برطانیہ میں کیے گئے ایک حالیہ سروے میں عوام نے دیے گئے تمام آپشنز کو مسترد کرتے ہوئے ''ان میں سے کوئی نہیں ‘‘ کے آپشن پر نشان لگایا۔ اُن سے پوچھا گیا سوال یہ تھا کہ وہ جس عقیدے پر ایمان رکھتے ہیں، اُسے مارک کریں۔ شاید تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا تھا کہ برطانوی افراد نے خو دکو مسیحی پیروکار ہونے کی بجائے ''بے دین ‘‘ قرار دیا تھا۔ یہ ایک ایسے ملک میں ہونے والی بہت بڑی پیش رفت ہے جس کے سرکاری مذہب کو چرچ آف انگلینڈ کے ساتھ وابستہ کیا گیا تھا۔
باعمل عیسائیوں کی تعداد میں کمی کا اظہار اتوار کو ملک بھر کے چرچوں میں خالی نشستوں سے بھی ہوتا ہے ۔ اورچرچ سروس میں شریک ہونے کے لیے آنے والے افراد بھی کسی مذہبی جذبے سے سرشار نہیں ہوتے، وہ محض ایک سماجی رسم نبھانے کے لیے چلے آتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ابھی تک شادیاں ، بچوں کا بپتسمہ اورمرحومین کے جنازے چرچ میں ہی ہوتے ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ زیادہ تر پیدا ہونے والے بچوں کے والدین شادی شدہ نہیں ہوتے ۔نیز بہت سے جوڑے مذہبی رسومات کی بجائے سول میرج کو ترجیح دیتے ہیں۔ زیادہ تر جوڑے عمر بھر شادی کے بغیر ساتھ رہتے ہیں اور ''علیحدگی ‘‘ کی صورت میں اُن کے بھی وہی حقوق ہوتے ہیں جو روایتی طو رپر شادی شدہ جوڑوں کے ۔
اس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ برطانیہ بھی مذہب کے دور کو چھوڑ کر آگے بڑھ رہا ہے ۔ یہاں مذہب کا افراد کی روز مرہ
کی زندگی یا اجتماعی مکالمے میں کوئی کردار نہیں رہا۔ اور یہ تبدیلی صرف برطانیہ میں ہی نہیں، مغربی یورپ اور سکینڈے نیویا کے بہت سے ممالک میں دکھائی دیتی ہے ۔ ایک سروے کے مطابق سویڈن میں، جس میں مسیحی افراد کل آبادی کا 80 فیصد ہیں، صرف 16.5 فیصد افراد نے کہا کہ اُن کی زندگی میں مذہب کا کچھ کردار ہے ۔ فن لینڈ، ناروے اور ڈنمارک میں ہونے والے سروے بھی ایسے ہی نتائج کے حامل ہیں۔ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور برطانیہ جیسے ممالک میں یکساں رجحان دکھائی دیتا ہے ۔ یہاں نوجوان نسل کی ایک بڑی تعداد خود کو لادین قرار دیتی ہے ۔ تاہم مذہب سے دوری اور چرچ حاضری میں نمایاں کمی کے باوجود ان ممالک میں قانون کا نظام درہم برہم نہیں ہوا ، اور نہ ہی شخصی یا عوامی اخلاقیات میں کوئی کمی دیکھنے میں آئی ۔ بلکہ یورپ کے کچھ ممالک میں حالیہ برسوں میں جرائم اور الکحل کے استعمال میں کمی کی رپورٹس ملی ہیں۔ مندرجہ بالا ممالک ٹرانسپرنسی انٹر نیشنل کی بدعنوان ممالک کی فہرست میں بہت نیچے اور انسانی خوشی کی فہرست میں بہت بلند درجے پر ہیں۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ ان ممالک کا جی ڈی پی بہت بلند ہے ؛ چنانچہ ایک بات برملا کہی جاسکتی ہے کہ اس وقت سیکولر ریاستیں دنیا میں ترقی اور خوشحالی کے سفر میں سب سے آگے ہیں۔
دوسری طرف وہ ریاستیں ، جو خود کو کسی نہ کسی عقیدے سے وابستہ قرار دیتی ہیں، اُن کا عالمی ترقی میں کوئی درجہ یا کردار نہیں۔ یہ ریاستیں خواہ مسلم ہوں یا ہندو، بدھ یا دیگر انتہا پسندانہ سوچ رکھنے والی، زیادہ تر پسماندہ، غریب ، جاہل اور کثیر آبادی رکھنے والی ہوںگی۔ گزشتہ چند عشروں کے دوران کچھ ایشیائی ریاستوں، جیسا کہ چین ، جاپان اور جنوبی کوریا نے بے پناہ ترقی کی ہے۔ ان میں کوئی ملک بھی متشدانہ نظریات کی آبیاری نہیں کرتا، جرائم کنٹرول میں ہیں اور عوام خوشحال۔ ان میں چین اعلانیہ طور پر خود کو ایک لادین ریاست قرار دیتا ہے ۔ اگرچہ تمام مذہب امن اورعدم تشدد کے داعی ہیں لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ ان مذاہب پر یقین رکھنے والے ان نظریات سے دور دکھائی دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ بدھ مذہب کے پیروکار بھی،جنہیں انتہائی پرامن سمجھا جاتا ہے ، پرتشدد کارروائیوں میں ملو ث پائے گئے ہیں۔ سری لنکا میں ہونے والی ہولناک خاجہ جنگی کے دوران بدھ آرمی پر جنگی جرائم کے ارتکاب کا الزام لگا، میانمار میں بدھ راہب روہنگیاکے مسلمانوں کے خلاف وحشیانہ تحریک چلاتے دکھائی دیے، اورتھائی لینڈ کے جنوبی علاقوں میں بدھ فوج علیحدگی پسند مسلمانوں کے خلاف کم درجے کی خانہ جنگی میں مصروف ہے ۔
زیادہ تر مسلمان ریاستوں میں مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کا قتل اتنا عام ہے کہ اسے دہرانے کی ضرورت نہیں۔ اگرچہ مسلمان اس بات کو دہراتے نہیں تھکتے کہ اسلام امن کا مذہب ہے لیکن دیگر دنیا اس بات کو تسلیم نہیں کرتی۔ شدت پسندانہ نظریات نے ہی القاعدہ سے لے کر داعش جیسے دہشت گروہوں کو تحریک دی ہے ۔انڈیا میں شدت پسند ہندوقوم پرستی نے معاشرے کو اس طرح جکڑ لیا ہے جس سے گزشتہ کئی صدیوں سے ہندو معاشرہ ناآشنا تھا۔ اس سے پہلے ہندو مذہب ، جو کئی ایک دیوتائوں پر یقین رکھتا ہے ، اپنے عقیدے پر سمجھوتہ کیے بغیر دیگر مذاہب کے لیے لچک رکھتا تھا ، لیکن آج ہندوتوا پر اس بات کا اطلاق نہیں ہوتا۔ آج اس عقیدے پر یقین رکھنے والے لاکھوں پیروکار شدت پسند جنگجو بن کر سامنے آرہے ہیں۔
یہ مثالیں سامنے رکھتے ہوئے کیا یہ سوال نہیں پیدا ہوتا کہ آخر سیکولرازم میں کیا حرج ہے ؟کیا مذہب کے نام پر جنونیت سے بھری دنیا میں یہی ایک جائے مفرباقی نہیں بچی؟مختلف نظریات کے ادغام سے وجود میں آنے والی 18ویں صدی کی روشن خیالی ایک سیکولر تصور کی بات کرتی تھی کہ انتہا پسند انہ چرچ کو ریاست سے الگ کردیا جائے ۔ 1789 ء کا امریکی دستور سیکولر ازم کا پہلا رہنما اصول تھا۔ اس کے بعد بہت سی جمہوری ریاستوں نے اس اصول کی اس طرح پیروی کی کہ مذہب کو عوامی زندگی میں کردار ادا کرنے سے روک دیا۔ اس کے نتیجے میں وہ ترقی یافتہ اور خوشحال ہوگئیں۔ آج دنیا ان کی ترقی کو رشک بھری نگاہ سے دیکھتی ہے ۔ ترقی پذیر دنیا میں اسی دوران ایک اور رجحان ابھرا۔ نوآبادیاتی دور اور دوسری جنگ ِ عظیم کے خاتمے کے بعد، جب مغربی طاقتیں واپس چلی گئیں تو آزاد ہونے والی ریاستوں میں جو اشرافیہ اقتدار میں آئی، وہ سیکولر ہی تھی لیکن اس کی بدعنوانی اور ناقص گورننس کی وجہ سے ایک خلا پیدا ہوا اور مذہبی جماعتوں کو اس میں پائوں جمائے کا موقع مل گیا۔ چنانچہ ان ریاستوں میں جیسے جیسے سیکولرازم دم توڑتا گیا، مذہبی انتہا پسندی اپنی جگہ بناتی گئی۔ ان معاشروں میں سیکولر ازم سے نفرت اتنی بڑھی کہ جدید تعلیم ، جدید ریاست کے تصورات اور سائنس اور منطق کو بھی لادینی علم قرار دے کر رد کردیا گیا۔ مختصر یہ کہ عقل اور روشن خیالی کو مغربیت اور رجعت پسندی کو مذہب کی پہچان مانا گیا۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ایسا کرنے والی ریاستیں ترقی کی شاہراہ پر چل نکلیں ، جبکہ مذہب کو ریاست کے ساتھ وابستہ کرنے والی ریاستیں بہت پیچھے رہ گئیں۔