے لوٹتے رہے تھے تو اس ضمن میں میاں صاحب اور ان کے وفادار بھی کچھ زیادہ مختلف ثابت نہیں ہوئے۔ انہوں نے حج معاملات کی درستگی کا وعدہ کیا تھا لیکن اسے پورا کرنے میں ناکام رہے۔ منیٰ کے سانحے کی تحقیقات کے لئے جو کمیٹی قائم کی گئی تھی وہ بھی بے نتیجہ رہی۔ ذمہ داروں میں سے کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی، کسی کو کوئی سزا نہیں دی گئی۔ کم از کم متاثرہ حاجیوں سے ایف آئی آر (ابتدائی معلومات) ہی لے لی جاتیں۔ متاثرہ حاجیوں کے پاس دل دہلا دینے والی داستانیں موجود تھی‘ لیکن حکومت کچھ سننے کو تیار ہی نہیں تھی کیونکہ وہ اس واقعے میں برابر کی قصوروار تھی۔ ایک حاجی‘ جو خوش قسمتی سے اس واقعے میں محفوظ رہا تھا‘ نے ہمیں کہا کہ ''جو مر گئے ہیں وہ واپس تو نہیں آ سکتے لیکن حکومت کم از کم اس امر کو تو یقینی بنا سکتی ہے کہ سعودی عرب میں اس کے اہلکاروں کا رویہ مستقبل میں ایسا نہ ہو جیسا کہ اس سانحے کے دوران رہا تھا‘‘۔ ہم امید کرتے ہیں کہ میاں نواز شریف کی موجودہ حکومت نے کچھ سبق سیکھ لیا ہو گا اور اس بار انہوں نے حج ڈائریکٹوریٹ میں ایسے محنتی اور ایماندار افراد کی تعیناتی کی ہو گی جن کا مشن سماجی رتبوںسے قطع نظر تمام پاکستانیوں کی یکساں خدمت کرنا ہو گا۔ ہم امید رکھتے ہیں کہ مستقبل میں پی پی پی کی حکومت کی کرپشن اور نواز حکومت کے بے حسی کا اعادہ نہیں ہوگا۔ ہمارے لیڈروں کو یقینا روزِ حساب سے ڈرنا چاہئے جب وہ اپنے خالق کے سامنے کھڑے ہوں گے اورانہیں اپنی غلط کاریوں اور حاجیوں کے ساتھ روا رکھی گئی بے حسی کا حساب دینا پڑے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved