انسانی تاریخ کے عظیم ترین باکسر محمد علی کی نمازِ جنازہ اُن کے قصبے لوئی ویل میں ادا کر دی گئی۔ایک روز قبل اُنہیں سپردِ خاک کیا جا چکا۔ اُنہیں ہزاروں افراد نے الوداع کہا، اور دور دور سے آنے والے اُن کی آخری رسومات میں شریک ہوئے۔ محمد علی کالے امریکی تھی، اُنہوں نے اسلام قبول کیا، تو عالم ِ اسلام کے دِل کی دھڑکن بن گئے۔ آخری30برسوں میں اگرچہ پارکنسن کے ہاتھوں زچ رہے، تاہم ان کی شخصیت کا سحر ختم نہیں ہوا۔ جہاں جاتے مرجع خلائق ہوتے۔ بڑے بڑے رہنما ان سے ملنے اور ان کے ساتھ تصویر بنوانے کے لیے بے تاب ہو جاتے۔ کئی سال پہلے لاہور آئے تھے تو مجھے بھی اپنے بچوں کے ساتھ اُن سے ملنے کا شرف حاصل ہوا تھا۔ وہ عظیم باکسر ہونے کے ساتھ ساتھ عظیم انسان بھی تھے۔ اللہ پر کامل یقین رکھنے اور مشکل فیصلے کر گزرنے والے۔ انہوں نے کالے امریکیوں کو بھی ایک نئی توانائی عطا کی۔ جب انہیں ویت نام میں جا کر فوجی خدمات ادا کرنے کے لیے کہا گیا، تو انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اسلام امن کا دین ہے۔ اس پر ان کی حب الوطنی پر سوالات کھڑے ہو گئے، انہیں مشکلات سے گزرنا پڑا، لیکن انہوں نے قانونی لڑائی لڑی اور سپریم کورٹ میں اپنا مقدمہ جیت لیا۔ ان کے اعزازات بحال ہوئے اور ایک نئی شان کے ساتھ انہوں نے اپنا سفر شروع کر دیا۔محمد علی محبت کے پیامبر تھے۔ وہ لوگوں کو جوڑتے تھے۔ امریکہ میںبھی انہوں نے نسل، رنگ اور مذہب کے تعصبات کے خلاف جدوجہد کی، کسی ایک گروپ کو دوسرے کے خلاف اُکسایا نہیں۔ انہیں ایک دوسرے کے ساتھ ملایا۔ ان کی اپیل پوری انسانیت کے لیے تھی، اِسی لیے انہیں ''گلوبل سٹیزن‘‘ کہا جاتا تھا۔؎ ہر مُلک ملکِ ما است... کہ ملک خدائے ما است
انہوں نے قانون کو کبھی ہاتھ میں نہیں لیا۔ ویت نام پر اپنے موقف کے خلاف اقدامات کے خلاف بھی قانونی لڑائی لڑی، اسے کسی ہنگامے یا شورش کا عنوان نہیں بننے دیا۔ اُن کی شخصیت کا یہ پہلو اُنہیں اُن کے ہم نام، اور ہمارے قائداعظم... محمد علی جناحؒ... کے قریب کھڑا کر دیتا ہے کہ قائد نے بھی قانون شکنی کو شعار نہیں بنایا، اور ہمیشہ اپنا مقدمہ دلیل کی قوت سے لڑا ، اور جیتا۔
محمد علی کے نام میں دو انتہائی مبارک ہستیوں کے نام یکجا ہو گئے تھے، انہوں نے ان کی لاج رکھی، اور اپنی اولوالعزمی اور مسلسل محنت سے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ حُسن ِ اتفاق ہے کہ اسلامیان برصغیر (پاک و ہند) کی قیادت بھی محمد علی(جناح) کے حصے میں آئی، اور ان سے پہلے ایک اور محمد علی (جوہر) نے ان کے تن ِ مردہ میں تحریک ِ خلافت کے ذریعے نئی روح پھونکی۔ برطانوی راج کے دوران مسلمانوں کے دو رہنما ممتاز ترین ہوئے، اور یہ دونوں محمد علی تھے...محمد علی جناحؒ نے جہاں ایک نئی مملکت کی بنیاد رکھی، وہاں باکسر محمد علی نے تصورات کا نیا جہاں آباد کیا۔ جناب باکسر عظیم ترین کہلاتے تھے، انہیں ناقابل ِ تسخیر سمجھا جاتا تھا، لیکن پہلے وہ پارکنسن کے سامنے بے بس ہوئے تو اب موت کے سامنے انہیں ہار ماننا پڑی۔
بیس برس پہلے ''ینگ مسلم‘‘ نامی ایک امریکی مجلے کے دو نمائندوں شاہین احمد اور عبدالمالک مجاہد نے ان سے ایک انٹرویو کیا تھا۔ عبدالمالک مجاہد سائونڈ ویژن ڈاٹ کام کے سربراہ ہیں، اور مختلف سماجی اداروں میں سرگرم کردار ادا کر رہے ہیں، امریکہ میں انہیں امام مجاہد کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس انٹرویو کے بعض حصے اِس قابل ہیں کہ ان کا بار بار مطالعہ کیا جائے۔
س: آپ کو اپنے آپ پر ہمیشہ انتہائی اعتماد رہا۔ آپ اپنے آپ کو ''عظیم ترین‘‘کہلاتے رہے۔ آپ ایک عاجز مسلمان کے طور پر خود کو اِس تصور سے کیسے ہم آہنگ کر پاتے ہیں۔
ج: اللہ عظیم ترین ہے، مَیں تو بس عظیم ترین باکسر ہوں۔
س: اولمپکس میں شمع روشن کرتے ہوئے آپ نے کیا محسوس کیا؟ آپ واحد مسلمان ہیں جنہیں یہ موقع ملا۔
ج: اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ ایک مسلمان کا یہ نمایاں کردار اسلام کو نمایاں ہونے میں مدد دے گا(یعنی اس کے مذہب کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول ہوگی) اِس بات نے مجھے مسرور کر دیا۔
س: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کے قبولِ اسلام نے مائیک ٹائی سن اور کلیم عبدالجبار کو اِس طرف مائل کرنے میں مدد دی ہے۔
ج: اللہ ہی جانتا ہے۔
س:اب ہر کوئی آپ کو محمد علی کے نام سے جانتا ہے، لیکن ایک وقت تھا جب سپورٹس رائٹر اور پریزنٹرز آپ کے مسلمان نام کو تسلیم کرنے سے انکاری تھے۔ آپ کو یہ کیسا محسوس ہوتا تھا؟
ج:مجھے اس سے کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔
(یہاں مرحوم کی اہلیہ سونی علی نے مداخلت کی، شروع شروع میں محمد، جب تمام سپورٹس رائٹرز، تمام اخبار نویس آپ کو عیسائی نام کاسس کلے سے پُکار رہے تھے، اور محمد علی کہنے سے انکاری تھے۔)
محمد علی:مَیں نے ان کے چھکے چھڑا دیے۔
س: آپ نے کہا تھا، امریکہ کی دولت اور تمام ان لوگوں کی دوستی جو ویت نام جنگ کی حمایت کرتے ہیں، میرے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتی، اگر مَیں اندر سے مطمئن نہیں ہوں، اور اللہ کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہوں۔ آپ ان نوجوانوں کو کیا مشورہ دیں گے، جن پر دبائو ہے کہ وہ مقبولیت حاصل کرنے کے لئے اپنے عقائد پر سمجھوتہ کر لیں۔
ج: ڈٹے رہیے۔ قرآن پڑھیے، نماز ادا کیجئے، اللہ تعالیٰ سے لو لگایے۔ یہ چیزیں آپ کی معاون ہوں گی۔
س: نماز نے زندگی کے چیلنج قبول کرنے میں آپ کی کس طرح معاونت کی۔
ج: نماز نے مجھے مضبوط بنا دیا۔
س:ایف بی آئی آپ کی کڑی نگرانی کرر ہی تھی، آپ کو ویت نام جنگ میں حصہ نہ لینے کی وجہ سے مجرم گردانا گیا تھا، آپ کا ٹائٹل واپس لے لیا گیا تھا، پاسپورٹ ضبط کر لیا گیا تھا، ساڑھے تین سال آپ کو باکسنگ کی اجازت نہیں ملی۔ آپ نے تلخ احساسات پر کس طرح قابو پایا؟
ج:میں نے جو کچھ بھی کیا، اللہ کے لئے کیا۔
(سونی علی نے مداخلت کی: محمد علی کو کسی پر غصہ نہیں آتا، ان کا رویہ ہمیشہ یہی رہا ہے کہ جو بھی رکاوٹ راستے میں آتی ہے، وہ اللہ کی طرف سے (آزمائش) ہوتی ہے۔)
س:کین نورتن کے خلاف کھیلتے ہوئے آپ کا جبڑا ٹوٹ گیا لیکن آپ نے 12رائونڈ مکمل کئے، مقابلہ جاری رکھا۔ سونی لسٹن کے خلاف معرکے میں آپ کی ایک آنکھ کی بینائی (عارضی طور پر) ختم ہو گئی اور آپ بمشکل دیکھ پا رہے تھے، اس کے باوجود آپ جیت گئے، وہ کیا بات تھی جس نے آپ کو ان مشکلوں میں بھی توانا رکھا۔
محمد علی جواب میں نماز کی ادائیگی کے لئے ہاتھوں کو حرکت دیتے ہیں، مطلب یہ کہ اللہ کی طرف رجوع نے۔
س: کامیابی پر آپ کیا محسوس کرتے ہیں؟
ج: مَیں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔
س: رِنگ میں اور زندگی میں ناکامی کا سامنا آپ کیسے کرتے ہیں؟
ج: میں جو کچھ ممکن ہوتا ہے کرتا ہوں اور نتیجہ اللہ پر چھوڑ دیتا ہوں۔
س: زندگی کا سب سے تکلیف دہ لمحہ کیا تھا،آپ کے لئے؟
ج: (طویل وقفہ لے کر سوچتے ہوئے) اپنی پہلی بیوی کو طلاق دینا میری زندگی کا سب سے تکلیف دہ لمحہ تھا۔(سونی علی نے مداخلت کی، انہیں بتایئے کہ اس کی وجہ کیا تھی وگرنہ یہ شاید سمجھ نہ پائیں)
اس نے اسلام قبول نہیں کیا تھا۔
س: آپ نے عالمی ہیوی ویٹ چیمپئن شپ تین بار جیتی اور 19 بار اس کا کامیابی سے دفاع کیا۔ اب آپ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟
ج: اسلام کی تبلیغ اور بس۔
س: آپ اپنی سخاوت کی وجہ سے مشہور ہیں اور ایسے بھی واقعات ہیں کہ آپ نے اجنبیوں پر بہت کچھ لٹا دیا، دولت (کی وقعت) آپ کے نزدیک کیا ہے؟
ج: میرے دل میں، میری نیت اچھی ہے، اس لئے میں یہ کر گزرتا ہوں، اسی کی اصل اہمیت ہے۔
س: 1960ء کا عشرہ تشدد اور خونریزی کا عشرہ تھا۔ میلکم ایکس، جان ایف کینیڈی، باب کینیڈی، مارٹن لوتھر کنگ مار ڈالے گئے،
(بقیہ:صفحہ 13 پر)
کیا آپ کو بھی جان کا خطرہ لاحق ہوا؟
ج: نہیں، میںان کابھرکس نکال دوں گا۔
س: آپ کے نزدیک آپ کی سب سے بڑی کامیابی کیا ہے؟
ج: قبول اسلام
س: آپ کو کون سی مسجد سب سے زیادہ پسند ہے؟
ج: ہر مسجد، میں سب مسجدوں کو پسند کرتا ہوں کہ ہر ایک کا رخ مکے کی طرف ہے۔
س: محبوب ترین کتاب؟
ج: عجیب سوال ہے، بھئی، قرآن۔
س: پسندیدہ خوراک؟
ج: چکن اور چاول، کسی مسلم ملک میں جائوں تو دنبے کا گوشت اور چاول، اس کے علاوہ آئس کریم۔
س: پسندیدہ رنگ؟
ج: کالا۔
س: پسندیدہ پھول
ج: گلاب۔ لیکن مجھے اللہ کی ہر تخلیق پسند ہے۔
محمد علی اِس دُنیا میں نہیں رہے وہ وہاں جا بسے ہیں، جہاں ہم سب کو ایک دن جانا ہے، لیکن وہ دِلوں میں موجود رہیں گے۔ ان کی نماز جنازہ میں شریک ہونے ترکی کے صدر طیب اردگان پہنچے، اردن کے شاہ عبداللہ پہنچے، لیکن صدرِ پاکستان نے زحمت گوارا نہیں کی۔ پاکستان کی نمائندگی امریکہ میں مقیم ہمارے سفیر جلیل عباس جیلانی نے کی۔ لگتا ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ذمہ داران اپنے آپ کو مسلم امہ سے دور کرتے جا رہے ہیں، اپنے آپ کو محدود کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔انہیں کچھ یاد نہیں آرہا کہ ع
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
کیاآپ کو بھی جان کا خطرہ لاحق ہوا؟
ج: نہیں، میںان کابھرکس نکال دوں گا۔
س: آپ کے نزدیک آپ کی سب سے بڑی کامیابی کیا ہے؟
ج: قبول اسلام
س: آپ کو کون سی مسجد سب سے زیادہ پسند ہے؟
ج: ہر مسجد، میں سب مسجدوں کو پسند کرتا ہوں کہ ہر ایک کا رخ مکے کی طرف ہے۔
س: محبوب ترین کتاب؟
ج: عجیب سوال ہے، بھئی، قرآن۔
س: پسندیدہ خوراک؟
ج: چکن اور چاول، کسی مسلم ملک میں جائوں تو دنبے کا گوشت اور چاول، اس کے علاوہ آئس کریم۔
س: پسندیدہ رنگ؟
ج: کالا۔
س: پسندیدہ پھول
ج: گلاب۔ لیکن مجھے اللہ کی ہر تخلیق پسند ہے۔
محمد علی اِس دُنیا میں نہیں رہے وہ وہاں جا بسے ہیں، جہاں ہم سب کو ایک دن جانا ہے، لیکن وہ دِلوں میں موجود رہیں گے۔ ان کی نماز جنازہ میں شریک ہونے ترکی کے صدر طیب اردگان پہنچے، اردن کے شاہ عبداللہ پہنچے، لیکن صدرِ پاکستان نے زحمت گوارا نہیں کی۔ پاکستان کی نمائندگی امریکہ میں مقیم ہمارے سفیر جلیل عباس جیلانی نے کی۔ لگتا ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ذمہ داران اپنے آپ کو مسلم امہ سے دور کرتے جا رہے ہیں، اپنے آپ کو محدود کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔انہیں کچھ یاد نہیں آرہا کہ ع
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
(یہ کالم روزنامہ '' دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)