اگلے روز ''بیڑی لایا ہوں بیڑیے اس کو۔۔۔۔پان حاضر ہے اس کو پانیے کہ‘‘
والا جو شعر نقل کیا گیا تھا‘ وہ الف المحراث کا نہیں بلکہ نواب ناطقؔ کا تھا جو ٹی ہائوس اور کافی ہائوس میں اکثر آیا جایا کرتے تھے۔ پڑھے لکھے آدمی تھے اور سول اینڈ ملٹری گزٹ میں جائنٹ ایڈیٹر رہ چکے تھے۔ مہمل شعر کہنا ان کی ہابی تھی۔ مثلاً یہ شعر دیکھیے ؎
ناطقؔ یہ سخن تیرا ہے تریاق پریہا
ذمباق تریہا لَکَ ذمباق تریہا
خود افورڈ نہیں کر سکتے تھے اس لیے انہیں چائے پلانا حاضرین کے ذمے تھا کیونکہ دھوکے سے انہیں جائیداد سے محروم کر دیا گیا تھا۔ کلام بالعموم سگریٹ کی ڈبیا پر لکھا ہوتا۔ ریکارڈ کی یہ درستی ''کنجری کا پُل‘‘ اور''ستونت سنگھ کا کالا دن‘‘ نامی ناولوں کے خالق اور نامور فکشن رائٹر ڈاکٹر یونس جاوید نے کرائی ہے ؛ البتہ الف المحراث جو بجائے خود ایک دلچسپ آدمی تھے‘ ہماری اُردو درست کروایا کرتے تھے۔ مثلاً کہتے کہ بلی پیتی نہیں‘ دودھ لبڑتی ہے اور چڑیا چلتی نہیں‘ پھُلاکتی ہے‘ وغیرہ وغیرہ۔
ایک دن خدا کا کرنا کیا ہوا کہ نواب صاحب نے بیرے کو بلا کر آرڈر دیا کہ جملہ حاضرین کے لیے چائے اور پیسٹری لائے۔ سب حیران ہوئے تو جیب سے سو روپے کا نوٹ نکال کر دکھایا کہ مذاق نہیں کر رہا ہوں۔ جب سب چائے پی بیٹھے تو ایک صاحب آ کر انہیں گھورنے لگے اور پھر بولے کہ میرا بٹوہ چُرا لائے ہو؟ نواب نے کہا‘ بٹوہ نہیں چُرایا‘ جتنے پیسوں کی ضرورت تھی‘ اتنے ہی نکالے ہیں۔ یہ صاحب نواب ناطق کے سوتیلے بھائی تھے۔ اور یہ واقعات اُن دنوں کے ہیں جب ٹی ہائوس باقاعدہ زندہ ہوا کرتا تھا۔ داخل ہوتے ہی دائیں طرف صوفوں پر برا جمان منڈلی جو انتظار حسین‘ ناصر کاظمی‘ حنیف رامے‘ شیخ صلاح الدین‘ احمد مشتاق اور ریاض احمد پر مشتمل ہوتی‘ اس کی یہ مستقل جگہ ہوا کرتی۔ اسرار زیدی بالکل سامنے والی دیوار کے ساتھ والی سیٹ پر قبضہ جمائے ہوتے۔ نئی نظم کے علمبرداروں کا ٹولہ جس میں افتخار جالب‘ جیلانی کامران‘ ڈاکٹر انیس ناگی‘ عبدالحق‘ عبدالرشید‘ ڈاکٹر سعادت سعید اور ڈاکٹر تبسم کاشمیری شامل ہوتے‘ بیٹھے اپنی الگ دُھومیں مچا رہے ہوتے۔
مستقل آنے والوں میں زاہد ڈار‘ یوسف کامران‘ عارف عبدالمتین‘ شہرت بخاری بھی تھے۔ غرض ٹی ہائوس کھچا کھچ بھرا ہوتا۔ کہیں قیوم نظر بیٹھے ہیں تو کہیں انجم رومانی‘ کہیں شاد امرتسری تو کہیں شہزاد احمد‘ کہیں امجد الطاف تو کہیں منو بھائی‘ مسعود اشعر‘ کہیں مبارک احمد تو کہیں ڈاکٹر مرزا حامد بیگ۔ کبھی کبھار باہر سے آنے والوں میں خاکسار کے علاوہ ناصر شہزاد‘ ذکاء الرحمن اور مبارک حیدر ہوا کرتے اور اس کے علاوہ بھی بے شمار حضرات جن کا نام بھول گیا ہوں۔ حبیب جالب‘ قتیل شفائی‘ ڈاکٹر یونس جاوید‘ اے حمید‘ ذوالفقار تابش‘ محمد سلیم الرحمن‘ صلاح الدین محمود‘ انور سجاد‘ نذیر ناجی‘ صفدر میر ‘ جواں مرگ سراج منیر۔۔۔۔ زیادہ تر چائے چلتی‘ کچھ لوگ کھانا بھی کھاتے۔ بحثیں‘ گفتگوئیں‘ جھگڑے‘ قہقہے اور کیا کیا کچھ۔
پنجاب حکومت نے ٹی ہائوس کو رینوویٹ تو کروایا ہے‘ لیکن نہ اب وہ لوگ ہیں نہ رونقیں۔ حلقۂ ارباب ذوق (سیاسی) کا ہفتہ وار اجلاس ملحقہ عمارت وائی ایم سی اے میں ہوا کرتا۔ اجلاس ختم ہوتا تو سبھی شرکاء ٹی ہائوس میں رش کرتے‘ تل دھرنے کو جگہ نہ ہوتی اور کچھ لوگوں کو بالائی منزل پر بھی جانا پڑتا۔ ٹی ہائوس کی شامیں اس قدر آباد ہوا کرتیں کہ کیا کہیے۔ لیجیے ظہیر کاشمیری اور اقبال ساجد بھی یاد آ رہے ہیں‘ ڈاکٹر خواجہ محمد ذکریا‘ ڈاکٹر تحسین فراقی اور اے جی جوش جو سال بھر حلقے کے سیکرٹری بھی رہے۔ اس زمانے میں حلقے کے اجلاس ٹی ہائوس کی بالائی منزل پر ہوا کرتے جہاں جوش صاحب نے اپنی جیب سے اے سی وغیرہ بھی لگوائے‘ لیکن یہ تو ابھی کل کی بات ہے‘ بلکہ اسے دوسرا دور کہیے جس میں اصغر ندیم سید‘ عطاء الحق قاسمی‘ امجد طفیل‘ ڈاکٹر ضیاء الحسن‘ ڈاکٹر ابرار احمد‘ ڈاکٹر سلیم اختر اور کئی دوسرے بھی نمایاں ہوتے چلے گئے‘ خالد احمد‘ نجیب احمد اور زاہد حسن سمیت۔
یوں کہیے کہ وہ نصف صدی کی پوری ادبی تاریخ تھی جو دراصل تو میرا جی‘ ضیاء جالندھری‘ سعادت حسن منٹو اور اشفاق احمد وغیرہ سے شروع ہوتی ہے اور اس قیمتی تاریخ کو باقاعدہ مرتب ہونا چاہیے جس کا کچھ حصہ انتظار حسین کی تصنیف ''چراغوں کا دھواں‘‘ میں محفوظ ہوا‘ یا اب آ کر غافر شہزاد کی کتاب ''لاہور کا ادبی منظر نامہ‘‘ میں حلقے کے ایک سال کی مفصل کارروائی ریکارڈ کر لی گئی ہے جس کے وہ سیکرٹری تھے۔ شاید کہیں پر یہ کام ہو بھی رہا ہو۔ اس دور کے سب سے اہم گواہ زاہد ڈار ہیں‘ یہ کارنامہ وہ سرانجام دے سکتے ہیں‘ خدا کرے وہ صحت مند ہوں‘ یہ کام غالب احمد اور سمیع آہوجا بھی سرانجام دے سکتے تھے لیکن وہ ایک عرصہ سے صاحب فراش چلے آ رہے ہیں‘ خدا صحت دے‘ بلکہ میں سمجھتا ہوں اس تاریخی کام کا بیڑہ ڈاکٹر یونس جاوید کو خود اٹھانا چاہیے۔
آج کا مطلع
گلشنِ خواب ہوں، تاراجِ حقیقت کردے
اتنے احسان کیے، یہ بھی مروّت کردے