ایک ماہ سے بھی زائد عرصہ سیاست کی پردہ سکرین پر چلایا جانے والا ٹی او آرز کا قسط وار ڈرامہ اپنے انجام کو پہنچ چکا۔ اس کھیل کے ہر اداکار نے اپنے اپنے کردارکو جس خوبی سے ادا کیا اس پر بے اختیار عش عش کرنے کو جی چاہتا ہے۔ کسی بھی فلم، تھیٹر یا ڈرامے میں ہیرو، ولن یا متوازی کردار ادا کرنے والے اُسی اداکار کو زیادہ داد ملتی ہے جو اپنے کردار کو حقیقت کا رنگ دینے میں کامیاب رہے۔ یہی چالیس دن تک کمیٹی کمیٹی کے نام سے کھیلے جانے والے قسط وار ڈرامے کے دوران ہوتا رہا، مگر نتیجہ وہی نکلا جو استاد گوگا دانشور سے لے کر سائیں کوڈو نے سوچ رکھا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ ایک گروپ وقت گزارنا چاہتا تھا اور دوسرا وقت لینا چاہتا تھا، اس طرح دونوں اپنے اپنے مقصد میں کامیاب رہے۔ رہے عوام تو انہیں سوائے کھیل تماشوں کے اور کسی شئے میں دلچسپی نہیں ہوتی سو وہ بھی اس سے برآمد ہونے والے نتیجے کے بارے میں تھڑا بیٹھکوں میں ایک دوسرے کے ہاتھوں پر ہاتھ مار کر یہ کہتے ہوئے محظوظ ہو رہے ہیںکہ ''دیکھا! وہی ہوا جو میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا‘‘ اور اس بات پر ان میں کئی کئی گھنٹے بحث جاری رہتی ہے کہ ''یہ بات کسی اور نے نہیں صرف میں نے کہی تھی‘‘۔
فرض کریں کہ آپ ایک معزز عدالت کے جج ہیں اور آپ کے سامنے پیش ہونے والا ملزم بقائمی ہوش و حواس اپنے خلاف درج کئے گئے مقدمے کے مندرجات کو آپ کے بار بار پوچھنے اور کئی مواقع دینے کے باوجود ان کی صحت کو قبول کرلیتا ہے توکیا آپ پھر بھی حقیقت جاننے کے لئے کوئی کمیٹی یا کمیشن بنائیں گے؟ اگر آپ اپنے سامنے رکھی ہوئی دستاویزات اور ملزم کے اقراری بیان کی روشنی میں یہ جانتے ہوئے کہ مقدمہ مکمل طور پر درست ہے، اس کا فیصلہ نہیں کرتے اورکہتے ہیںکہ اس پرکمیٹی یا کمیشن بنایا جائے تو یہی کہا جائے گا کہ آپ نہیں چاہتے کہ انصاف ہو۔
جنرل خالد مقبول اور جنرل امجد نے 2002ء میں شریف فیملی پر لگے منی لانڈرنگ کے الزامات کی مکمل تحقیقات کر رکھی ہے، مزید تحقیقات کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ ان پرکارروائی میاں صاحبان کے ایک معاہدے کے تحت جدہ جانے کے باعث التوا میں رکھی گئی تھی۔ ان انکوائریوں میں 1990ء کی دہائی میں کی جانے والی منی لانڈرنگ کی تفصیلات موجود ہیں۔ ان میں اس وقت سٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعلیٰ عہدیدار اور شریف فیملی کی صنعتی ایمپائرسے وابستہ ایک محترم اور منی چینجر کمپنی کے ایک اہلکار کی جانب سے پیش کی جانے والی تفصیلات بھی ان میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ستمبر 2001ء میں حدیبیہ پیپر ملزدوم کے نام سے دائرکئے گئے سپلیمنٹری ریفرنس میں منی چینجرکمپنی کی تمام رسیدیں اور دوسرا متعلقہ ریکارڈ منسلک ہے جس کے تحت اس فیملی کو بھاری مقدار میں ڈالرز فراہم کئے گئے تھے۔ اس ریفرنس میں ثبوتوںکے ساتھ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مختلف بینکوں کی مدد کس طرح حاصل کی گئی۔ علاوہ ازیں اس امر کی تفصیل بھی موجود ہے کہ اتنے ڈالرز فلاں اکائونٹ میںکب اور کیسے ٹرانسفر کئے گئے۔ 1998ء میں اکائونٹ ہولڈرز کو جیسے ہی علم ہوا کہ ان کے اکائونٹس میں بھاری رقوم جمع کرائی جا چکی ہیں تو انہوں نے لندن پولیس کو شکایت درج کراتے ہوئے ان سے مکمل لاعلمی اور علیحدگی کا اعلان کر دیا۔ یہ وہ سیدھے سادے حقائق ہیں جو نیب کے پاس محفوظ ہیں۔ لیکن یہ بھی خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ سابق صدر زرداری کے خلاف دائرکئے گئے ریفرنس کی طرح ان کا ریکارڈ بھی کہیں غائب نہ کر دیا گیا ہو۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ اگر الیکشن کمیشن کے ہاں سے چالیس چالیس پولنگ اسٹیشنوں کا ریکارڈ غائب ہو سکتا ہے تو یہ کون سی بڑی بات ہے!!
پاناما لیکس کے بارے میں ٹی وی چینلز پر اس وقت تک نہ جانے کتنے مباحثے اور مناظرے ہو چکے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے لیکن جب 'میں نہ مانوں‘ کی تکرار شروع ہو جائے تواس مشق سے کچھ بھی حاصل نہیں ہو سکے گا۔کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ یہ کوئی جنگل ہے جہاں ایک دوسرے کی بات سننے والے تو ہیں لیکن
سمجھنے والا کوئی نہیں۔ یاد رہے کہ ماضی میں ہمارے ہاں یہ ایک معمول تھا کہ اگر پارلیمنٹ بھر پور اکثریت سے بھی آئین میں کوئی ترمیم کرتی تو سپریم کورٹ کھل کر یہ کہتے ہوئے سامنے آ جاتی کہ یہ آئین کی اساس کی رُو سے غلط ہے اور ببانگ دہل کہہ دیا جاتا کہ آئین کی تشریح کرنا عدالت عظمیٰ کے فرائض میں شامل ہے۔ آج ایسا لگتا ہے کہ یہ چند لوگوں کا ملک ہے، مراعات یافتہ طبقے کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے اور کل کو کیا ہو سکتا ہے؛ حالانکہ ان سب نے ریاست پاکستان سے وفاداری اور اس کی حفاظت کا حلف اٹھایا ہوا ہے۔ ذمہ دار مناصب پر فائز لوگ اہم معاملات سے اس طرح غیر متعلق ہو کر بیٹھے ہیں جیسے وہ اس ملک کے باشندے ہی نہیں۔ اعتراف جرم سامنے ہے، ثبوتوں کا انبارسامنے کھلا پڑا ہے لیکن کارروائی کرنے سے گریز ہے۔
اب نیب، ایف آئی اے اور ایف بی آر کی تحقیقات کی جوبات کی جا رہی ہے وہ بھی سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ مزید وقت گزارا جائے اور ایک بار پھر عوام کو مصروف رکھنے کیلئے حکومتی جمع اپوزیشن کی''لکن میٹی‘‘ کا ایک اورطویل دورانیہ کا کھیل شروع کر دیا جائے۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ اپوزیشن کے ہمراہ بیٹھنے والی دوجماعتیں ایم کیو ایم اور عوامی نیشنل پارٹی اندر سے حکومتی صفوں میں شامل ہیں، رہی جماعت اسلامی تو اس کے کچھ اہم ارکان خیر سے خوب نوازے جا چکے ہیں۔ باقی رہ گئی پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف تو زرداری صاحب کے مطالبات کی ایک فہرست مبینہ طور پر میاں نواز شریف کی جیب میں پڑی ہوئی ہے، جس پر وہ فوری طور پر عمل کرنا چاہ رہے ہیں لیکن اطلاع کے مطابق میاں شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان کو اس پر تحفظات ہیں۔ جہاں تک تحریک انصاف کا تعلق ہے تو اس میں بھی فیصلہ کرنے والی طاقتور شخصیات ایجی ٹیشن یا دھرنوں کی بجائے شریف بننے کی کوششوں میں لگی رہتی ہیں۔ عمران خان کو سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ کیا کیا جائے؟ دو قدم آگے بڑھانے اور ایک قدم پیچھے ہٹنے سے کام نہیں چلے گا۔
آج کل مجھے شاعر انقلاب حبیب جالب کے 1969ء کی صورت حال میں کہے گئے یہ شعر یاد آ رہے ہیں:
حلقہ زر پرستان سے باہر نکل
طبقۂ چیرہ دستاں سے باہر نکل
تجھ کو اہل وطن پھر کہیں گے ولی
جنگ کو اور تیزکر ذوالفقار علی
رات ہے مختصر، اب ڈھلی ڈھلی
شام کو شمع دے، صبح کو نور دے
لوگ بے تاب ہیں، اپنامنشور دے
منتظر ہے تیری دیس کی ہر گلی
رات ہے مختصر اب ڈھلی اب ڈھلی
کیا تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان اس صدا پر توجہ دیں گے؟