کفایت شعاریاں
ایک انگریزی روزنامے کی شہ سرخی (مورخہ 6 جون2016ء) کے مطابق حکومت 2015-16ء کے دوران 615 ارب روپے کی اوور سپینڈنگ کر چکی ہے۔ ایوانِ صدر کا ایک سال کا خرچہ 68 کروڑ بتایا گیا ہے۔ خادم اعلیٰ پنجاب نے اپنے لیے جو طیارہ خریدنے کی خواہش ظاہر کی ہے‘ اس کی قیمت 3 ارب روپے ہے۔ سینیٹر تاج حیدر کے مطابق وزیر اعظم نے جعلی منصوبوں کا افتتاح کیا اور پرانی سڑکوں کا افتتاح کر کر کے قوم کے زخموں پر نمک پاشی کر رہے ہیں جبکہ الیاس بلور کے مطابق بی ایس ڈی پی کے فنڈز بھی جاری نہیں کیے گئے۔ اسی طرح کا ایک اور جھوٹ بھی مسلسل بولا جاتا رہا ہے کہ حکومت نے فلاں فلاں منصوبوں میں اربوں روپے کی بچت کی ہے، جس کی کبھی کوئی وضاحت نہیں کی گئی اور خدا جھوٹ نہ بلوائے تو کم و بیش آدھی پنجاب پولیس‘ حکومت اور اس کے چہیتوں کی سکیورٹی پر مامور ہے اور جرائم کی شرح روز افزوں ہے۔
مفاہمت کا خاتمہ۔۔۔۔؟
پاکستان پیپلز پارٹی کے سرکاری بیان کے مطابق اس نے نواز حکومت کے ساتھ مفاہمت ختم کر دی ہے اور حکومت کی مخالفت مزید شد و مد سے جاری رہے گی، لیکن عمران خان کے ساتھ حکومت مخالفت تحریک یا دھرنے میں شریک نہیں ہو گی
جبکہ وزیر اعظم کا استعفیٰ طلب کرنے سے وہ پہلے ہی انکار کر چکی ہے۔ تاہم مخالفانہ جد و جہد کے ساتھ ساتھ وہ حکومت کے میعاد پوری کرنے کے بھی حق میں ہے کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ اگر وہ عمران خان کے ساتھ مل کر حکومت کو گرانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اس کا منطقی نتیجہ نئے انتخابات ہوں گے جس کے لیے وہ تیار نہیں ہے اور سارا فائدہ عمران خاں اٹھا لے جائے گا؛ حالانکہ حکومت کو اگر باقی ماندہ دو سال بھی مل گئے تو اس کی الیکشن مہم ساتھ ہی شروع ہو جائے گی اور اس کے پاس لوگوں کو دینے کے لیے اتنا کچھ ہے کہ پیپلز پارٹی بہت پیچھے رہ جائے گی جبکہ تحریک چلانے کے لیے عمران خان کو اپنے ساتھ جماعت اسلامی اور زیادہ سے زیادہ پاکستان عوامی تحریک دستیاب ہوگی۔ پیپلز پارٹی کے علاوہ دیگر اپوزیشن جماعتیں بس نام کی ہی اپوزیشن ہیں‘ البتہ وکلاء اس میں ایک نئی روح پھونک سکتے ہیں جیسا کہ سپریم کورٹ بار کے صدر علی ظفر کے مطابق اگر ٹی او آرز نے طول کھینچا تو وہ سڑکوں پر ہوں گے۔ اس سے پہلے عدلیہ کے حق میں چلائی جانے والی تحریک وکلاء ہی کی وجہ سے کامیاب ہوئی تھی جس کا کریڈٹ نواز شریف کو دے دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ سول سوسائٹی بھی کرپٹ حکومت کے خلاف اٹھ کھڑی ہو گی اور اس طرح بھی پیپلز پارٹی گھاٹے میں رہے
گی اور اس کے خلاف یہ تاثر مزید پختہ ہوتا جائے گا کہ دونوں بڑی جماعتیں کبھی ایک دوسری کے خلاف نہیں جا سکتیں کہ احتساب کی تلوار پیپلز پارٹی کے سر پر بھی لٹک رہی ہے۔ علاوہ ازیں جب تک بلاول بھٹو زرداری کرپٹ انکلز کے سایۂ عاطفت سے باہر نہیں نکلتے وہ بھی زیادہ پیش رفت نہیں کر سکیں گے۔ چنانچہ حکومت کے خلاف اگر ہوا چل پڑتی ہے تو اس کا فائدہ صرف اور صرف عمران خاں ہی کو پہنچے گا کیونکہ حقیقی اپوزیشن بھی اب تحریک انصاف ہی رہ گئی ہے۔ اور پاناما لیکس کے علاوہ بھی اگر وزیر اعظم کے خلاف دروغ گوئی کے کھلے الزامات لگتے رہے تو بھی سرجری کے بعد ان کا تازہ دم ہو جانا بیچ ہی میں رہ جائے گا جبکہ موصوف کی اخلاقی پوزیشن پہلے ہی نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔
کلیات نثر مجید امجد
یہ کتاب ڈاکٹر محمدافتخار شفیع نے مرتب کی ہے جو ایک عمدہ شاعر بھی ہیں‘ جسے بیت الحکمت لاہور نے چھاپا ہے اور کتاب پر قیمت درج نہیں ہے۔ مجید امجد صدی چونکہ رواں دواں ہے‘ اس لیے یہ کتاب بھی قابلِ توجہ قرار دی جائے گی۔ یہ زیادہ تر ہم عصر شعراء کے مجموعوں کے دیباچوں پر مشتمل ہے جو قیام ساہیوال کے دوران ان کے آس پاس پائے جاتے تھے اور جن میں شاید ایک بھی اعلیٰ درجے کا شاعر نہیں تھا اور جن میں شیر افضل جعفری‘ کبیر انور جعفری‘ جعفر شیرازی‘ اشرف قدسی‘ بشیر احمد بشیر‘ حکیم محمد افضل ہرل‘ ناصر شہزاد‘ مراتب اختر‘ مصطفی زیدی اور رفعت سلطان وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بعض شعراء مثلاً شہزاد احمد‘ بلراج کومل اور حمایت علی شاعر کی نظموں کے تجزیے ہیں۔ اس کے علاوہ فسانہ آدم کے عنوان سے ایک انگریزی کتاب کا نامکمل ترجمہ اور اس کا عکس ہے جو کہیں اشاعت پذیر نہ ہو سکا۔ مزید برآں یاد نگاری کے عنوان کے تحت مولانا صلاح الدین احمد کی وفات پر تعزیتی مضمون ہے‘ ایک مضمون تخت سنگھ کے بارے میں ہے۔ اس کے علاوہ اداریے اور فکاہی کالم ہیں‘ تراجم کا باب ہے اور بچوں کا ادب۔
کتاب کا ایک حصہ مجید امجد کے دو انٹرویز پر مشتمل ہے جن میں سے ایک ڈاکٹر خواجہ محمد ذکریا نے لیا ہے اور دوسرا پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے یوسف کامران کا لیا ہوا ہے، نیز نئے تناظر میں مجید امجد شناسی پر مولف کا اپنا مضمون ہے۔
پسِ سرورق تحریر کے مطابق مجید امجد (1914-1974ء) کی نثر تنقید‘ یادنگاری‘ کالم نویسی‘ تراجم اور بچوں کے ادب پر مشمل ہے۔ انہوں نے متنوع اور رنگا رنگ موضوعات کو چنا ہے۔ ایک متحرک تخلیقی کردار ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک زرخیز تجزیاتی دماغ کے حامل بھی تھے۔ شاعری کی طرح ان کی نثر بھی زندگی کے حقیقی تجربات سے معمور ہے۔ ان کے ہاں ایک خاص قسم کا تدریجی ارتقاء دکھائی دیتا ہے۔ مجید امجد کی تنقید میں جدید ترین افکار کی صدائے بازگشت تو سنائی نہیں دیتی البتہ ایک سائنسی انداز فکر سے اشیاء اور ان کی ماہیت کو سمجھنے کا شعور دیکھا جا سکتا ہے۔ بعض اوقات ان کا انداز ایک تحقیق کار اور تاریخ نویس کا ہو جاتا ہے، لیکن اسلوب میں تخلیقی رنگ بہ ہر رنگ برقرار رہتا ہے۔ یہ ایک ایسے عظیم تخلیق کار کی نثر ہے جس کے جدید اردو نظم پر گہرے اثرات ہیں۔ اس لحاظ سے اس کی نثر اس کے عہد اور اس کے معاصرین کے ادبی رجحانات کی عکاس ہے۔ اس سے خود اس کی مطالعاتی سمتوں کا ادراک بھی ہوتا ہے۔
آج کا مقطع
گردِ رسوائی ابھی جھاڑ کے بیٹھا ہوں، ظفرؔ
دل ہے، کیا جانے کوئی اور حماقت کر دے