تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     16-06-2016

گریٹ گیم اور نیو کلیئر پاکستان

حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کا امریکی مطالبہ نیا ہے نہ ناقابل فہم۔ امریکہ کو سوویت یونین اور برطانیہ کی طرح افغانستان میں جس ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا وہ نوشتہ دیوار تھا مگر مہلک ہتھیاروں اور جدید ٹیکنالوجی کے گھوڑے پر سوار امریکی حکمرانوں کو برس ہا برس تک حقیقت کا ادراک نہ ہوا اور اب بھی وہ اپنی ناکامیوں کا حقیقت پسندی سے جائزہ لینے کے بجائے ملبہ پاکستان‘ پاکستان میں قائم مبینہ طالبان شوریٰ اور حقانی نیٹ ورک پر ڈال کر اپنی ٹانگ اوپر رکھنا چاہتے ہیں۔
ہم زود فراموش قوم ہیں اور کھلونوں سے بہل جانے کے عادی‘ ورنہ امریکہ نے پہلی بار پاکستان سے بے وفائی کی ہے نہ افغانستان میں شکست کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی روش پہلا واقعہ ہے۔ تاریخ کے صفحات پر ویت نام میں امریکی شکست کی مکمل داستان رقم ہے۔ ویت کانگ گوریلوں نے کس طرح امریکی اور جنوبی ویت نامی فوجوں کو شکست سے دوچار کیا؟ ساری دنیا جانتی ہے۔ گزشتہ دنوں صدر اوباما نے ویت نام میں کھڑے ہو کر ملا منصور کی ہلاکت کا اعلان کیا اور پاکستان کو باور کرایا کہ ہم ہر اس علاقے پر حملے کریں گے جہاں سے خطرہ درپیش ہوا‘ مگر ویت نام جنگ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ صدر رچرڈ نکسن نے برسر اقتدار آنے کے بعد جہاں ویت نام جنگ کی بساط لپیٹنے کا اعلان کیا وہاں فوجی انخلاء کے ساتھ ساتھ 30اپریل 1970ء کو شمالی ویت نام اورجنوبی ویت نام کے ہمسایہ ایک غیر جانبدار ملک کمبوڈیا پر فضائی حملے کا حکم بھی دیا۔
کمبوڈیا میں پاکستان کی طرح ایک ایسی حکومت تھی جسے مخالفین امریکی نواز قرار دیتے اور وہ امریکہ مخالف کمیونسٹ گوریلوں سے نبردآزما تھی۔ کمبوڈیا کی طویل مشرقی سرحد جنوبی ویت نام سے ملتی تھی اور ویت نامی فوج کی طرح امریکی فوج کا بھی یہ خیال تھا کہ ویت کانگ گوریلوں نے کمبوڈیا میں پناہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں، جہاں نہ صرف وہ فوجی ٹریننگ لیتے بلکہ اس سرزمین کو امریکی اور اتحادی فوج کے خلاف استعمال کرتے ہیںکمبوڈیا کی حکومت کا موقف تھا کہ وہ خود اپنا دفاع کر رہی ہے۔ اُسے ویت نام جنگ کا ایندھن نہ بنایا جائے مگر کسی نے نہ سنی۔ امریکی صدر نے پہلے تو غیر اعلانیہ حملوں کی پالیسی اختیار کی ،جب امریکی عوام اور عالمی برادری سے ان حملوں کو چھپانا ممکن نہ رہا تو 30اپریل کو کمبوڈیا میںباضابطہ فضائی حملوں کا اعلان کر دیا، جس پر امریکہ کے تعلیمی اداروں میں جنگ مخالف طلبہ اور اساتذہ نے احتجاج شروع کیا اور امریکی پولیس کے ہاتھوں کئی طلبہ مارے گئے۔ شدید مخالفت پر دو اڑھائی ماہ بعد امریکی صدر نے حملے روک دیئے اور کامیابی کا اعلان کیا۔ گیارہ ہزار ویت کانگ گوریلوں کی ہلاکت‘اتنے ہی افراد کی گرفتاری اور بھاری اسلحے کی برآمدگی کا دعویٰ کیا گیا مگر زمینی حقائق یہ تھے کہ کمیونسٹوں کا دائرہ اثرو رسوخ وسیع ہوا‘ امریکہ نواز حکومت کمزور ہوئی اور بالآخر یہ ملک اس قدر غیر مستحکم ہوا کہ بعدازاں کمیونسٹ دور حکومت میں نسل کشی کا وہ سلسلہ شروع ہوا جسے روکنے کے لیے ایک بار پھر چار سالہ جنگ کا سہارا لینا پڑا۔
1970ء میںاپنی شکست سے توجہ ہٹانے اور اپنے عوام و اتحادیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے امریکہ نے کمبوڈیا سے جو سلوک کیا اس کا نشانہ اب نان نیٹو اتحادی پاکستان بن رہا ہے۔ ڈرون حملوں کے ذریعے ہماری خود مختاری پامال کر رہا ہے اور ریڈ لائنز عبور کرتے ہوئے یہ تاثر بھی پختہ کہ اسے خطے میں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اقوام متحدہ کے طے شدہ اصولوں کی پروا ہے نہ کسی آزاد و خود مختار ریاست کی زمینی و فضائی سرحدوں کو پامال کرنے میں جھجک۔ اگر پاکستان حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کی آڑ میں امریکی ڈکٹیشن کے مطابق افغان طالبان سے جنگ کا حصہ نہیں بنتا‘ اپنا میزائل پروگرام محدود اور ایٹمی پروگرام منجمد نہیں کرتا تو وہ ڈرون حملوں کا دائرہ وسیع کر سکتا ہے اور معاشی و اقتصادی پابندیوں کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب۔ تاہم کمبوڈیا اور پاکستان میں فرق واضح ہے۔ ہماری معاشی مجبوریاں اپنی جگہ‘ ہماری حکمران اشرافیہ کا امریکہ پر انحصارشرم ناک مگر ہم خطے کی ایٹمی طاقت ہیں اور ہمارا ایٹمی پروگرام کسی دوسرے کا مرہون منت نہیں۔ سی پیک منصوبے نے پاکستان اور چین کو ناقابل شکست بندھن میں باندھ دیا ہے جو ہمارے دفاع و سلامتی اور خوشحالی کی ضمانت ہے۔ مشیر خارجہ سرتاج عزیز اور سیکرٹری خارجہ اعزاز چودھری نے کچھ غلط نہیں کہا کہ اگر پاکستان کو غیر مستحکم کیا گیا تو پوری دنیا نتائج بھگتے گی اور اگر خدانخواستہ جنگ مسلط کی گئی تو پھر ہمارے آپشنز بہت محدود ہیں‘ روایتی ہتھیاروں میں ہم بھارت کا مقابلہ کر سکتے ہیں نہ امریکہ نے توازن برقرار رکھا ہے لہٰذا ہماری ایٹمی قوت اور دفاعی مجبوریوں کا احساس کیا جائے۔
بجا کہ ایٹمی ڈیٹرنس کو ابھی تک بھارت اور امریکہ نے سنجیدگی سے نہیں لیا مگر یہ ایک برہنہ حقیقت ہے کہ پاکستان ایٹمی طاقت ہے اور اس کا میزائل و ایٹمی پروگرام اپنی جدّت اور صلاحیت کے اعتبار سے منفرد ہے۔ اسی بناء پر پاکستان نیو کلیئر سپلائر گروپ کی رکنیت کا خواہش مند ہے اور عالمی برادری سے توازن برقرار رکھنے کی اپیل کر رہا ہے۔ لیکن اگر کوئی پروا نہیں کرتا اور افغانستان جیسا ملک جس کی خوراک‘ ادویات اور معیشت کا سارا دارو مدار پاکستان پر ہے، امریکی و بھارتی شہ پر بگڑے بچے کی طرح ایک نیو کلیئر ریاست کو بار بار چڑاتا اور چیلنج کرتا ہے تو پاکستان کے پاس جوابی کارروائی کے سوا کیا چارہ کار رہ جاتا ہے۔ اگر افغان فوج کی طرف سے طورخم بارڈر پر حملے کسی گریٹ گیم کا حصہ ہیں تو کتنی دیر تک ہم اپنے نوجوانوں اور افسروں کی شہادت کا صدمہ برداشت کر سکتے ہیں۔ ہم اپنی مغربی سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے گیٹ تعمیر کیوں نہیں کر سکتے اور دہشت گردوں کی روک تھام کے اس طریقے پر کسی کو اعتراض کرنے کا حق کیونکر ہے۔
چند برس پہلے تک ہم جیسے لوگ جب اپنے حکمرانوں اور پاک امریکہ تعلقات کے نام نہاد ماہرین کو یہ باور کراتے تھے کہ امریکہ پر اعتبار کرنا حماقت ہے اور اس کا اصل ہدف پاک چین دوستی اور پاکستان کا ایٹمی پروگرام ہے اور وہ ہمیںفوجی و اقتصادی طور پر کبھی مستحکم نہیں ہونے دیگا تو اس سوچ کو سازشی تھیوری کا نام دیکر مسترد کر دیا جاتا تھا۔ ملاّفضل اللہ کے بارے میں کہا جاتا کہ اسے افغان حکومت نے پناہ دے رکھی ہے اور پاکستان میں دہشت گردی کے علاوہ خودکش دھماکوں کے لیے افغان سرزمین استعمال ہو رہی ہے تو کوئی مان کر نہیں دیتا تھا۔ بھارت کی مداخلت اور بھارت میں دہشت گردوں‘ علیحدگی پسندوں اور لسانی و نسلی ٹارگٹ کلرز کی ٹریننگ کی بات سن کر تو ایک مخصوص ٹولے پر ہذیانی کیفیت طاری ہو جاتی تھی۔ اب بھی یہی لوگ کہتے ہیں کہ بھارت کبھی دوسرے ممالک میں کارروائیاں نہیں کرتایہ ٹولہ وزیر اعظم کے قریب اور حلقہ مشاورت میں موثر ہے مگر اب کسی اور نے نہیں مشیر خارجہ سرتاج عزیز اور سیکرٹری خارجہ نے اس کااعتراف کر لیا ہے اور امریکہ کو ہوش کے ناخن لینے کی تلقین بھی کی ہے۔ دیر بہت ہو چکی۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے قوم و ملک کا قیمتی وقت خارجہ اور دفاع کے محاذپر بے عملی میں ضائع کیا اور امریکہ‘ بھارت‘ افغانستان گٹھ جوڑ کے مضمرات کا درست ادراک نہ کیا مگر وقت ہاتھ سے نکلا نہیں؛ ہم چین ‘ روس‘ ترکی‘ سعودی عرب اور دیگر دوستوں کے ساتھ مل کر حالات کا پانسہ پلٹ سکتے ہیںامریکہ سے بگاڑنا مناسب ہے نہ دشمنی مول لینا احسن‘ باور صرف یہ کرانا ہے کہ پاکستان ایک آزاد‘ خود مختار اور غیرت مند ملک ہے۔ اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے۔ خود اعتمادی‘ خود انحصاری‘ خود کفالت اور اپنے پتے بہتر انداز میں کھیلنے کی مہارت درکار ہے اور قوم کا حوصلہ برقرار رکھنے کی ضرورت۔ امریکہ، ویت نام اور کمبوڈیا والی غلطی دہرا رہا ہے مگر وہ بھول گیا ہے کہ وہاں اسے خاک چاٹنی پڑی، یہاں بھی نتیجہ مختلف نہیں ہو گا ۔پاکستان کو اگر اسی بہانے انکل سام کی غلامی سے نجات مل جائے تو بُرا کیا ہے۔ قوم تیار ہے مگر ہماری حکمران اشرافیہ؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved