تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     12-06-2016

ایک اور بے نتیجہ کہانی

ہماری طرح جانور بھی بیمار شمار تو ہوتے ہی رہتے ہیں کہ یہ قدرت کا قانون ہے، لیکن جب جنگل میں معمول سے زیادہ جانور بیمار رہنے لگے تو جنگل والوں کو تشویش ہوئی۔ ببر شیر کی صدارت میں ایک ہنگامی اجلاس ہوا جس میں جنگل کے تمام جانوروں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اس اجلاس کا اہم ایجنڈا آئٹم جنگل میں جانوروں میں بڑھتی ہوئی بیماریاں تھیں۔ سب جانوروں نے اپنی اپنی تجاویز دیں مگر کسی کی بات دل کو نہ لگتی تھی۔ شیر نے اور دیگر زور آور جانوروں نے ایسی تمام تجاویزکو ویٹوکر دیا اور آخر کار بی لومڑی سے کہا کہ وہ اس سلسلے میں کوئی تجویز دے۔
لومڑی کہنے لگی، میں نے بہت سی باتیں جنگل کی زندگی میں سیکھی ہیں لیکن میں نے انسان کا بھی بغور مطالعہ کیا ہے اور انسانی زندگی سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ مثلاً یہی بیماریوں والا مسئلہ لیں‘ انسان نے ٹامک ٹوئیاں مارنے اور الٹے سیدھے ٹوٹکے آزمانے کے بجائے اس معاملے کو حقائق کی روشنی میں حل کیا ہے اور اپنے میں سے ہی کسی شخص کو بیماریوں کا علاج کرنے کے لیے مختص کر دیا ہے۔ اس شخص کو وہ ڈاکٹر کہتے ہیں‘ لیکن یہ اتنا سادہ اور آسان کام نہیں کہ آپ کسی کو محض ڈاکٹر کا نام دے کر اسے علاج کرنے پر مامور کر دیں۔ انسانوں نے اس کے لیے باقاعدہ نصاب بنایا ہے اور اس کی تعلیم رکھی ہے۔ نوجوان اس مخصوص کام کے ادارے میں داخلہ لیتے ہیں، کئی سال پڑھتے ہیں اور جب وہ یہ سارا کام سیکھ لیتے ہیںتو انہیں ڈاکٹر کہا جاتا ہے اور یہ باقی انسانوں کی صحت کی دیکھ بھال کرتے ہیں‘ بیماروں کا علاج کرتے ہیں‘ بیماریوں پر تحقیق کرتے ہیں اور نئی بیماریوں کے علاج دریافت کرتے ہیں۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ہم کسی جانور کو ڈاکٹری کا کورس کروائیں اور اسے جنگل کا ڈاکٹر بنائیں۔ اس طریقے سے ہم جنگل کے جانوروں میں پھیلنے والی بیماریوںکا علاج بھی کر سکیںگے اور بیماریوں سے بچ بھی سکیںگے۔
سب نے لومڑی کی اس تجویز سے اتفاق کیا اور قرعہ فال پھر لومڑی کے سر نکالا کہ وہ اس سلسلے میں کسی مناسب جانور کا انتخاب کرے اور اس کی ڈاکٹری کی تعلیم کا بندوبست کرے۔ لومڑی کہنے لگی کہ اس کام کے لیے میں بذات خود اپنے آپ کو پیش کرتی مگر میری جسمانی ساخت‘ ہاتھوں کی بناوٹ اور کام کرنے کی استعداد ویسی نہیں جیسی ڈاکٹر کے لیے درکار ہے۔ انسان کی جسمانی ساخت اس کام کے لیے نہایت ہی موزوں ہے؛ تاہم ہم میں صرف اور صرف بندر ہی ایسا جانور ہے جو انسان کے قریب تر جسمانی خصوصیات کا حامل ہے اور اپنی عقلی استعداد کے مطابق بھی اس کام کو سیکھنے کے لیے مناسب ترین ہے۔ لیکن اب ایک اہم اور ضروری بات آپ کے گوش گزار کرنا چاہتی ہوں‘ وہ یہ کہ بندر کو میڈیکل کی تعلیم کہاں سے دلوائی جائے؟ درخت پر بیٹھے ہوئے سرخ کندھوں والے طوطے نے کہا کہ وہ کئی سال ایک انسان کے گھر میں پنجرے میں قید رہا ہے اوراس دوران دو تین بار بیمار ہوا تو اسے اس کا مالک جانوروں کے ہسپتال لے کر گیا تھا اور وہاں اس کا علاج ہوا تھا۔ اس علاج کے دوران اس نے وہاں دیکھا کہ انسان دیگر جانوروں کا بھی علاج کرتے تھے۔ جانوروں کے ہسپتال میں گائے، بھینسیں، بیل، بکریاں، مینڈھے، اونٹ، کبوتر، کتے، بلیاں اور خرگوش وغیرہ لائے جاتے تھے اور ڈاکٹر ان کا علاج کرتا تھا۔ نوے پچانوے فیصد جانور تندرست اور صحت مند ہو کر واپس جاتے تھے۔ مناسب ہے کہ بندر کو جانوروں کے ہسپتال میں بغرض تعلیم بھیجا جائے تاکہ وہ جانوروں کی بیماریوں کے بارے میں علم حاصل کر کے آئے اور اپنے اس کسب فیض سے جنگل کے جانوروں کو مستفید کرے۔ سب جانوروں نے طوطے کی بات کو بڑا پسند کیا اور طوطے کی عقلمندی کی داد دی۔ طوطا پہلی بار اپنی اس پذیرائی پر پھولے نہ سما رہا تھا۔
لومڑی نے کہا لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ آخر بندرکو جانوروں کے ہسپتال میں بغرض تعلیم کیسے بھیجا جائے؟ کس طرح اسے وہاں بحیثیت طالب علم داخل کروایا جائے؟ یہ ایک مشکل بلکہ نا ممکن العمل کام تھا۔ لومڑی نے کہا کہ وہ کل رات شہر جا کر چھپ کر جانوروں کے ہسپتال کا جائزہ لے گی اور اس کے بعد آ کر شیر کو رپورٹ پیش کرے گی۔ اگلی رات لومڑی چھپ کر شہرگئی اور جانوروںکے ہسپتال کا جائزہ لے کر واپس آئی اور شیر کو کہا کہ صرف یہی ایک طریقہ ہے کہ بندر شہر چلا جائے اور جانوروں کے ہسپتال میں لگے ہوئے بلند و بالا اورگھنے درختوں میں چھپ کر دو چار ماہ ڈاکٹروں کو جانوروں کاعلاج کرتے دیکھے اور جو کچھ بھی سیکھ لے واپس آ کر اسے جنگل کے جانوروں کے علاج کے لیے استعمال میں لائے۔ شیر نے لومڑی کی تجویز سے اتفاق کیا اور بندرکو چار ماہ کی رخصت با تنخواہ پر شہر بھجوانے کا حکم جاری کر دیا۔
تین چار ماہ بعد بندر واپس جنگل میں آ گیا اور خود کو ڈاکٹر کہلوانے لگا۔ اس نے اپنی کھوہ کو باقاعدہ ہسپتال کہنا شروع کر دیا۔ دو چار دن ہی گزرے ہی تھے کہ چیتا کسی شکاری کی لگنے والی گولی سے شدید زخمی ہو گیا اور کسی نہ کسی طرح واپس جنگل کے اندر ہسپتال میں پہنچ گیا۔ بندر نے اسے بالکل اسی طرح زمین پر لیٹنے کے لیے کہا جیسا کہ جانوروں کے ہسپتال میں زخمی جانوروں کو ڈاکٹر لٹاتا تھا۔ شدید زخمی چیتا بندر کی ہدایت کے مطابق اسی طرح لیٹ گیا۔ اب بندر نے اچھل کود شروع کر دی اور چھلانگ لگا کر ایک درخت پر چڑھ گیا‘ پھر وہاں سے جست بھری اور دوسرے درخت کی ٹہنیوں پر جھول گیا۔ وہاں سے تیسرے درخت پر کود گیا اور پھر چھلانگ لگا کر چوتھے درخت پر گیا اور پھرتی سے کودتا پھاندتا اس درخت کی پھننگ پر پہنچ گیا۔ سارے جانور حیرت سے ڈاکٹر بندرکے اس عجیب و غریب طریقہ علاج کو دیکھ رہے تھے۔ بندر درختوں پر کودتا پھاندتا پھر رہا تھا اور نیچے نیم جان چیتے کا خون بہے جا رہا تھا۔ دس پندرہ منٹ تک بندر درختوں پر چھلانگیں لگاتا رہا‘ اسی اثنا میں چیتے نے زیادہ خون بہہ جانے کے باعث جان دے دی۔ بندر نیچے اترا اور اردگرد بیٹھے ہوئے جانوروں سے مخاطب ہو کر بولا‘ میں نے بھاگ دوڑ تو بہت کی تھی مگر اللہ کو یہی منظور تھا۔ موت پر تو کسی کو اختیار نہیں تاہم آپ جانتے ہیں کہ میں نے اپنی طرف سے بہر حال کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔
قارئین! آپ یقیناً مجھ پر تائو کھا رہے ہوں گے کہ میں یہ کیا فضول سی کہانی لے کر بیٹھ گیا ہوں اور آخر صبح ہی صبح اس جنگل سے متعلق فضول سی کہانی کا ہم سے کیا تعلق ہے؟ تو یہ کہانی مجھے در اصل اس طرح یاد آئی ہے کہ اس وقت پوری دنیا میں چین، ترکی اور سعودی عرب کے علاوہ اور کوئی چوتھا اہم اور قابل ذکر ملک نہیں جو ہمارا دوست رہ گیا ہو۔ ہمارے ہمسایوں کا یہ عالم ہے کہ بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے اور ہمارے شمالی اور مغربی ہمسائے یعنی افغانستان اور ایران ہمارے اس ازلی دشمن کے دست و بازو بھی ہیں اور اتحادی بھی۔ جس افغانستان کے بیس لاکھ سے زائد مہاجرین اب بھی ہمارے ہاں پناہ گزین ہیں وہ بھارت سے دوستی کی نہ صرف پینگیں بڑھا رہا ہے بلکہ ہمارے مخالف اتحاد کا حصہ بن رہا ہے۔ اتحاد بین المسلمین کا دعویدار ایران بھارت سے مل کر پاکستان کو باقاعدہ غیر مستحکم کرنے کی مہم میں شامل ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی بالکل فیل ہو چکی ہے۔ وزیر خارجہ سرے سے موجود ہی نہیں۔ مشیر خارجہ عمر کے اس حصے میں ہے کہ اگر اسے اپنے اہل خانہ کے نام یاد رہ جائیں تو بڑی بات ہے۔ پوری دنیا میں ہمارے مؤقف کو ہر طرف سے جوتے پڑ رہے ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم جس ملک میں جا رہا ہے وہاں سے سرمایہ کاری لا رہا ہے‘ وہاں معاہدے کر رہا ہے‘ وہاں اپنا مؤقف منوا رہا ہے‘ وہاں سے پاکستان پر دبائو ڈلوا رہا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم کا ایک دورہ بھی ایسا نہیں جس میں اس نے درج بالا مقاصد میں سے کوئی حاصل نہ کیا ہو۔ پچپن دن میں اٹھارہ ممالک کے دورے اور ان گنت معاہدے۔ 
دوسری طرف ہمارے حکمرانوں کا کیا حال ہے؟ اپنے تین سالہ دور حکومت میں میاں نواز شریف نے اپنی وزارت عظمیٰ کی مدت کے ایک چوتھائی کے لگ بھگ ستر ممالک کے دوروں میں صرف کیا۔ اس پر سات سو ملین کے قریب خرچہ ہوا اور حاصل وصول؟ زیرو جمع زیرو جمع زیرو برابر ہے زیرو کے۔اسی طرح صدر ممنون حسین پہلے ڈیڑھ سال کے دوران سات غیرملکی دورے کر چکے تھے۔ان دوروں کا حاصل؟؟
سوائے چین اور ترکی کے، جہاں سے تھوڑی پذیرائی مل رہی ہے اور اس کی وجوہ بھی صرف اور صرف یہ ہیں کہ دونوں ممالک کو یہاں سے بزنس مل رہا ہے‘ اگر یہ نہ ہو تو شاید یہ دو ممالک بھی ہماری فہرست سے نکل جاتے۔ چین کے ساتھ اضافی معاملہ یہ ہے کہ اس علاقے میں بھارت کے خلاف کسی سٹریٹجک پارٹنر کی بہرحال ضرورت ہے اور یہ ضرورت بھی صرف ہم پوری کر سکتے ہیں۔ لہٰذا یہ معاملہ ہماری فارن پالیسی کی کامیابی سے زیادہ باہمی جغرافیائی مجبوری کے تحت ہے، تو ان غیر ملکی دوروں کا حاصل وصول کیا ہے؟
بندر کی بے پناہ اچھل کود اور بے معنی ولا یعنی بھاگ دوڑ کا فائدہ؟ چیتا وہیں پڑے پڑے اللہ کو پیارا ہو گیا۔ ادھر ہمارے حکمران غیر ملکی دورے پر دورے کیے جا رہے ہیں اور ہماری ساری فارن پالیسی وہیں پڑے پڑے اللہ کو پیاری ہو گئی ہے۔
قارئین! اس ساری کہانی کا نتیجہ کیا نکلا؟ اس کہانی کا نتیجہ وہی نکلا ہے جو حکمرانوں کے ستر سے زائد غیر ملکی دوروں کا نکلا ہے۔ اگر آپ سے کوئی نتیجہ نکل سکتا ہے تو براہ کرم آپ خود نکال لیں‘ اس ناچیز میں اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ ایسی کہانیوں کا نتیجہ نکالے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved