وفاقی محتسب سردار جاوید محمود اگلے روز اپنے عہدے سے ذاتی وجوہ کی بنا پر مستعفی ہو گئے۔ آپ چیف سیکرٹری پنجاب بھی رہے اور ریٹائر ہونے کے بعد کچھ عرصے کے لیے بینک آف پنجاب کے چیئرمین بھی‘ جس دوران ان کی گاڑی سے ٹکرا کر ایک فوجی افسر کا بیٹا کچلا گیا، جس پر انہیں فارغ کر دیا گیا۔ بعد میں انہوں نے وفاقی محتسب کا چارج سنبھالا۔ آپ میاں برادران کے منظور نظر افسران میں شمار ہوتے ہیں اور یہ سخت حیرت کی بات ہے کیونکہ وہ ایک پرلے درجے کے اپ رائٹ آدمی ہیں جبکہ میاں برادران کو جی حضوری قسم کے افسر ہی راس آتے ہیں اور بظاہر وہ ایک بہت بڑا استثنا ہیں۔
فرض شناسی کا عالم یہ ہے کہ جب آپ تین سال ڈپٹی کمشنر لاہور رہے تو خود بھی رات گئے تک کام کرتے رہتے اور ماتحت مجسٹریٹوں کو بھی مصروف رکھتے۔ میرے کزن میاں صفدر محمود ان کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر تھے۔ ایک دن میٹنگ کے بعد سب نے اکٹھے ہو کر موصوف سے کہا کہ ڈپٹی کمشنر صاحب سے کہیں کہ ایسا نہ کریں‘ ہمیں تو اپنی بیویوں کے لیے وقت ہی نہیں ملتا۔ انہیں بتائیں کہ ہمارے ہاں تین سال سے کوئی بچہ پیدا نہیں ہوا۔ انہوں نے ساری بات ڈپٹی کمشنر کے گوش گزار کی تو وہ بولے: ''صفدر‘انہیں بتا دیں کہ ڈپٹی کمشنر کے ہاں بھی تین سال سے کوئی بچہ پیدا نہیں ہوا!‘‘ وقت کے اس قدر پابند تھے کہ عین وقت پر دفتر پہنچ جاتے۔ ایک بار ٹریفک جیم کی وجہ سے دس منٹ لیٹ ہو گئے تو بیرونی گیٹ ہی سے اپنی رخصت کی درخواست لکھ کر بھجوا دی کہ میں بوجوہ آج نہیں آئوںگا۔
استعفے کی ذاتی وجوہ کے حوالے سے ایک تو معلوم ہے کہ ماتحت بیورو کریسی ان کے ساتھ تعاون نہیں کرتی تھی اور جب چیف منسٹر سے شکایت کے باوجود کوئی نتیجہ نہ نکلا تو استعفیٰ دے دیا۔ ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ وہ روشن پاکستان نامی پارٹی قائم کر کے سیاست کے میدان میں داخل ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اگرچہ خود بڑے زمیندار نہیں ہیں‘ ضلع قصور میں کچھ رقبے کے مالک ہیں۔
اگر وہ واقعی میدان سیاست میں آنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو اس سے زیادہ مستحسن فیصلہ شاید اورکوئی نہ تھا۔ وجہ یہ ہے کہ سیاسی قحط الرجال کے اس زمانے میں جب کہ سیاسی وژن ہی سرے سے ناپید ہے اور ہر طرف ایک جنگِ زرگری برپا ہے، ایک سینئر بیورو کریٹ کا سیاست میں آنا اس لیے انتہائی خوش آئند ہے کہ یہ لوگ بہترین ذہن کے مالک ہوتے ہیں اور ان پر کثیر سرمایہ کاری ہوئی ہوتی ہے‘ لیکن چونکہ اکثر حضرات کرپٹ ہوتے ہیں‘ اس لیے پھٹکارے جاتے ہیں اور کوئی بے لوث کام کرنے کے قابل رہ ہی نہیں جاتے‘ ورنہ ایک سینئر بیورو کریٹ کی پشت پر جتنا تجربہ اور ذہانت ہوتے ہیں‘ اگر راست روی پر ہوں تو معجزے برپا کر کے دکھا سکتے ہیں۔ چوہدری محمد علی اس کی بہترین مثالوں میں ہیں جو بعد میں ملک کے وزیر خزانہ کے طور پر خدمات سرانجام دیتے رہے۔
تازہ ترین مثال شفقت محمود کی ہے جو ممبر قومی اسمبلی منتخب ہو کر صاف ستھری سیاست کر رہے ہیں۔ اور بھی بہت سے دیانتدار افسر موجود ہیں جو اگر ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست کی طرف توجہ دیتے تو ملک کے لیے بہت سود مند ثابت ہوتا‘ مثلاً ڈاکٹر ظفر الطاف مرحوم تھے کہ جتنا کچھ انہوں نے کسانوں اور شعبہ زراعت کے لیے کیا ہے‘ ایک سیاستدان کے طور پر وہ اس سے زیادہ معرکہ آرا ثابت ہوتے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے ہیں جن میں طارق محمود کا نام لیا جا سکتا ہے جبکہ جوڈیشیری کے اکثر ریٹائرڈ حضرات نہایت صاف ستھری شہرت کے مالک ہیں‘ جسٹس(ر) رئوف احمد شیخ جس کی بہترین مثال ہیں‘ یہی نہیں بلکہ بے شمار ایسی ہستیاں اور بھی مل جائیں گی جو ملک کے لیے ایک بڑا اثاثہ ثابت ہوتے لیکن وہماری سرمایہ بُنیاد سیاست میں حصہ لینا شاید ان کے بس کا روگ ہی نہیں تھا۔ اور اگر سردار محمود کے سیاست میں حصہ لینے کی خبر واقعی صحیح ہے تو صفدر محمود جیسے لوگوں کو‘ جو خود بھی ایک اپ رائٹ افسر رہے ہیں‘ ان کے ساتھ کام کرنے کے لیے آگے آنا چاہیے بلکہ ان کے علاوہ بھی جو دیانت دار افسر ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں انہیں ان کے ساتھ تعاون کرنے میں پیش پیش ہونا چاہیے جو یقینی طور پر سیاست میں تازہ ہوا کا ایک جھونکا ثابت ہو گا کیونکہ اس ملک کے باسی اسے ہر طرح سے کرپشن فری کرنے کے زبردست خواہش مند ہیں جو اس وقت کرپٹ حکمرانوں کے یرغمال ہونے سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتے۔
اگر سردار جاوید محمود کو اگر یہ خیال آیا ہی ہے تو اس پر ڈٹ جائیں جبکہ ان کے بے مثال ماضی کے پیش نظر انہیں پسند کرنے والے جہاں جہاں بھی ہیں‘ ان کے ساتھ نہ صرف بھر پور تعاون کریں گے بلکہ پارٹی کے لیے مالی وسائل بھی‘ اپنی اپنی بساط کے مطابق خوشی خوشی مہیا کریں گے کیونکہ اگر عمران خان اپنی نیک نامی کے زور پر قوم سے اربوں روپیہ اکٹھا کر سکتا ہے تو اس سے زیادہ حوصلہ افزا بات اور کیا ہو سکتی ہے۔
اور اگر وہ اپنی سیاسی جماعت بنانے کا دم خم نہیں رکھتے تو بھی کسی راست رو پارٹی میں شامل ہو کر ایک ناقابل فراموش کردار ادا کر سکتے ہیں اور انہیں ہر جگہ ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا ع
کرم نما و فرود آ کہ خانہ خانۂ تُست
ایک تجویز یہ ہے کہ اگر بھارتی عام آدمی پارٹی کی طرز اپنائیں تو یہ زیادہ نتیجہ خیز ثابت ہو سکتی ہے!
آج کا مطلع
عرض و اِظہار سے آگے ہے‘ نوا کیسی ہے
جُرم سے پہلے ہے پیدا‘ یہ سزا کیسی ہے