تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     13-06-2016

جو بھی چل نکلی ہے‘وہ بات کہاں ٹھہری ہے

عمران خان ، خواجہ آصف اورحمد اللہ صاحب کے اسلوبِ کلام کے بارے میں لغت خاموش نہیں۔ایک نہیں، بہت سے الفاظ ہیں۔میں ان کے استعمال سے دانستہ گریز کر رہا ہوں۔جہاں 'ذلالت‘ اور 'ضلالت‘ کا فرق واضح نہ ہو وہاں گریز ہی بہتر ہے۔الفاظ میں الجھے بغیر،ہم سب جانتے ہیں کہ یہ اندازِ گفتگو کس طبقے میں مستعمل ہے۔میں ،لیکن یہاں ایک دوسرے پہلو کو نمایاں کر نا چاہتا ہوں۔کوئی چاہے تو انہیں منفرد واقعات قرار دے سکتا ہے ، مگر میں انہیں ایک ہی سلسلہ واقعات کی کڑیاں سمجھتا ہوں۔ایک دوسرے میں پیوست، ایک دوسرے سے جڑی ہوئیں۔میرے لیے تو یہ بھی مشکل ہے کہ میں ماں کے ہاتھوں زندہ جلائی گئی بیٹی کو بھی ان واقعات سے الگ دیکھ سکوں۔
اہل سیاست، اہلِ مذہب اور اہل صحافت نے مل کر ایک کلچر کو رواج دیا ہے۔ہیجان،نفرت،انتہا پسندی، مایوسی.....یہ اس کلچر کے اجزائے ترکیبی ہیں۔میڈیا شب و روز سیاست دان دانوں کی طویل تقریریں 'براہ راست‘ سناتا ہے جن میں عوامی جذبات کو بھڑکایا جا تا ہے۔اسی پر اکتفا نہیں،ان سیاست دانوں کو چن چن کر ٹاک شوز کی زینت بنایا جا تا ہے جن کی شہرت یاوہ گوئی اور دشنام طرازی ہے۔شیخ رشید اور غالباًکراچی سے کوئی عابدی صاحب ہیں‘یہ ٹی وی پروگراموں میں سب سے زیادہ بلائے جاتے ہیں۔ان کی سیاسی حیثیت پوری قوم پر واضح ہے۔اپنے بل بوتے پرجب انتخابات میں کھڑے ہوتے ہیں تو ضمانت ضبط ہو جاتی ہے۔پھر وہ کیا معیار ہے کہ سب سے زیادہ ٹی وی چینلز پر ان کا چہرہ دکھائی دیتا ہے؟ظاہر ہے 'یاوہ گوئی‘۔
دلیل یہ ہے کہ ریٹنگ اچھی آتی ہے۔یہی عوامی مقبولیت کا جنون ہے جو سیاست دانوں کو اکساتا ہے اور وہ داد وصول کرنے 
کے لیے دوسروں کے نام رکھتے،ان کی تضحیک کرتے، ان پر دشنام باندھتے اور پست اخلاقیات کا مظاہرہ کرتے ہیں۔اہل ِ مذہب منبرو محراب سے،جس لب و لہجے میں کلام کرتے ہیں،ہم میں سے کون ہے جو اس سے واقف نہیں ہے۔کیا ہم نہیں جانتے ہیں کہ کس طرح عوام کے جذبات کو مشتعل کیا جا تا ہے۔ان سب کی مشترکہ اور کامیاب کو ششوں کا حاصل یہ ہے کہ عوام کی قوتِ برداشت ختم ہو چکی۔بات بات پر قتل ہونے لگے ہیں۔سماج لطیف احساسات سے محروم ہو تا جا رہا ہے۔ سیاست دان ،علما، اور میڈیا، یہ رجحان ساز لوگ ہیں۔انہوں نے معاشرے میں جس رویے کو پروان چڑھایا ہے،وہ اب معاشرے کا روز مرہ بن چکا ہے۔
ہم نے جو طرزِفغاں کی ہے قفس میں ایجاد
فیض گلشن میں وہی طرزِ بیاں ٹھہری ہے
سیاست دان دو طرح سے معاشرے کو متاثر کرتے ہیں۔ایک اپنی حکمتِ عملی سے،اگر حکومت تک پہنچ چاہیں۔ دوسرے اپنے طرزِ عمل سے۔یہ لازم نہیں کہ سب اقتدار کی دہلیزکو پار کر سکیں لیکن وہ سیاسی کلچر پر بہر صورت اثر انداز ہوتے ہیں۔مو لانا مو دودی اور نواب زادہ نصراللہ خان کبھی اقتدار میں نہیں رہے۔کشمیر کمیٹی کا سربراہ ہونا، اقتدار میں شریک ہو نا نہیں ہے۔اس بات سے مگر کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ان حضرات کے وجود نے سیاسی کلچرکو شائستہ بنایا۔اِن سے پہلے قائد اعظم، مولانا ابوالکلام آزاد، گاندھی اورنہرو۔ ابوالکلام کا توسیاست ہی نہیں، ہماری تہذیبی روایت پر بھی گہرا اثرہے۔ مولانا مودودی اورنوا بزادہ نصراللہ خان دونوں ، مولانا آزاد کے خوشہ چینوںمیں سے تھے۔یہ امرِواقعہ ہے کہ دونوں کے اسلوب ِ کلام اور طرزِ سیاست پر ان پر گہرے اثرات تھے۔لوگوں نے مولانا آزادکے ایک سیاسی فیصلے سے اختلاف کیا اور یہ فیصلہ ان کی خوبیوں کے اعتراف میں حجاب بن گیا ہے۔
یہ بھٹو صاحب کی آمد ہے جس نے ہمارے سیاسی کلچر کوایک نئے اسلوب سے متعارف کرایا۔اس میں مخالفین کی تضحیک تھی اور تشدد بھی۔اس سے پہلے بھی لوگ سیاسی مخالفین کو برا بھلا کہتے تھے مگر نجی اور محدود مجالس میں۔بھٹو صاحب نے مجمع عام میں مخالفین کا مذاق اڑایا۔وہ ایک رجحان ساز آ دمی تھے۔انہوں نے ایک پوری نسل کے لب و لہجے کو متاثر کیا۔اس کا ایک مظہرشیخ رشید ہیں۔ان کی اسی صلاحیت نے انہیںنوازشریف صاحب سے قریب کیا۔میاں صاحب جو بات خود نہ کہتے، وہ ان سے کہلواتے۔بھٹو صاحب کے اسلوب کو موصوف نے ایک بازاری آہنگ دیا۔ بے نظیر صاحبہ کے بارے میں مسلم لیگ نے ایک تحریک چلائی جس کا اخلاقیات سے کوئی تعلق نہیں تھا۔اس کے خالق حسین حقانی تھے۔ 
میثاقِ جمہوریت ہمارے سیاسی سفرکا ایک اہم سنگِ میل ہے۔اس میں دو بڑی سیاسی جماعتوں نے ایک نئے سیاسی کلچر کی بنیاد رکھی۔یہ دستاویز پاکستان میں ایک نئے عہد کا نقطۂ آغاز بن سکتی ہے۔ اسی کا اثر تھا کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کا لب و لہجہ تبدیل ہوا۔اہلِ سیاست نے زبانِ حال سے اس کا اعتراف کیا کہ ان کی کم نگاہی ہے جو فوجی آمریتوں کے لیے راستہ ہموار کرتی ہے۔بے نظیر بھٹو صاحبہ اب محض سیاست دان نہیں، ایک مدبر شخصیت تھیں۔افسوس کہ جب پاکستان ان سے،سب سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتا تھا،انہیں مار ڈالا گیا۔نوازشریف صاحب اور زرداری صاحب نے اسی کلچر کو آگے بڑھانے کی کوشش کی۔بات کچھ آگے بڑھی تو عمران خان صاحب کی سیاست کے دورِثانی کا آغاز ہو گیا۔انہوں نے اس ملک کی سیاست کو جو کچھ دیا،اس کے متاثرین میں پورا معاشرہ شامل ہے۔یوںمیثاقِ جمہوریت کے بعد جو پیش ِ رفت ہوئی، وہ ترقی معکوس کی نذر ہوگئی۔اب عمران خان ہیں، خوا جہ آصف ہیں یا پھر حمداللہ۔اسی طرز کے لوگ میڈیا کے بھی چہیتے ہیں۔دور دور تک کوئی مو لا نا مودودی کاجانشین ہے نہ نواب زادہ نصراللہ خان کا ۔
جہاں سماجی اقدار اور سیاسی کلچر مستحکم ہوں وہاں حکومتوں کی تبدیلیاں عام آ دمی پر بہت زیادہ اثر انداز نہیں ہوتیں۔رحجان ساز لوگ اس کاا ہتمام کرتے ہیں کہ وہ ان دونوں کو مضبوط بنائیں۔امریکہ اور مغربی ممالک کے سماج اپنی ترکیب میںہم سے مختلف نہیں۔مذہبی اختلاف،سماجی تفاوت ،سیاسی تقسیم، سب کچھ ہے لیکن لوگ باہم دست و گریباں نہیں ہوتے۔اکا دکا واقعات تو ہوسکتے ہیں لیکن وہاں کا کلچر ایسا نہیں ہے۔محمد علی کے انتقال نے امریکی معاشرے کے محاسن نمایاں کردیے۔رنگ، نسل، مذہب،ہر اعتبار سے وہ اقلیتوں کا نمائندہ تھا۔ اس کے باوجود معاشرے نے اسے اپنا وقار قرار دیا۔اسے اپنی دھرتی کا مان سمجھا۔اسے اس طرح خراجِ تحسین پیش کیا کہ ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔اس میں میڈیا، اہل ِمذہب، سیاست دان سب شامل تھے۔اس نے امریکہ کی نئی نسل کو ایک پیغام دیا۔یہ رنگ، نسل اور مذہب سے ماورا ہوکر ایک امریکی کی عظمت کا اعتراف تھا۔نئی نسل نے جانا کہ انسانی شرف کا تعلق رنگ ونسل یا مذہب اور فرقے سے نہیں ہوتا۔اس کاا عتراف انسانی عظمت کی دلیل ہے۔
ہمارا میڈیا جس طرح کے اہلِ سیاست کو نمایاں کرتا ہے، ہماری مذہبی جماعتیں جیسے لوگوں کو اپنا نمائندہ بناتی ہیں،ہمارے سیاست دان جس اسلوب میں کلام کرتے ہیں،اس کے بعد وہی کچھ ممکن ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں۔یہ ایک کلچر ہے جسے سب نے مل کر فروغ دیا ہے۔ہیجان،نفرت،انتہا پسندی، مایوسی،اس کے اجزائے ترکیبی ہیں۔ہم سب نے مل کر جو بیج بویاتھا، اب فصل بن چکا تو شکایت کیسی اور کس سے؟میں نے جب بھی اپنے تئیں،اس طرف توجہ دلائی،اسے نوازشریف کی حمایت پر محمول کیا گیا۔ جب تک ہم اقدار کے بجائے افراد کی حمایت یامخالفت میں سوچیں گے،ہم کسی سماجی تبدیلی سے نہیں گزر سکیں گے۔وہ وقت آنے تک، فیض صاحب کے اس مطلع پر غور کیجیے:
اب وہی حرفِ جنوں سب کی زباں ٹھہری ہے
جو بھی چل نکلی ہے، وہ بات کہاں ٹھہری ہے 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved