کرئہ ارض اور زندگی کے بارے میں کچھ دلچسپ حقائق یہ ہیں ۔
آج سے 60کروڑ سال پہلے سمندر زندگی سے بھرچکے تھے لیکن ان سادہ اور نرم مخلوقات کو موجودہ جانوروں کے آبائو اجداد کی حیثیت سے شناخت کرنا بہت مشکل تھا۔ فاسلز کا مشاہدہ بتاتا ہے پھر کوئی واقعہ پیش آیا۔اس موقعے پر جس تیزی سے جانوروں کی قسموں اور ان کی جسمانی ساخت میں تبدیلیاں رونما ہوئیں ، انہیں کیمرین دھماکہ (Cambrian Explosion)اور Evolution's big bangکہاجاتاہے ۔ نرم، لجلجے جانداروں کو پہلی دفعہ مضبوط ڈھانچے اور شیل میسر آئے ۔ اس دور کے نتائج فاسلز کے ریکارڈ میں پوری طرح محفوظ ہیں لیکن وجوہات کا کچھ معلوم نہیں ۔ جو بات ثابت شدہ ہے ، وہ یہ کہ اس دوران فاسلز ریکارڈ میں اچانک ہی سخت جسم والے جاندار ابھرآتے ہیں ۔ اس دوران زندگی کی اس قدر زیادہ اقسام ایک دم پیدا ہوتی ہیں کہ اسے ایک دھماکے سے تشبیہ دی گئی۔ چارلس ڈارون کی مشہورِ زمانہ کتابon the origion of species میں ا س پر بڑے مخمصے کا شکار ہوا تھا کیونکہ یہ بات اس کے نظریہ ء ارتقا سے مطابقت نہی رکھتی تھی ۔ اب یونیورسٹی آ ف کیلیفورنیا کی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ عرصہ چھوٹا نہیں بلکہ دو کروڑ سال پہ محیط تھا۔ اس دوران سمندروں کا پانی اونچا ہو گیا تھا اور آکسیجن کی مقدار بھی بڑھ گئی تھی ۔ یہ کہا جا سکتاہے کہ زندگی کی پیدائش کے بعد cambrian explosionدوسرا اہم ترین واقعہ تھا۔
جانداروں کے گروہ primatesمیں (جن میں انسان ، مختلف اقسام کے بندر اور دیگر جانور شامل ہیں )دماغ کا سائز دوسرے میملز سے بڑا ہے ۔ primatesمیں آنکھیں میملز سے بہتر ہیں لیکن سونگھنے کی صلاحیت کم ہے ۔ زیادہ تر میملز سونگھنے کی حس پہ زیادہ منحصر ہوتے ہیں ۔ انسانی دماغ ہماری کل توانائی (خوراک سے حاصل ہونے والی گلوکوز اور پھیپھڑوں سے ملنے والی آکسیجن کا) بیس فیصد کھا جاتاہے ؛ حالانکہ اس کا وزن صرف تین اونس ہے۔ دماغ جو بیس فیصد توانائی کھاتاہے ، اس کا دو تہائی ایک دماغی خلیے سے دوسرے دماغی خلیے کو پیغام بھیجنے پر صرف ہوتاہے اور باقی خلیات کی maintenance یا house keepingمیں ۔
بونوبو (بندر کی ایک قسم )اوزار استعمال نہیں کرتے جب کہ چمپینزی چیونٹیوں کے بل میں گیلی چھڑی گھسا کر انہیں نکال کے کھاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ وہ پھل نیچے رکھ کے پتھر مار کر اسے توڑتے ہیں ۔
جسم کے اندر ایک گھڑی ہوتی ہے ، جسے circadian clockکہتے ہیں ۔اس گھڑی کی مدد سے جسم یہ خیال رکھتاہے کہ 24گھنٹے میں اہم حیاتیاتی افعال مکمل کر لیے جائیں ۔اس نظام میں گڑ بڑ سے بہت سی چیزیں بشمول نیند متاثر ہو سکتی ہیں ۔ اوّل تو کوشش کرنی چاہیے کہ رات ہی کو سوئیں لیکن اگر رات یہ ممکن نہیں تو کم از کم سونے جاگنے کا ایک مستقل (Fixed)وقت ہونا چاہیے ۔
آج ہمارے پاس ایسی خوردبین اور اوزار ہیں کہ ہم ایک واحد خلیے کا مشاہدہ، اس کی پیمائش اور اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر سکتے ہیں ۔ ایک خلیے کا دوسرے خلیات کے ساتھ روابط اور خلیے کی اپنے ماحول کے ساتھ interacion کا مشاہدہ کر سکتے ہیں ۔
بڑھاپا سے مراد وہ نقصان ہے ، جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے خلییات ، ٹشوز اور اعضا کو پہنچتا ہے ۔ مثلاً یاداشت کمزور ہونا ، ہڈیاں بوسیدہ اور نظر کمزور ہونا۔ ہمارے ڈی این اے کے اندر پروٹین بنانے کے لیے تمام ضروری ہدایات موجود ہوتی ہیں ۔ جب بھی خلیہ تقسیم ہوتاہے تو وہ ڈی این اے کے تین ارب حروف پر مشتمل کوڈ کی تقریباً perfectکاپی تیار کر تاہے ۔ اس میں غلطی بھی ہوجاتی ہے تواسے درست کرنے کے لیے خصوصی نظام موجود ہے ۔جب عمر بڑھتی ہے تو ان سب چیزوں میں نقائص پیدا ہونے لگتے ہیں ۔آخر کار خلیات تقسیم ہونا اور ایک دوسرے سے رابطہ کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔
جو سائنسدان بڑھاپا روکنے پر کام کر رہے ہیں ، وہ انہی چیزوں کو دیکھ رہے ہیں ۔ چوہے کو کم کیلوری والی خوراک دے کر اس کی عمر بڑھائی گئی ہے ۔ کچھ سائنسدان ان اصلاحی نظاموں پر کام کر رہے ہیں ، جو خلیات کی تقسیم کے دوران بے قاعدگیوں کو درست کرتے ہیں ۔ بروک میگن گرین برگ ایک ایسی لڑکی تھی ، جس کی عمر بڑھ نہیں رہی تھی ۔ 20سال کی عمر میں اس کا دماغ 9ماہ سے ایک سال کی بچی کا تھا اور اس کا قد اڑھائی فٹ تھا۔ ڈاکٹر والکر نے بروک میگن گرین برگ پر تحقیق کی۔ چار سے پانچ سال کی عمر کے بروک میگن نے بڑھنا بند کر دیا تھا۔ اس کے دانت سات سال تک نکلتے رہے ۔اس کے علاوہ بھی دو بچے ایسے گزرے ہیں ۔آسٹریلیا کا فری مین چالیس سال کی عمر میں دس برس کا لگتا تھا۔ ان بچوں کے جسم کے مختلف اعضا مختلف عمر کے تھے ۔
انسانی جسم کے اندر کتنے خلیات ہیں ؟ اس سوال کے مختلف جواب دیے گئے ہیں ۔ ہم مختلف اعضا کو کاٹ کر اندر سے نہیں گن سکتے ۔ اگر ہم ایسا کر بھی لیں اور اگر ہم ایک سیکنڈ میں دس خلیات گنیں تو اس حساب سے ہمیں پورے جسم کے خلیات گننے میں ہزاروں برس کا وقت درکار ہے ۔ مختلف اعضا کے خلیات مختلف حجم کے ہوتے ہیں ۔جلد کے خلیات بڑے ہوتے ہیں ، خون کے red bloodخلیات کے چھوٹے ۔ اب ایک تازہ تحقیق ، ایک نیا اندازہ سامنے آیاہے ، نیشنل جیوگرافک جسے سب سے بہتر قرار دیتاہے ۔ اس میں مختلف اعضا ، مختلف ٹشوز کے خلیات کا اندازہ لگا کر انہیں جمع کیا گیا ہے اور یہ 37.2ٹرلین بنتے ہیں۔ سائنسدان کمپیوٹر ماڈلز بنا کر انسانی جسم کے مختلف اعضا کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ اس گنتی کے طبی فوائد بھی ہیں ۔مثلاً صحت مند جگر کی نسبت بیمار جگر میں خلیات کی تعداد کافی کم ہو جاتی ہے ۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمارے جسم کے 37.2ٹرلین خلیات کئی دہائیوں تک ایک دوسرے کے ساتھ غیر معمولی تعاون کرتے رہتے ہیں ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ ایک پر اعتماد اور محنتی انسان ہمارے سامنے ہوتاہے ، بجائے ایک ایسے جاندار کے ، جس کے مختلف خلیات اور مختلف اعضا ایک دوسرے سے جھگڑ رہے ہوں ۔ جسم کے 37.2ٹرلین خلیات کا باہمی تعاون اس قدر حیرت انگیز ہے کہ اس کے لیے الفاظ کا چنائو مشکل ہے ۔
خلا میں کششِ ثقل سے محرومی کے جو برے اثرات ہڈیوں ، مسلزاور دل پر پڑتے ہیں ، تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ انسانی جسم ان اثرات کا عادی نہیں ہوتا۔ یوں ہم خلا میں زیادہ وقت نہیں گزار سکتے اور اگر گزاریں گے تو اپنی صحت کی قیمت پر۔