بھارت میں ان دنوں ہندو قوم پرستوں نے ایک نیا شوشہ چھوڑا ہے۔ انہیں ملک میں ہندوئوں کی کم ہوتی ہوئی آبادی کی فکر لاحق ہوگئی ہے۔ ویشوا ہندو پریشد کے راہنما پروین توگڑیا نے گجرات میں ایک ریلی میں تقریر کرتے ہوئے ہندوئوں میںکم ہوتی آبادی کا سبب ان میں بڑھتی ہوئی نامردی کو قرار دیا اور اپنی بنائی ہوئی ایک دوائی کی شیشی سٹیج سے دکھاتے ہوئے کہا کہ ہندو مردوںکو گھر جاکر اپنی مردانگی کی پوجا کرنی چاہیے۔ توگڑیا نے جو خود کینسر کے معالج ہیں ڈاکٹر ہیں، کہا مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کا مقابلہ کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ہندو گھروں میں زیادہ بچے پیدا ہوں۔ چند روز قبل دہلی سے متصل علاقہ دادری میں، جہاں چند ماہ قبل گائے ذبح کرنے کے الزام میں ایک معمر مسلمان اخلاق احمد کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کیا گیا تھا، شیو سینا کے ایک مقامی لیڈر نے بھی اسی طرح کا بیان دیا تھا۔ توگڑیا نے مجمع سے کہا، ان کی تنظیم دوائی کی شیشی رعایتی قیمت پر ہندوئوںکو فراہم کرے گی تاکہ ان کی طاقت بنی رہے اور وہ بچے پید اکرتے رہیں۔ بھارتی حکومت نے2011ء میں کرائی گئی مردم شماری کی مذہبی آبادیاتی شماریات گزشتہ برس جاری کی تھیں۔ تب سے فرقہ پرستوں نے مسلم آبادی کے اضافے پر واویلا مچانا شروع کر رکھا ہے۔انہیں خوف ہے کہ ہندو بہت جلد اقلیت میں آجائیں گے؛ حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
واویلا کرنے سے پہلے توگڑیا کو اپنے گریبان میں جھانک لینا چاہیے تھا۔ دلتوں اور قبائلیوں کے متعدد افراد علانیہ طور پرکہتے ہیںکہ وہ ہندو نہیں ہیں۔ ان میں سے متعدد افراد نے مردم شماری میں اپنی مذہبی شناخت ہندو نہیں بتائی ہوگی۔ اس کے علاوہ ملک میں ہندو دھرم کے خلاف مختلف تحریکیں بھی چل رہی ہیں جن سے وابستہ لوگ اب مردم شماری فارم کے مذہبی خانے میں خودکو ہندو نہیں لکھاتے۔اس کی ایک مثال شمالی کرناٹک اور اس کے اطراف میں لنگائیت آبادی ہے جو اب خود کو ہندو سے الگ مذہبی فرقہ قرار دیتی ہے۔ چند ماہ قبل دارالحکومت دہلی میں ایک پریس کانفرنس میں لنگائیت فرقہ کے مذہبی رہنما سری بسوا جئے امرتون جئے نے کہا کہ ان کے فرقے کا برہمن یا ہندو دھرم سے کوئی تعلق نہیں اور ان کا فرقہ عرصے سے مطالبہ کر رہا ہے کہ اسے ہندو دھرم سے علیحدہ دھرم تسلیم کیا جائے،جیسے انگریز حکومت نے آزادی سے پہلے کیا تھا۔ لنگائیت دھرم کے ماننے والوں کی تعداد سات کروڑ سے زیادہ ہے۔ اسی طرح مہاراشٹر میں شیو دھرم کے پیروکار جسے وہ شیواجی مہاراج سے منسوب کرتے ہیںکی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ وہ بھی خود کو ہندو دھرم کا حصہ نہیں مانتے۔ یہی مطالبہ کچھ عرصہ قبل پاکستان سے منتقل ہوئے سندھی بھی کرتے ہیں۔ سندھی سماج کے ایک لیڈر شری کانت بھاٹیہ کا کہنا ہے کہ ان کا ہندو دھرم یا برہمن ازم سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سندھی، بھگوان رام کے پیروکار ہیں نہ ہی بھگوان شیو کے؛ بلکہ ان کے پیر و مرشد جوہے لال ہیں، جن کا شمار ہندو اعلیٰ ذاتوں کی برتری کے مخالفیں میں ہوتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ تاریخ میں ہندومت کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ عربو ں اور ترکوں نے دریائے سندھ کے مشرق کی جانب رہنے والوںکو سندھوکہنا شروع کیا، جس کی بگڑی ہوئی شکل ہندو ہے۔ قدیم ہندوستان مختلف مذاہب اور رسوم و رواج کا مرکب رہا ہے۔ برہمن ازم یا سناتن دھرم ان میں سے ایک تھا۔ بعض مسلمان حکمرانوں کی حماقتوں اور حالات میں تغیر کی وجہ سے سناتن دھرم نے دوسری اقوم کو بھی ہندو نام دے کر اپنے اندر جذب کرلیا۔ ملک میں دلتوں اور قبائلیوں کے کئی طبقات خود کو ہندو کہلانا پسند نہیں کرتے۔ اکثر نے2011ء کی مردم شماری میں اپنے آپ کو ہندو فہرست سے خارج کروایا، اگرچہ سرکاری ملازمتوں، تعلیم اور سیاسی میدان میں ریزرویشن جیسی مراعات کے ذریعے انہیںہندو دھرم کے ساتھ باندھ کر رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ آنجہانی کانشی رام اور دلت سرکاری ملازمین کی ملک گیر تنظیم کے صدر وامن میشرام تو برملا کہتے ہیں کہ دلت ہندو نہیں ہیں۔ وہ تو اس بات کی بھی تبلیغ کرتے ہیںکہ ملک کو ہندوستان کے نام سے نہ پکارا جائے۔ قبائلیوں نے اپنا پرسنل لاء بھی تیارکر لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ایک علیحدہ دھرم ہیں جن کا ہندو دھرم سے کوئی تعلق نہیں، انہیں زبردستی ہندو زمرہ میں ڈالا جاتا ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو بھارت کی مجموعی ایک ارب اکیس کروڑ کی آبادی میں ہندوئوںکی تعداد 96.6 کروڑ درج کی گئی ہے۔ مسلمان 17.22کروڑ، عیسائی2.7 اور سکھ 1.09کروڑ ہیں۔ اگر پاکستان اور بنگلہ دیش کی آبادی کو جمع کر لیا جائے تب بھی ان کی تعداد ہندوئوں سے بہت کم بنتی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ ہندو آبادی کا تناسب2001ء میںکل آبادی کا 80.5 فیصد تھا جو دس سال بعد 79.83 فیصد ہو گیا جبکہ مسلمانوں کا تناسب13.4 فیصد سے بڑھ کر 14.23 فیصد ہو گیا۔ ہندو آبادی میں دس برسوں میں 14کروڑ جبکہ اس دوران مسلم آبادی میں4کروڑ نفوس کا اضافہ ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی شرح افزائش میں پانچ فیصد کمی آئی۔ ہندو قوم پرست لیڈروں نے یہاں تک مطالبہ کیا ہے کہ مسلمانوںکے لئے دوسری شادی کرنے پر پابندی عائد کی جائے۔ یہ مطالبہ عقل سے عاری ہے کیونکہ بھارت میں ایک ہزار مسلم مردوں کے بالمقابل
خواتین کی تعداد951 ہے۔ اس لئے اگر ایک مرد کا ایک خاتون سے عقد ہو رہا ہے تو یہی غنیمت ہے۔ غور سے دیکھا جائے تو ہندوئوںکی آبادی میں بھی کمی نہیں بلکہ اضافہ ہوا ہے کیونکہ اس میں بیرون ملک جاکر آباد ہونے والے تقریباً دو کروڑ ہندوئوں کی تعداد کو ملکی آبادی میں شامل نہیں کیا گیا۔ مذکورہ عرصے کے دوران ایک کروڑ 80 لاکھ سے زیادہ لڑکیاں مادر رحم یا پیدا ہونے کے بعد مار دی گئیں جن کا ذکر مردم شماری کی ابتدائی رپورٹ میں کیا گیا تھا۔اس رپورٹ کے مطابق2001ء سے2011ء کے درمیان ہندوئوں کی شر ح پیدائش 16.76 فیصد رہی جبکہ مسلمانوں کی 24.6 فیصد۔اس سے پچھلی دہائی میں دونوں مذاہب کی شرح افزائش زیادہ رہی جو بالترتیب 19.92 فیصد اور29.52 فیصد تھی؛ تاہم ماہرین کی رائے ہے کہ شرحوں میں یہ فرق بہت جلد ختم ہوجائے گا۔ ممبئی کے انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن سائنسزسے وابستہ پروفیسر اروکیا سامی کہتے ہیں کہ تعلیم کا فروغ اور بڑھتی ہوئی خاندانی ضروریات کا اثر شرح پیدائش پر پڑتا ہے اور یہ رجحان تمام مذاہب میں مشترک ہے۔ اس سلسلے میں وہ کیرالا کی مثال پیش کرتے ہیں جہاں مسلمانوں میں شرح پیدائش نہ صرف ریاست کے ہندوئوں بلکہ شمالی ہندکے تمام مذہبی فرقوںکے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ جہاں تک صنفی تناسب کا تعلق ہے، اسلامی تعلیمات کی برکت کی بدولت مسلمانوں میں خواتین کی حالت قدرے بہتر ہے جبکہ آبادیاتی رپورٹ میں دوسرے فرقوں کا معاملہ اس کے برعکس نظر آتا ہے۔ مسلمانوں میں صنفی تناسب گزشتہ عشرے کے مقابلے میں مزید بہتر ہوا۔ مسلمانوں میں فی ہزار مردوں کے مقابلے میں خواتین کی تعداد 936 سے بڑھ کر951 ہوگئی جبکہ ہندوئوں میں یہ تناسب فی ہزار پر931 سے بڑھ کر 939 ہوا۔
ہندتوا کی علمبردار اور فرقہ پرست قوتیں محض مفروضوں کی بنیاد پر پروپیگنڈا مہم چلاتی ہیں۔ وشوا ہندو پریشد کی سادھوی پراچی نے جو پسماندہ طبقہ سے تعلق رکھتی ہے، چند ماہ پہلے یہ اشتعال انگیز بیان دیا تھاکہ ''مسلمان'40 کتے‘ پیدا کرتے ہیں اور ہر ایک کا کام بھارت کو دارالاسلام میں تبدیل کرنا ہوتا ہے‘‘۔ پسماندہ طبقات کے افراد کو استعمال کرنا فرقہ پرستوںکی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ مسلمانوں کی آبادی غالب آجانے کا مفروضہ فرقہ پرستوں کا پرانا اور آزمودہ حربہ ہے۔گجرات کے مسلم کش فسادات کے متاثرین کے لئے قائم کئے گئے ریلیف کیمپوںکو نریندر مودی نے جب وہ ریاست کے وزیر اعلی تھے''بچہ پیدا کرنے والی فیکٹریوں‘‘ (baby-producing factories) سے تعبیرکیا تھا۔ وہ اسمبلی انتخابات کی مہم میں' ہم پانچ اور ہمارے پچیس‘کا نعرہ بھی بلندکیا کرتے تھے مگر ہندو تنظیمیں یہ سمجھنے سے قاصر ہیںکہ ہندوئوںکی شرح پیدائش میں جو کمی آئی اس کی بنیادی وجہ دخترکشی ہے۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ نسل عورت سے بڑھتی ہے نہ کی مرد سے۔ بھارت کی متمول ریاست ہریانہ میں دخترکشی کی وجہ سے گائوں کے گائوں خواتین سے خالی ہو چکے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ دلہنیں بہار اور بنگال سے خرید کر لائی جاتی ہیں۔کئی جگہوں پر تو بچے پیدا ہونے کے بعد خاتون کوطلاق دے دی جاتی ہے اور اس کی شادی افراد خانہ یا گائوںکے کسی دوسرے فرد کے ساتھ کرا دی جاتی ہے۔ اس طرح خریدی ہوئی دلہن اپنی عزت نفس بیچ کر محض بچے پیدا کرنے والی مشین کے طور پرزندہ رہتی ہے۔ بھارت میں مادر رحم میں لڑکی کو مار دینے کا مذموم فعل وبائی شکل اختیا رکر گیا ہے۔ خود 2011ء کی مردم شماری رپورٹ میں کہا گیاکہ ایک کروڑ 80 لاکھ لڑکیوںکو 15 سال کی عمر سے پہلے ماردیا گیا۔ اقوام متحدہ کے ادارہ یونیسف نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں یہ انکاشاف کیا تھا کہ گزشتہ 60 برسوں میں بھارت میں پانچ کروڑ بچیوں کو پیدا ہونے سے قبل قتل کیا جا چکا ہے۔