تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     15-06-2016

کھیل بچوں کا ہوا

کیا یہ ذمہ داری ہمارے ہی کندھوں پر آنا تھی؟ کہ ہم کمر سے ایٹم بم باندھ کر ‘دنیا کو اس خطرے سے ڈرائیں: ''اگراقتصادی راہداری کے خلاف بھارت اور امریکہ نے متحد ہو کر طاقت کا توازن بگاڑا‘ تو ہمارے پاس نیوکلیئر آپشن ہی بچے گا۔‘‘ یہ دھمکی ہمارے نصف وزیرخارجہ سرتاج عزیز نے دی ہے۔ جب بھٹو صاحب نے یہ کہا تھا ''ہم گھاس کھا لیں گے لیکن ایٹم بنا کر رہیں گے‘‘ توہمارے پاس اس وقت یہی چارہ کار رہ گیا تھا۔ لیکن جب پاکستان ایٹم بم بنانے میں کامیاب ہوا‘ تو ہم اپنے وسائل سے ایٹمی طاقت بننے کی اہلیت حاصل کر چکے تھے۔ افسوس کہ پاناما کے خزانے بھر کے‘ ہم نے قومی خزانہ خالی کر دیا اور آج دنیا کو دھمکی دے رہے ہیں کہ اگر بھارت اور امریکہ نے ہمارے خلاف اتحاد کیا‘ تو ہم کمر سے ایٹم بم باندھ کر دھماکہ کر دیں گے۔ یقینی تباہی کا یہ نسخہ پاگل پن میںہی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں اس کی ضرورت نہ پڑتی‘ اگر پاکستان کے محدود وسائل سے‘ پاناما کے خزانے بھرنے کی جھک نہ ماری ہوتی۔ ہمارے پاس ایٹمی ذخیرہ بھی ہوتا اور کسی پڑوسی کو ہم پر دبائو ڈالنے کی ہمت بھی نہ پڑتی۔ ایٹمی اسلحہ کا ذخیرہ دھمکی دینے کے لئے نہیں ہوتا‘ اس کا صرف خوف ہی کافی ہوتا ہے ۔اگر یہ استعمال ہی کر دیا‘ تو پھر کیسی دھمکی؟ کیسا خوف؟ یہ تماشا تو ہم برسوں سے دیکھ رہے ہیں۔ طالبان‘ بچوں کی کمر پہ بم باندھ کر‘ انہیں ہجوم کے اندر دھکیل دیتے ہیں اور وہ معصوم بچے‘ اپنے جسم کا دھماکہ کر کے‘ اپنی جنگی طاقت کا مظاہرہ کر دیتے ہیں۔ کیا ایٹم بم بھی ایسی طاقت ہوتا ہے؟ جو ملک اسے چلانے کی دھمکی دیتا ہے‘ وہ اصل میں اپنی تباہی کا سامان کرتا ہے۔ ایٹم بم اپنے بچائو کے لئے چلانے والا اسلحہ نہیں ہوتا‘ یہ دشمن کو تباہ کرنے کے لئے ہوتا ہے اور تباہی بھی ایسی جو اپنے ساتھ کروڑوں بے گناہوں کو ہلاک کر سکتی ہے۔ میں سوچا کرتا تھا کہ ایٹم بم بنانے والا کوئی بھی ملک ‘اسے چلانے کی دھمکی نہیں دے سکتا۔ ایسا قدم کوئی پاگل ہی اٹھا سکتا ہے۔ کیا دنیا کا ''پہلا ایٹمی پاگل ‘‘بننے کی حرکت ہمارے ہی حصے میں آنا تھی؟ ذرا ایٹمی شان دکھانے والوںکی طاقت کا انداز تو دیکھ لیں۔ کیا طاقت کا گھمنڈ اس طرح کا ہوتا ہے؟ کہ ''اگر ہمیں عدم استحکام میں دھکیلا گیا‘ تو اس کے نتائج دنیا بھگتے گی۔‘‘یا یہ کہ''30 سال مہاجرین کی مہمان نوازی کر لی‘ اب ایران اور بھارت انہیں اپنے پاس لے جائیں۔‘‘ یا ''ہم نے انہیں بھگت لیا۔ اب انڈیا‘ امریکہ سے تعلقات بڑھا کر دیکھ لے۔‘‘ اگر اسی قسم کا ہذیان بکنا تھا‘ تو دنیا کا جدیدترین ہتھیار بنا کر‘ اپنے ذخیرے میں رکھنے کی کیا ضرورت تھی؟ پاگل پن تو ایٹم بم کے بغیر بھی کیا جا سکتا ہے۔ خودکش بمبار کیا کرتے ہیں؟ اپنے جسم سے بم باندھ کر اسے چلانے والا کیا کرتا ہے؟ وہ اپنے پرخچے اڑا لیتا ہے اور ایٹم بم اپنے جسم سے باندھ کر اسے چلانے والا کیا کرے گا؟ وہ اپنے ساتھ دیگر لاکھوں بے گناہوں کو بھی مار دے گا۔ واہ! کیا دانشمندی ہے؟ ایک طرف پاکستان کی عدالتیں کہہ رہی ہیں کہ'' حکومت ہمارے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں کرتی، کیا جج ڈنڈے اٹھائیں؟‘‘ کاش! جج ایسا کر سکیں۔ حکومت کیا کر رہی ہے؟ ڈنڈے کے ذریعے ٹیکسوں کی وصولیاں کرتی ہے اور وصولیوں کا طریق کار بھی غنڈوں جیسا ہے۔ بنک بند ہوجانے کے بعد بل آتے ہیں اور اگلے دن آخری تاریخ ہوتی ہے۔ پنجاب میں گاڑیوں‘ پلاٹوں اور گوداموں پر ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ بجٹ ختم ہونے سے پہلے پہلے دو تین مرتبہ نئے ٹیکس نافذ کر دیئے جائیں گے۔ پنجاب حکومت کی قابلیت کا یہ حال ہے کہ گزشتہ تین عشروں سے حکومت ہر رمضان میں پھلوں اور سبزیوں کی قیمتیں مقرر کرتی ہے مگر آج تک عملدرآمد نہیں کرا سکی۔ ہر سال قیمتیں مقرر کی جاتی ہیں اور ہر سال حکومتی احکامات کے پرخچے اڑا کر‘ دن دیہاڑے حکومت کے مقررہ نرخوں کی ڈنکے کی چوٹ پر خلاف ورز ی کی جاتی ہے۔مختلف پیشہ ور تنظیموں کی طرف سے تنخواہوں میں اضافے اور سابقہ واجبات کی وصولی کے لئے ہڑتالیں اور مظاہرے ہوتے ہیں اور ابھی ایک ٹریڈیونین سے مذاکرات ختم ہوتے ہیں کہ دوسری سڑکوں پر آ جاتی ہے۔عام شہریوں کی زندگی اور جمع پونجی‘ ڈاکوئوں اور چوروں کے رحم و کرم پر ہے اور جتنی زیادہ چوریاں ہوتی ہیں اور ڈاکے پڑتے ہیں‘ وزیراعظم ہائوس کی دیواریں اتنی ہی چوڑی اور اونچی کر دی جاتی ہیں۔ اس کے باوجود وزیراعظم کے دونوں بیٹے‘ ملک سے باہر رہتے ہیں۔ اچانک پاکستان تشریف لاتے ہیں اور خبر عام ہونے سے پہلے‘ بیرون ملک واپس چلے جاتے ہیں۔ 
اگر ایٹم بنانے کا فیصلہ کسی اور حکمران یا سیاسی جماعت نے کیا ہوتا‘ تو اس کے بعد آنے والی حکومت اپنی بے گناہی کا دعویٰ کر سکتی تھی۔ لیکن بم کے دھماکے بھی‘ موجودہ حکومت نے کئے اور بم بنا لینے کے بعد اسے رکھنے اور استعمال کرنے کی دھمکیاں بھی وہی حکومت دے رہی ہے۔ کیا ایٹم بم ایسی ہی عام چیز ہے کہ اسے بات بات پر استعمال کرنے کی دھمکی دی جائے؟ اور دھمکی بھی کس کے خلاف؟ ایک ایسے ملک کے خلاف‘ جہاں کی حکومت کااپنے ہی ملک پر کوئی کنٹرول نہ ہو۔ گزشتہ کئی دنوں سے ہم افغانستان پر الزام لگا رہے ہیں کہ اس کے فوجیوں نے ہماری چوکی پر حملہ کر دیا اور جواب میں ہم احتجاج کے سوا کچھ نہیں کر پا رہے۔ افغانستان کے ساتھ ہمارا تنازعہ مدتوں سے چلا آ رہا ہے۔ وہاں کی ہر حکومت‘ اٹک تک سارے علاقے پر ہمیشہ سے اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتی آ رہی ہے۔ پاکستان کی ہر حکومت نے 
ان دعوئوں کے باوجود‘ افغانستان کے ساتھ کشیدگی کو جنگ تک نہیں پہنچنے دیا اور آج یہ حالت ہے کہ ایٹمی پاکستان کی چوکیوں پر روز حملے ہوتے ہیں اور ہم شکایتوں اور احتجاجوں کے سوا کچھ نہیں کر پاتے۔ ہم یہ شکایت کس سے کرتے ہیں؟ احتجاج کس کے خلاف ہوتا ہے؟ اس ملک میں تو کوئی فوج ہی نہیں۔ جنگجوئوں کی تو کوئی مرکزی کمانڈ ہی نہیں۔ کیا ہم ایٹم بم کے ساتھ منتشر مسلح گروہوں کے پیچھے دوڑتے پھریں گے؟ افغانستان کی طرف سے ان دنوں ہماری چوکیوں پر جو حملے کئے جارہے ہیں‘ ان کا ایک تاریخی پس منظر ہے۔ اس معاملے کو تاریخی پس منظر میں ہی دیکھنا چاہیے۔ یہ عارضی اشتعال انگیزیوں کا نتیجہ نہیں ہے۔ افغانستان سے لڑتے ہوئے ہم ایٹم بم کہاں استعمال کریں گے؟ اور کس کے خلاف؟ ہمارے دشمن افغانستان کے ذریعے ہماری ایٹمی طاقت کا مذاق تو نہیں اڑا رہے؟ اقتصادی راہداری کے خلاف بھارت اور امریکہ کی متحدہ طاقت کوہم نے دھمکی دی ہے کہ ہمارے پاس صرف نیوکلیئر آپشن ہی بچے گا۔ ہم یہ نیوکلیئر آپشن کس کے خلاف استعمال کریں گے؟ اقتصادی راہداری پر؟بھارت اور امریکہ براہ راست کوئی مداخلت نہیں کر سکتے اور نہ ہی وہ کریں گے۔ وہ صرف دبائو سے کام لیں گے۔ کیا ہم اپنے بموں کا استعمال اقتصادی راہداری پر کریں گے؟ جو ہمارے اپنے ملک سے گزرتی ہے۔ اس کا دوسرا حصہ چین کے اندر ہو گا۔ کیا ہم اپنے ہی دوست ملک چین کے علاقے پربم گرائیں گے؟ہم اسے سوچے سمجھے منصوبے کا حصے تو قرار نہیں دے سکتے۔ اقتصادی راہداری یا ہمارے اپنے ملک سے گزرتی ہے یا چین کے اندرسے۔ ہم نیوکلیئر آپشن کا استعمال کہاں کریں گے؟ کیا یہ دھمکی ہماری فوجی قیادت کے مشورے سے دی گئی ہے؟ یا بیرون ملک علاج کے لئے پڑے ہوئے وزیراعظم کے حکم پر یہ دھمکیاں دی جا رہی ہیں؟ ہمارے وزیراعظم ملک کے اندر نہیں اور ہماری پارلیمانی جماعتوں کے مابین جو مذاکرات ہو رہے ہیں‘ ان کا نہ بھارت سے تعلق ہے‘ نہ افغانستان اور نہ امریکہ سے۔ ہم انتباہ کس کو کر رہے ہیں؟ افغانستان کو؟ بھارت کو؟ یا امریکہ کو؟ یا سب کو؟ لگتا ہے کہ وزارت خارجہ کے ماہرین کو صبح غسل کرنے کا موقع نہیں ملتا یا اسلام آباد میں پانی کی قلت ہے؟کوئی 20 کروڑ عوام کے اس ملک کو اپنے ہی ایٹم بموں سے بچائے۔ ہمارے سامنے کوئی ایسا دشمن نہیں جس کے خلاف ہم ایٹم بم استعمال کریں۔ ہماری ایٹمی آپشن‘ صرف پاکستان میں موجود دہشت گردوں کے خلاف استعمال ہو سکتی ہے۔ کیا ہمارے حکمرانوں کی سوجھ بوجھ کا درجہ یہاں تک پہنچ گیا ہے؟ افغانستان کی طرف سے ہمارے فوجیوں پر حملہ کیا ایسا نہیں لگتا؟ جیسے بچے کسی پہلوان کو چھیڑ کر بھاگ جائیں اور پھر اسے سمجھ نہ آ رہی ہو کہ وہ کس کا تعاقب کر کے اسے پکڑے؟کیا ہماری فوجی چوکی پر حملہ کر کے بھاگ نکلنے والوں کے پیچھے ‘ہم اپنے ایٹم بم لے کر بھاگیں گے؟ ہمارے پالیسی سازوں نے ہمیں کہاں پہنچا دیا ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved