اﷲ بڑا ہی کار ساز ہے۔ وہ لوگوں کی مدد اس طرح کرتا ہے کہ ظالم اور مظلوم کو پتا ہی نہیں چلنے دیتا۔ وہ چہروں سے نقاب الٹ دیتا ہے۔کل تک کہا جا رہا تھا کہ القاعدہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر قبضہ کر سکتی ہے۔ جب القاعدہ کا وجود پاکستان سے سمٹ گیا توکہا جانے لگا کہ پاکستان کے نیوکلیئر ہتھیار طالبان اور دوسری دہشت گرد تنظیموں کے ہاتھوں میں جا سکتے ہیں، جو انہیں امریکہ یا اس کے کسی اتحادی ملک کے خلاف استعمال کر سکتے ہیں۔ لیکن اب امریکہ کے طاقتور حلقوں کی جانب سے کہا جا نے لگا ہے کہ امریکہ کا ایٹمی پروگرام غیر ذمہ دار قسم کے لیڈروں اور ذہنی مریضوں کے ہاتھوں میں پہنچنے سے روکا جائے۔ امریکہ کے صدارتی امیدوار کی دوڑ میں شامل ڈیمو کریٹ لیڈر اور سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے امریکی عوام اور ذمہ داروں کو خبردار کیا ہے کہ ری پبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ جیسے ذہنی مریضوں کے ہاتھوں میں اگر امریکہ کے ایٹمی کنٹرول کا بٹن دے دیا گیا تو وہ اسے کسی بھی وقت کسی بھی ملک کے خلاف استعمال کر سکتا ہے، جس سے دنیا میں خوفناک ایٹمی جنگ شروع ہونے کا شدید خدشہ پیدا ہو جائے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی عوام کو تہذیبی، گروہی اور مذہبی انتہا پسندی کا شکار بنا دیا ہے۔ آج کے دور میں مذہبی انتہا پسندی کی سوچ کے حامل جنونیت کی حد تک ذہنی مریض ہی دہشت گردوں کی نر سریاں بنتے ہیں۔
امریکہ کا دوغلا پن دیکھیے کہ 16 دسمبر 2015ء کو امریکی کانگریس میں پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام پر طویل بحث کے دوران ارکان کانگریس کو ایک ہی فکر کھائے جا رہی تھی اور ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے نیو کلیئر پروگرام پر سخت پابندیاں عائد کرنے کا وقت اب آن پہنچا ہے۔ اس سلسلے میں ہائوس کی فارن افیئرز کمیٹی کے اجلاس، جس میں ری پبلیکن رکن کانگریس ٹیڈ پو، اڈ رائس، رابرٹ انگل، برائن ہیگنس اور ڈانا روہرا بیچر جیسے کٹڑ بھارت نواز اور پاکستان دشمن رکن شریک تھے، سب کی ایک ہی رائے تھی کہ پاکستان کو اس حد تک مجبور کر دیا جائے کہ وہ اپنے ایٹمی پروگرام کو یہیں پر منجمد کر دے۔
امریکی تھنک ٹینک پاکستان کے نیو کلیئر پروگرام کو اس کی ابتدا سے ہی کس نظر سے دیکھ رہے ہیں، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اب سب یک جا ہو کر کہنا شروع ہو گئے ہیں کہ پاکستان The World's fastest growing nuclear weapons programme کا حامل ہے۔ انہوں نے اوباما انتظامیہ کو سفارش کی ہے کہ پاکستان کے خلاف get tough.... یہ بات تو اب کسی سے پوشیدہ نہیں کہ سینیٹ اور کانگریس کی اس طرح کی کمیٹیوں کا اصل مقصد امریکہ کے کسی بھی ملک کے لئے طے شدہ پالییسیوں کے لئے راستہ ہموار کرنا ہوتا ہے۔ رائے عامہ کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے میڈیا کے ذریعے خصوصی طور پر طرح طرح کی موشگافیاں کی جاتی ہیں۔ پھر ان کے فا لو اپ کے لئے نیو یارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ جیسے اخبارات میں آرٹیکل شائع کئے جاتے ہیں۔ یہ آرٹیکلز کارنیگی، بروکنگز اور سٹم سن سنٹر
جیسے تھنک ٹینکس کا حوالہ دیتے ہوئے طوفان کھڑا کر دیتے ہیں۔ پھر ان خیالات کو اپنے ذیلی اداروں اور متعلقہ ملک میں قائم کی گئی مختلف تنظیموں اور میڈیا کے دانشوروں کے ذریعے آگے بڑھاتے ہیں۔ مقصد صرف ایک ہوتا ہے کہ اس ملک پر اپنی پسند کی پابندیاں عائد کی جا سکیں، جیسے حال ہی میں فرید زکریا نے جنوبی وزیرستان کی ایک لڑکی کے حوالے سے پاکستان کے بارے میں زہر اگلا ہے۔ نہ جانے لکھتے ہوئے وہ کیوں بھول گئے کہ پاک فوج نے اسی علاقے میں دہشت گردوں کے ایک بہت بڑے گروہ کے خلاف دنیا کا سب سے پیچیدہ اور مشکل آپریشن مکمل کیا ہے۔ پاکستان میں بھی امریکی اور بھارتی گماشتے بھیس بدل کر کہیں انسانی حقوق اور کہیں اقلیتوں کے تحفظ کے نام پر بنائی گئی تنظیموں کی آڑ میں زہر افشانی کرتے رہتے ہیں۔ چند دن قبل مری میں ماری جانے والی لڑکی ماریہ عباسی کے بارے میں سوشل میڈیا پر طوفان مچایا ہوا ہے جس میں بار بار کہا جا رہا ہے کہ 'ایک ایٹمی طاقت مری کی ایک بیٹی کا تحفظ نہ کر سکی‘۔ اگر میں ان لوگوں کے سامنے امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس، بھارت، چین، روس اور اسرائیل جیسی ایٹمی قوتوں میں ہر روز درجنوں کے حساب سے نو عمر لڑکیوں اور لڑکوں کی ظالمانہ طریقوں سے قتل کی داستانیںگنوانا شروع کر دوں تو ہو سکتا ہے کہ یہ قصہ کبھی ختم ہی نہ ہو۔ کیا ایسے لوگوں کو خبر نہیں کہ امریکہ میں گزشتہ سال 572 خواتین پر تیزاب پھینکنے کے واقعات ہوئے ہیں حالانکہ یہ دنیا کی سب سے بڑی ایٹمی قوت ہے۔ حال ہی میں بھارت میں 6 افریقی طلبہ کو مختلف واقعات میں ٹارگٹ کرتے ہوئے بہیمانہ طریقوں سے قتل کیا گیا ہے تو اس پر بیرونی سرمائے سے ترقی پسندی کے نام سے قائم تنظیموں اور این جی اوز نے احتجاج کرتے ہوئے اپنی کوئی پوسٹ شیئر کیوں نہیں کی؟ ایٹمی طاقت بھارت، کانگو سے تعلق رکھنے والے ایک دو نہیں بلکہ چھ طلبہ کی زندگیاں ہندو انتہا پسندوں سے بچانے میں ناکام رہی۔ بھارت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ان کی زبانیں سن ہو جاتی ہیں، شاید اس لئے کہ ان کا دل بھارت اور امریکی ٹیکسال کا پابند ہے۔
11 مئی 2016ء کو واشنگٹن ڈی سی میں ARC Human Kind کے نام سے قائم ایک تنظیم نے ایک تجزیاتی سیمینار کا انعقاد کیا جس کی صدارت امریکی رکن کانگریس ڈنکن ہنٹر جونیئر نے کی۔ اس میں خارجہ امور کے مشہور ترین سکالر Walid Phares اور Paulo Casaca اور ریاست ایری زونا سے 2002ء سے مسلسل منتخب ہونے والے رکن کانگریس ٹرینٹ فرینکس نے اپنے تجزیوں کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ پاکستان نے'' ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار‘‘ تیار کرنے اور انہیں بھارت کی سرحدوں کے ساتھ نصب کرنے کا اعلان کر کے عالمی امن کے لئے زبردست خطرہ پیدا کر دیا ہے۔ اس کے لئے انہوں نے اسی پرانے ''خان نیٹ ورک‘‘ کا حوالہ دیا۔ واشنگٹن سے امریکی صحافی Jim Bellushi کی رپورٹ کے مطا بق اس کانفرنس میں پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کے غیر محفوظ ہونے کو نوع انسانی کے لئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا گیا اور اس کے خلاف دنیا بھر کی تنظیموں کو آواز اٹھانے کے لئے کہا گیا۔ یہ سب کچھ ایسے وقت میں کیا گیا جب بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی امریکہ کا دورہ کرنے والے تھے۔ امریکہ، بھارت کو ایٹمی صلاحیت اور سول جوہری کلب کی رکنیت کے علاوہ ہتھیاروں کی ایک لمبی فہرست مہیا کرنے جا رہا ہے، لیکن یہ کرتے وقت امریکہ کو ایک بار نہیں کئی بار سوچنا ہو گا کہ ایشیا میں وہ بھارت کو ایٹمی ہیوی ویٹ بنانے کی کوشش کرے گا۔ اس کی جارحیت کے شکار ہونے والی قومیں خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہوئے امریکہ کی اس لے پالک ہیوی ویٹ ایٹمی قوت کی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لئے خود کو'' ایٹمی ہرکولیس‘‘ بنانے کی ہر ممکن کوشش کریں گی ۔ امریکی انتظامیہ یہ الفاظ تاریخ کا حصہ بنا لے کہ ایشیا یا بر صغیر میں مستقبل میں اگر تیسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو اس کا اصل ذمہ دار امریکہ ہو گا، امریکہ کے سوا کوئی اور نہیں۔کیا یورپ سمیت جاپان اور امریکہ کے عوام اپنے حکمرانوں اور خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں تیسری جنگ کے ذریعے نئے ہیرو شیما اور ناگا ساکی دیکھنا پسند کریں گے؟