تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     14-06-2016

دیکھ کبیر رویا

پندرہویں صدی میں صوفی شاعر بھگت کبیر نے سماجی ناانصافیاں دیکھیں۔ ایک دو نہیں، سینکڑوں نہیں، ہزاروں نہیں بلکہ اَن گنت؛ چار سُو اور ہمہ گیر، تو وہ کئی بار روئے۔ اُن کے آنسو آگے چل کر سکھوں کی مقدس کتاب گرنتھ صاحب کا حصہ بنے تو زندہ جاوید ہوگئے۔ چھ صدیاں بعد بھارت کے چیف جسٹس جناب تیرتھ سنگھ ٹھاکر ایک اجلاس میں (جس میں وزیراعظم نریندرمودی بھی موجود تھے) تقریر کرتے ہوئے رو پڑے۔ وہ بھارت میں نظام اِنصاف کی زبوں حالی اور صورت حال کو بہتر بنانے میں اپنی ناکامی اور بے بسی پر اتنے دُکھی ہوئے کہ اُن کے آنسوبہہ نکلے۔ یہ وہ صورت حال ہے جو بھارت کے لاکھوں وکیلوں اور ہزاروں جج صاحبان کے ماتھوں پر ایک شکن بھی پیدا نہ کر سکی۔ وُکلا اور جج صاحبان کی سنگدلی، بے حسی اور کور چشمی ایک طرف، چیف جسٹس کی عوام دوستی، روشن دماغی اور رکیک القلبی دُوسری طرف، آپ کا کالم نگار چیف جسٹس ٹھاکر صاحب کو دُعائیں دیتا ہے۔ اُنہوں نے بھگت کبیر کی انسان دوست اور انصاف پسند روایت کو زندہ کیا۔ ایک مُرجھائے ہوئے پودے کی اپنے آنسوئوں سے آبیاری کی۔ اقبال کی پیشانی پر عرق اِنفعال کے (فرضی) قطرے اُبھریں یا جسٹس ٹھاکر کی آنکھوں سے (حقیقی )آنسو بہہ نکلیں، شانِ کریمی نے اُنہیں موتی سمجھ کر چُن لیا ہوگا۔ یہ وہ نیک لوگ ہیں جو بنی نوع انسان کی آبرو ہیں اور اس کا قابل فخر سرمایہ۔
پندرہویں صدی میں کبیر کے لفظ کے ساتھ بھگت لگا۔ اکیسویں صدی آئی تو کبیر کے ساتھ امیر کا لفظ اس طرح چپک گیا کہ امیر ہونے کا دعویدار کبیر نہ ہو تو میری طرح کے مسکین لوگ بھی اُسے خاطر میں نہیں لاتے۔ امیر کے کبیر ہونے کا معیار کیا ہے؟ پاناما یا دبئی یا جنیوا یا کسی گمنام جزیرے میں اپنے اثاثوں کو اس طرح چھپانا کہ بدخواہوں، حاسدوں اور غریب غربا کی نظر بد نہ لگ سکے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی رئوف پار یکھ صاحب کی مرتب کردہ اُردو انگریزی لغت کا صفحہ نمبر842 دیکھا تو پتا چلا کہ ہندوئوں کے مذہبی تہوار ہولی (جس میں ایک دُوسرے پر رنگوں کی بارش کی جاتی ہے) کے منانے میں جو عامیانہ اور ایک قدم آگے بڑھ کر نیم فحش گیت گائے جاتے ہیں، اُنہیں بھی کبیر کہا جاتا ہے۔ اقبال ایک درزی کے گھر پیدا ہوئے، بھگت کبیر ایک جلاہے کے گھر۔ صدر اوباما ایک گڈریے کے گھر متولد ہوئے اور بھارت کا موجودہ وزیراعظم ریلوے اسٹیشن پر چائے فروخت کرنے والے ٹی بوائے کے گھر۔ بھارت کے چیف جسٹس نے ایک عالی نسب راجپوت کے گھر آنکھ کھولی مگر اُس گھر کی اہمیت نہیں جہاں ایک بچے نے جنم لیا، قابل ذکر بات یہ ہے کہ معمولی گھر میں پیدا ہونے والا بچہ بڑا ہو کر کیا بنا؟
بھارت میں فیصلہ طلب مقدمات کی کل تعداد 22 ملین (دوکروڑ بیس لاکھ) ہے، جن میں وہ مقدمات جو پانچ سال سے زیادہ عرصہ سے عدالتی سرد خانہ میں پڑے ہوئے ہیں اُن کی تعداد ساٹھ لاکھ ہے۔ بھارت کی سپریم کورٹ میں حال میں ایک ایسے مقدمہ کی سماعت ہوئی جس میں پارلیمنٹ کے تین اراکین ایک دُوسرے کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کی بجائے برطانوی راج میں بنائے ہوئے ایک ایسے قانون کو خلاف آئین قرار دلوانے کے لئے میدان جنگ میں اُترے ہوئے تھے جس کے مطابق ہتک عزت (Defamation) فوجداری جرم ہے۔ دو جج صاحبان نے 13 مئی کو 268 صفحوں پر پھیلا ہوا فیصلہ سنایا اور سائلوں کی درخواست مسترد کرتے ہوئے 158 سالہ پرانے قانون کی حرمت کو برقرار رکھا۔
یقین جانیے کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ سپریم کورٹ نے سیاست دانوں کی عرض داشتوں (Petitions) کو اتنی باقاعدگی سے مسترد کیا ہے کہ اب ایسا کرنا چونکا دینے والی خبر نہیں رہا۔ آپ جانتے ہوں گے کہ بھارت وحدانی نہیں بلکہ وفاقی ریاست ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ لکھے ہوئے آئین کے مطابق مرکز اور ریاستوں (صوبوں) میں اختیارات کی واضح تقسیم کر دی گئی ہے۔ اس مرحلے پر اپنے قارئین کو یہ یاد دلانا مناسب ہوگا کہ اگر 1945ء میں کانگریسی قیادت (قائداعظم کے پیہم اصرار اور بے حد معقول مطالبہ کو مانتے ہوئے) ہندوستان کو امریکی طرزکا (نقلی نہیں بلکہ اصلی) وفاق بنانے پر تیار ہو جاتی تو غالباً 1947ء میں ہندوستان کے بٹوارے اور قیام پاکستان کی ضرورت پیش نہ آتی۔ موجودہ آئین کے تحت بھارت میں مرکزی انتظامیہ (Executive) دُوسرے وفاقی ممالک کے مقابلہ میں کمزور یعنی کم اختیارات کی مالک ہے اور اس کی پارلیمنٹ قانون سازی میں ڈھیلی ڈھالی۔ غیر مقصد اور سست رفتار (Slow Moring) ہے۔ یہ ہے وہ پس منظر جس میں بھارت کی سپریم کورٹ اتنی فعال ہے کہ اپنا سکہ جمانے یا اپنی دھاک بٹھانے کا کوئی موقع جانے نہیں دیتی۔ ماضی قریب میں سپریم کورٹ کے کیے ہوئے چند فیصلوں کی مثال دینا چاہوںگا۔ پارلیمنٹ نے اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کی تقرری میں اپنی
ٹانگ اڑانی چاہی مگر سپریم کورٹ نے اس کی اجازت نہ دی۔ مرکزی حکومت کو ایک صوبے میں صدارتی راج نافذ کرنے کی اجازت نہ دی؛ حالانکہ اس صوبے کی اسمبلی ڈیڈلاک کا شکار ہو کر مفلوج ہو چکی تھی۔ عدالت عالیہ نے حکم دیا کہ بڑے پیمانہ پر رُونما ہونی والی قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کے لئے نیا محکمہ بنایا جائے۔ قومی ایئر لائن کو یہ حکم دیا کہ وہ عوامی مفاد کے پیش نظر کوہ ہمالیہ کے دامن میں مشہور ہل سٹیشن شملہ (کالم نگارکی جنم بھومی سے کچھ دُور) تک بھی اپنی پروازیں شروع کرے (ہمارے ہاں مظفر آباد اور میر پور میں رہنے والوں کا بھی اس طرح کا دیرینہ اور اتنا ہی جائز مطالبہ ہے۔) سپریم کورٹ نے دہلی میں فضائی آلودگی کی روک تھام کے لئے وہاں بڑی بڑی ڈیزل کاروں کی رجسٹریشن پر پابندی لگا دی ہے۔ اب اگر آپ کو یہ بتائوں کہ پچھلے دنوں بھارت کے وزیر خانہ ارون جیٹلی نے لوک سبھا میں تقریر کرتے ہوئے جب یہ کہا کہ سپریم کورٹ بھارتی پارلیمنٹ کے دائرہ اختیارات کو درجہ بدرجہ کم کرنے اور سیکڑنے کی قابل مذمت کارروائی کا ارتکاب کر رہی ہے تو ایوان تالیوں سے گونج اُٹھا۔ یقیناً آپ یہ جان کر حیران ہوںگے کہ ایسا کیوں ہوا؟ ابھی اُن تالیوں کے شور کی آواز دہلی کے ایوان اِقتدار میں گونج رہی تھی کہ سپریم کورٹ وہاں تک جا پہنچی جہاں فرشتوں کے پر جلتے ہیں۔ بھارت کے سرکاری حلقوں میں دبی زبان میں بیان کی جانے والی ایک سرگوشی راز سر بربستہ نہ رہی اور (محاورہ کے مطابق) کوٹھوں چڑھی تو سپریم کورٹ نے لگی لپٹی رکھے بغیر حکم دیا کہ بھارتی بحریہ کے افسروں میں اپنی بیویوںکے عارضی تبادلہ ( Wife Swapping) کے سکینڈل کی اعلیٰ سطحی تحقیق اور تفتیش کی جائے۔ نتیجہ؟ بھارتی حکومت کو ایک اور سانپ سونگھ گیا اور وہ مذکورہ بالا حکم کی تعمیل میں اُسی طرح لیت و لعل سے کام لے رہی ہے، جس طرح یوسف رضا گیلانی کی حکومت سوئس حکومت کو خط لکھنے میں یا موجودہ حکومت مقامی حکومتوں کے انتخابات کرانے اوراب اختیارات منتقل کرنے میں۔ سپریم کورٹ ہماری ہو یا بھارت کی بادہ وساغر کہے بغیر بات نہیں بنتی۔ بھارت کی طرح پاکستان کی سپریم کورٹ نے بھی (چیف جسٹس افتخار چوہدری اور جواد خواجہ صاحبان کے بعد) اپنے پیکر خاکی میں جان پیدا کرنے کی اوّلین شرط پوری کر لی ہے جس کے بغیرکوئی شخص یا ادارہ بھی صداقت کے لئے مرنے کی تڑپ رکھنے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ 
بھارتی سپریم کورٹ ہر سال47 ہزار درخواستوں کو نمٹاتی ہے۔ اس کے مقابلے میں امریکہ کی سپریم کورٹ آٹھ ہزار درخواستوں کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے صرف 80 کے قریب مقدمات کی سماعت کرتی ہے۔ بھارت میں کل عدالتوںکی تعداد 16ہزار ہے اور اتنے ہی جج ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر دس لاکھ لوگوں کے لئے 14جج جبکہ امریکہ میں ہر دس لاکھ لوگوں کے لئے107 جج ہیں۔
2014 ء میں شائع ہونے والی ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق بھارتی جیلوں میں چار لاکھ قیدیوں میںسے دو تہائی ایسے ہیں جو صرف ملزم ہیں اور اُنہیں عدالت میں کسی جرم کے مرتکب ہونے کی سزا نہیں دی گئی۔ اچھی خبر یہ ہے کہ چیف جسٹس ٹھاکر کے آنسو رنگ لائے، بھارت حکومت نے فی الفور سپریم کورٹ میں پانچ اور صوبائی ہائی کورٹ میں ڈیڑھ سو اسامیاں پرکر دیں۔ برطانیہ کے بڑے اخبارگارڈین نے اپنی چھ مئی کی اشاعت میں اپنے صفحہ نمبر25 پر بھارت میں نظام انصاف کی جو شرمناک اور خوفناک تصویر کھینچی ہے، پاکستان میں رہنے والے بھی اُسی آئینہ میں اپنی شکل دیکھ سکتے ہیں۔
گارڈین کی رپورٹ کے مطابق بھات میں ایسے مقدمات کی تعداد ساٹھ لاکھ ہے جو پانچ سال سے زیادہ عرصہ سے چل رہے ہیں۔ 45 لاکھ مقدمات ایسے ہیں جو صوبوں کی اعلیٰ عدالتوں میں سماعت کی تاریخ کے منتظر ہیں۔ صرف سپریم کورٹ کے سرد خانہ میں پڑے ہوئے مقدمات کی تعداد ساٹھ ہزار ہے۔ آپ کو یہ مان لینے میں کوئی دشواری نہیں ہونی چاہئے کہ خوبیوں میں (چاہے وہ تعداد میں کتنی زیادہ ہوں) بھارت اور پاکستان ایک دوسرے سے کوئی مماثلت نہیں رکھتے مگر خامیوں میں بالکل ایک دوسرے جیسے ہیں۔ نظام اِنصاف اس کی بہترین مثال ہے۔ کالم کی جگہ ختم ہوگئی مگر بات ختم نہیں ہوئی، اُمید رکھتا ہوں کہ میرے مدیر مجھے اسی موضوع پر اگلا کالم لکھنے کی اجازت مرحمت فرمائیں گے تاکہ میں اس موضوع سے انصاف کر سکوں۔ خواب دیکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں، میں اپنے قارئین کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ میرے ساتھ مل کر اُس روشن اور مبارک دن کا خواب دیکھیں جہاں نہ بھگت کبیر روئے گا اور نہ بھارت کا چیف جسٹس، اس کالم نگار کا خواب یہ ہے کہ وہ اپنے وطن عزیز میں اندھیرے کی جگہ روشنی دیکھے۔ ہمارے کان ترس گئے مگر بھگت کبیر کے ہنسنے کی آواز نہیں آئی۔ آنکھیں بھارتی چیف جسٹس کی ہیں مگر آنسو بھگت کبیر کے ہیں۔ صدیوں سے بہنے والے آنسو! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved