تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     12-06-2016

نواز شریف کے بچ نکلنے میں کلنٹن کا کردار؟

یادش بخیر، اپنے ایک پرائم منسٹر شوکت عزیر بھی ہوتے تھے۔ اکتوبر 1999ء کی فوجی کارروائی میں منتخب وزیرِ اعظم کی معزولی (اور گرفتاری) کے بعد ڈکٹیٹر کی ''ٹیکنوکریٹ حکومت‘‘ میں وزیرِ خزانہ کے منصب پر فائز ہوئے۔ یہ کہانی وہ حال ہی میں منظرِ عام پر آنے والی اپنی خود نوشت میں بھی بیان کر چکے (رؤف کلاسرا کے بقول، ڈبہ فلم)، اور ایک نجی ٹی وی سے انٹرویو میں بھی اس کا تفصیل سے ذکر کیا۔ اکتوبر 2002ء کے انتخابات کے بعد وزارتِ عظمیٰ کے لئے ڈکٹیٹر کا پہلا انتخاب بلوچستان کے میر ظفراللہ جمالی تھے، جنہیں وہ صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے وزیرِ اعظم منتخب کروا پایا‘ اور اس کے لئے بھی اسے پیپلز پارٹی میں نقب لگانا پڑی تھی۔ جنابِ جمالی ڈکٹیٹر کو اپنا باس کہتے‘ اس کے باوجود ڈکٹیٹر کا دل ان سے بھر گیا۔ ظاہر ہے، اس نظر بظاہر سیاسی نظام کی جان ڈکٹیٹر کے طوطے میں تھی۔ وہی انہیں لایا تھا اور اسی کے حکم پر وہ رخصت ہو گئے۔ شوکت عزیز کو قومی اسمبلی کا رکن منتخب کروانے کے درمیانی عرصے میں بڑے چودھری صاحب کوئی ڈیڑھ ماہ کے لئے بقول مخالفین ''حلالہ وزیرِ اعظم‘‘ بنے۔ کہتے ہیں برے وقت میں سایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔ اب ڈکٹیٹر پر برا وقت ہے تو کوئی اس کے ساتھ نہیں۔ اس کی آل پاکستان مسلم لیگ کے موجودہ وابستگان کی تعداد ایک ہاتھ کی انگلیوں سے بھی کم رہ گئی ہے (البتہ اس کے فیض یافتگان میں سے ریٹائرڈ عسکری حضرات اور وہ خود یہ تاثر دیتا رہتا ہے کہ ''ادارہ‘‘ اس کے ساتھ ہے)۔ ہمارے لئے اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ خود اس کا چہیتا وزیرِ اعظم بھی افتخار چودھری کی برطرفی، لال مسجد‘ جامعہ حفصہ کے سانحہ اور 3 نومبر کے ماورائے آئین اقدام کی ذمہ داری شیئر کرنے پر آمادہ نہیں۔ وہ اس سب کچھ کو ڈکٹیٹر کا اپنا کیا دھرا قرار دیتا ہے۔ اپنی خود نوشت اور ٹی وی انٹرویو میں اس نے نواز شریف کو پھانسی سے بچانے کے لئے صدر کلنٹن، سعودی عرب کے شاہ (تب ولی عہد) عبداللہ اور لبنان کے رفیق حریری کی کوششوں کا بھی ذکر کیا۔ اس میں شک نہیں کہ ان دنوں ڈکٹیٹر کے قریبی احباب میں بعض کا مشورہ یہی تھا کہ نواز شریف کو بھٹو بنا دیا جائے۔ وہ اس کے سیاسی ثمرات کا حوالہ بھی دیتے، مثلاً یہ کہ بھٹو کی پھانسی سے چھوٹے صوبوں اور خصوصاً سندھ میں جو شدید تلخی پائی جاتی ہے، اب بڑے صوبے کے نواز شریف کو اسی انجام سے دوچار کرنے کے نتیجے میں یہ تلخی ختم ہو جائے گی‘ اور یوں قومی یکجہتی کی راہ ہموار ہو گی۔ ڈکٹیٹر بھی نواز شریف کو اپنا دشمن نمبر1 قرار دیتا۔ اسے مدیرانِ جرائد اور سینئر اخبار نویسوں سے گفتگو میں بھی یہ بات کہنے میں عار نہ ہوتی۔ ایسے میں میاں صاحب کے بیرونی دوستوں میں شدید تشویش قدرتی بات تھی۔ ان کے خیال میں اس میں خود پاکستان کا بھی بھلا نہ تھا۔ اس حوالے سے سعودی شہزادے عبداللہ اور میاں صاحب کے دوسرے عرب دوستوں کے کردار کا ذکر تو ہوتا رہتا ہے۔ بعض لوگ اس میں صدر کلنٹن کی دلچسپی کا ذکر بھی کرتے اور یہی بات اب شوکت عزیز نے بھی کہی ہے۔
اس پر ہمیں ان دنوں کے کچھ احوال یاد آئے، صدر کلنٹن کی دوسری ٹرم کا آخری سال شروع ہو چکا تھا‘ جب انہوں نے برصغیر کے دورے کا فیصلہ کیا جسے ان کے ''دورۂ جنوبی ایشیا‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی برصغیر کے دو دیرینہ حریفوں کے مابین ایک نئی سفارتی جنگ کا آغاز ہو گیا۔ ہندوستان کی کوشش تھی کہ اس دورے میں پاکستان شامل نہ ہو۔ پاکستان سرد جنگ کے طویل عرصے میں امریکہ کا اتحادی رہا تھا۔ تب دونوں میں گاڑی چھنتی تھی۔ پہلے امریکی صدر‘ جو پاکستان کے دورے پر آئے، آئزن ہاور تھے، 8 دسمبر 1958ء۔ یہ فیلڈ مارشل ایوب خان کے اقتدار کا ہنی مون پیریڈ تھا۔ 1967ء میں جانسن آئے، یہ بھی ایوب خان کا دور تھا۔ 1969ء میں نکسن کے دورۂ پاکستان کے موقع پر فیلڈ مارشل کے جانشین جنرل یحییٰ خان سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ 1977ء میں یہ جنرل ضیاالحق کے مارشل لا کے ابتدائی مہینے تھے جب کارٹر تہران اور نئی دہلی کے دورے پر آئے اور حکومت پاکستان کی بھرپور کوشش اور خواہش کے باوجود اسلام آباد میں چند گھنٹے کے سٹاپ اوور پر بھی آمادہ نہ ہوئے (ضیاالحق پاکستان اور فرانس کے درمیان بھٹو دور میں کئے گئے ایٹمی پلانٹ کے سودے سے دستبرداری پر آمادہ نہ تھے... دسمبر 79ء میں سوویت فوجوں کی افغانستان آمد پر پاک امریکہ تعلقات کی کہانی تاریخ کا ایک الگ باب ہے) اور اب کلنٹن جنوبی ایشیا کے دورے پر آ رہے تھے۔ نواز شریف نے ایٹمی دھماکوں کے معاملے پر ان کی ایک نہ سنی تھی۔ اس پر امریکی قانون کے تحت پاکستان کو پابندیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا‘ لیکن امریکی صدر مطمئن تھا کہ وزیرِ اعظم پاکستان نے اس سے کوئی چالبازی نہیں کی تھی۔ اس کھیل میں وہ straight کھیلا تھا۔ پہلے فون سے آخری فون تک اس کا کہنا تھا: ہندوستان کے جواب میں ایٹمی دھماکے خطے میں طاقت کے توازن اور پاکستان کی سلامتی اور قومی مفادات کا لازمی تقاضا ہے، جس سے وہ انحراف نہیں کر سکتا۔ اس ''شر‘‘ سے ''خیر‘‘ دونوں کے درمیان دوستانہ تعلقات کی صورت میں برآمد ہوا۔ 12 اکتوبر 1999ء کی فوجی کارروائی پر وائٹ ہاؤس کی شدید ناراضی کا اظہار امریکی سنٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل انتھونی زینی کی آٹو بائیوگرافی سے بھی ہوتا ہے جب پینٹاگان کی شدید خواہش کے باوجود وائٹ ہاؤس نے پاکستان کے فوجی طالع آزما کو منہ لگانے، اسے کوئی رعایت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اب پانچ ماہ بعد کلنٹن ادھر آرہے تھے تو بھارت کی واجپائی حکومت انہیں اسلام آباد جانے سے روکنے کے لئے سرگرم تھی۔ ادھر ڈکٹیٹر معزول وزیرِ اعظم کو عتاب کا نشانہ بنا رہا تھا‘ اور اسے بھٹو جیسے انجام سے دوچار کرنے کی سرگوشیاں عام تھیں۔ کلنٹن کا دورہ جنوبی ایشیا 19مارچ 2000ء کی شب شروع ہونا تھا کہ 7 مارچ کو وائٹ ہاؤس نے دورہ ٔ پاکستان کی تصدیق کر دی۔ دہلی سے واپسی پر انہیں 25 مارچ کو اسلام آباد رکنا تھا۔ کلنٹن کا کہنا تھا کہ ان کے دورہ ٔ پاکستان کو فوجی حکومت کو تسلیم کرنے کی نظر سے نہ دیکھا جائے۔ صدر کلنٹن اور وزیرِ خارجہ میڈلین البرائٹ کے کشمیر کے متعلق بیانات بھی نئی دہلی کے لئے باعث تشویش تھے۔ کشمیر کی کنٹرول لائن کو دنیا کا سب سے خطرناک زون قرار دیتے ہوئے صدر کلنٹن کا کہنا تھا کہ وہ ہندوستان سے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے ساتھ مذاکرات اور نیوکلیئر خطرے کی روک تھام پر بات کریں گے‘ جبکہ میڈلین البرائٹ کہہ رہی تھیں کہ تنازعہ کشمیر پر ثالثی تو نہیں؛ البتہ ہندوستان سے اس پر بات ضرور ہو گی۔ یہ بیانات نئی دہلی کے لئے بدمزگی کا باعث تھے۔ 1978ء میں جمی کارٹر آئے تھے تو خود وزیرِ اعظم مرار جی ڈیسائی نے پالم ایئرپورٹ پر ان کا استقبال کیا تھا۔ اب کلنٹن کے استقبال کے لئے بھی اسی روایت کے اعادے کا پروگرام تھا، لیکن وائٹ ہاؤس کے بیانات نے پرائم منسٹر آفس کو اتنا بدمزہ کیا کہ 19 مارچ کی شب 8 بج کر 9 منٹ پر امریکہ کا ایئرفورس 1 جہاز پالم ایئرپورٹ پر اترا تو سپرپاور کے 42ویں صدر، 54 سالہ بل کلنٹن، ان کی اکلوتی صاحبزادی چیلسی اور خوشدامن ڈورتھی ردھم کے خیر مقدم کے لئے وزیرِ اعظم واجپائی کے بجائے وزیرِ خارجہ جسونت سنگھ آئے تھے۔ اگلی صبح (20 مارچ) کو کلنٹن ڈھاکہ روانہ ہوئے اور اسی شب دہلی لوٹ آئے۔ 
25 مارچ کو دہلی سے روانہ ہو کر کلنٹن اسلام آباد اترے۔ سب سے پہلے امریکی فضائیہ کے دیوقامت جہاز نے لینڈ کیا تو پی ٹی وی کی اناؤنسر اسے صدر کلنٹن کا جہاز قرار دے رہی تھی، لیکن ایسا نہ تھا۔ مکمل سفید رنگ کا تیسرا طیارہ جس پر صدارتی نشان بنا ہوا تھا، اترا تو اسے مہمان صدر کا طیارہ سمجھ لیا گیا۔ وزاتِ خارجہ کے حکام بھی اسی خیال میں آگے بڑھے مگر اس میں بھی کلنٹن نہیں تھے۔ چند منٹ بعد ایک اور طیارہ اترا، یہ پاکستانی طیارہ تھا اور کلنٹن اسی میں تھے۔ اس موقع پر میزبانوں نے تکلفات (پروٹوکول) کا اہتمام کیا تھا، نہ مہمان کی طرف سے اس کی خواہش تھی۔ یہ یقینا سکیورٹی کا تقاضا تھا۔ ایئربیس سے 6 کیڈلاک کاروں کا کارواں روانہ ہوا۔ ہر کار پر امریکہ اور صدر کے ذاتی پرچم لہرا رہے تھے تاکہ کسی کو یہ اندازہ نہ ہو سکے کہ کلنٹن کس گاڑی میں ہیں۔ 
ایوانِ صدر میں جناب رفیق تارڑ نے معزز مہمان کا خیرمقدم کیا‘ لیکن دلچسپ بات یہ کہ صدرِ پاکستان 40 سیکنڈز کی تاخیر سے وہاں پہنچے جہاں کلنٹن گاڑی سے اترے۔ شاید یہ بھی سیکورٹی کا کوئی حربہ ہو۔ یہاں بھی مہمان صدر کے لئے روایتی پروٹوکول نہیں تھا۔ پاکستانی حکام کے بقول یہ خود امریکیوں کی خواہش تھی کہ مہمان صدر کے لئے گارڈ آف آنر کا اہتمام نہ کیا جائے۔ یہ بات بھی سختی کے ساتھ کہہ دی گئی کہ صدر کلنٹن جنرل مشرف کے ساتھ کوئی تصویر نہیں بنوائیں گے۔ صدر تارڑ کے ساتھ خیر مقدمی تقریب کے سوا کوئی تقریب ٹیلیویژن پر نہیں دکھائی جائے گی۔ مقصد یہ تاثر دینا تھا کہ امریکہ پاکستان کی غیر جمہوری حکومت کو کیا اہمیت دیتا ہے۔ ایوانِ صدر میں چیف ایگزیکٹو مشرف کے ساتھ مذاکرات کے دو ادوار ہوئے۔ دوسرے دور‘ جو طے شدہ پروگرام سے ہٹ کر تھا ، کے سبب صدر کلنٹن کی روانگی میں 40 منٹ کی تاخیر بھی ہوئی تو کیا نواز شریف کے بارے میں گفتگو اسی دوسرے دور میں ہوئی؟
نواز شریف کی رہائی (اور جلاوطنی) کے سلسلے میں ان کے عرب دوستوں کی دلچسپی کے حوالے سے شوکت عزیز کا کہنا ہے کہ انہوں نے لبنان کے رفیق حریری سے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی بات کی تو انہوں نے نواز شریف کے ساتھ سخت ناروا سلوک پر اپنی ناخوشی کا اظہار کرنے کے علاوہ سعودیوں کی شدید ناراضگی کا بھی ذکر کیا (سعودیوں کی ناراضگی کا اندازہ اس سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے فارن آفس اور ریاض میں پاکستانی سفارتخانے کی بے پناہ کوششوں کے باوجود شاہ فہد اور ولی عہد عبداللہ مشرف سے ملاقات کے لئے وقت دینے ایک عرصے سے انکار کرتے رہے۔ دلچسپ بات یہ کہ خود ڈکٹیٹر نے اپنی خود نوشت ''ان دی لائن آف فائر‘‘ میں نواز شریف کی رہائی اور جلاوطنی میں کلنٹن اور رفیق حریری کے کردار کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ خود نوشت کے مطابق یہ عبداللہ تھے جن کی خواہش پر وہ نواز شریف کو سعودی عرب بھیجنے پر آمادہ ہوئے کہ انہیں انکار کرنا مشکل تھا۔ ڈکٹیٹر کے بقول یہ خود اس کے اپنے سیاسی مفاد میں بھی تھا کہ اسے پاکستان میں سیاسی استحکام کا تاثر پیدا ہوا کہ اب ڈکٹیٹر کا دشمن نمبر1 بیرونِ ملک چلا گیا تھا۔ اس سے مسلم لیگ کے بطن سے ڈکٹیٹر کی وفادار نئی مسلم لیگ کی تخلیق میں بھی مدد ملی۔ نواز شریف کی موجودگی میں ، چاہے وہ جیل میں ہی ہوتے، ق لیگ بنانا آسان نہ ہوتا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved