تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     17-06-2016

اگّے تیرے بھاگ لچھیے

کوئی فوج اگر خود کو منظم کیے بغیر حریف پر یلغار کرے تو انجام کیا ہوگا؟ کپتان کو اوّل اپناگھر ٹھیک کرنا چاہئیے مگر وہ نہیں مانے گا۔آدمی کی افتادِ طبع ہی اس کی تقدیر ہوتی ہے ۔
ایک اور مشکل دور کا آغاز ہو چکا ۔ سرنگ کے دوسرے سرے پر اگرچہ روشنی ہے ۔دشمن کچھ ہی کر گزریں ، اس قطعہ ء زمین کو گوادر کی جگہ نہیں رکھ سکتے، جس کا نام چاہ بہار ہے ۔ پاکستان مخالف قوتیں کچھ ہی کر لیں ، تجارتی راہداری کی تعمیر کو اب روک نہیں سکتیں۔ نقشے پر نظر ڈالیے، بھارت کے لیے بھی سازگار یہی ہے کہ پاکستان کے راستے وسطی ایشیا سے لین دین کرے۔ اس قدر وہ طاقتور نہیں اور کوئی بھی نہیں کہ جغرافیہ بدل ڈالے۔
دن رات چین گوادر کی تعمیر میں جتا ہے ۔ اگر زیادہ نہیں ، سو دو سو بلین ڈالر کا فائدہ ہر سال اسے پہنچ سکتاہے ۔ پاکستان کے گرد گھیرا ڈالنے کی کوشش ، ایک اعتبار سے چین کے گرد حصار قائم کرنے کی کوشش ہے ۔ بیجنگ میں معاملات اگر دانا آدمیوں کے ہاتھ میں ہیں اور خیال ہے کہ دانا آدمیوں کے ہاتھ میں ہیں ۔ اگر اپنا قومی مفاد انہیں عزیز ہے اور خیال ہے کہ بہت عزیز ہے ۔ اگر وہ ایک دیرپا اور طویل المیعاد منصوبے پر کام کر رہے ہیں تو وہ کاہلی اور کوتاہی کے مرتکب نہیں ہو سکتے ۔ 
اگلے برس تک گہرے سمندر کی یہ بندرگاہ بروئے کار آجائے گی۔تب ایک نئے دور کی ابتدا ہو جائے گی ۔ امریکی گھمنڈ کو ٹھیس ضرور لگے گی ۔مگر اس حقیقت سے سمجھوتہ کیے بغیر کوئی چارہ ء کار نہیں ۔ تجارتی راہداری کی تعمیر وہ رکوانہیں سکتے۔ سول اور عسکری قیادت میں اس پر اتفاقِ رائے ہے ۔ چھوٹے موٹے جو اختلافات ہیں ، وہ طے کیے جا سکتے ہیں ۔ دبائو سے ، بات چیت سے ، میڈیا پر شور شرابے سے ۔ جمہوریت اسی کا نام ہے اور اس کی یہی افادیت ہے ۔ 
ملّا اختر منـصور کے قتل اور ایف 16طیارے کی فراہمی سے انکار کے ذریعے جو پیغام انکل سام اسلام آباد اور راولپنڈی کو دینے کے آرزومند تھے، وہ وصول کرنے سے انکار کردیا گیا ہے ۔
طور خم کی سرحد پر افغانستان کی اشتعال انگیز کارروائی اسی سلسلے کاشاخسانہ ہے ۔ دہلی میں شادیانے بجائے جا رہے ہیں مگر تابہ کے ؟ سرحد کی بندش افغانستان کے مفاد میں نہیں ۔ ضرورت کی بیشتر اشیا ، پاکستان کے راستے بحیرۂ عرب کے پانیوں پر تیرتی ہوئی آتی ہیں ۔ وقتی طور پر بھارتی اور ان کا نیا مربّی امریکہ بہادر کچھ دن کے لیے تماشا برپا کرسکتاہے ۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں ۔ جنرل راحیل شریف سے افغان سفیر کی درخواست میں طے ہو اتھاکہ طور خم کا راستہ کھول دیا جائے، تین دن جو بند رہا تھا۔ حالیہ ہنگامہ ہوا تو افغان سفیر کابل میں تھے۔ لوٹ کر آئے تو دفترِ خارجہ طلب کر کے انہیں یاد دہانی کرائی گئی ۔ ان کا رویہ مثبت تھا ۔ عسکری اعتبار سے افغان فوج اس قابل بہرحال نہیں کہ پاک فوج سے الجھ سکے ۔ ہمیشہ وہ اس سے زیادہ طاقتور تھی۔ چودہ برس سے دہشت گردی کے خلاف جنگ نے اسے محکم تر کیا ہے ۔ افواج جنگوں سے گزرتی ہیں تو صیقل ہوتی ہیں ۔ 
ایک عام فوجی اتنا ہی بزدل یا بہادر ہوتاہے ، جتنا کہ کوئی دوسرا۔ فوجی تربیت اسے جنگ کے پیچیدہ مسائل سے نمٹنا سکھاتی اور مشکلات سے نبرد آزما ہونے کا سلیقہ عطا کرتی ہے ۔ خوف سے وہ تب رہائی پاتاہے ، جب گولے اس کے آس پاس گرتے ہیں اور گرتے رہتے ہیں ۔ گولیاں جب اس کی کنپٹی کے پاس سے گزرتی رہتی ہیں ۔ پھراکثر وہ دریافت کر لیتاہے کہ جو گولی اس کے لیے بنی نہیں ، وہ اسے چھو نہیں سکتی۔ تبھی وہ سپاہی بنتا ہے ۔اب یہ انہی سپاہیوں کی فوج ہے ۔
افغان فوج ابھی تشکیل کے مرحلے میں ہے ۔ ایک قبائلی معاشرے کے لشکریوں کو قومی فوج بن جانے کے لیے طویل عرصہ درکار ہوتاہے ۔ افغان آرمی میں فرار کا عمل جاری رہتاہے ۔
بھارتیوں کی ہلّہ شیری کے باوجود پاک افغان سرحد بہت دن گرم نہیں رہے گی۔ اگر تصادم جاری رہے تو یقینا وہ پاکستان کونقصان پہنچانے میں کامیاب رہیں گے ۔ سوال یہ ہے کہ خود انہیں اس سے کیا فائدہ ہوگا؟
پاکستان کی حدود میں بنائے جانے والے گیٹ پر گولہ بار ی کا اقدام بچگانہ جسارت تھی ۔ کابل میں کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے ، ساری دنیا اسے بین الاقوامی سرحد مانتی ہے ۔ عملی طور پر ہے بھی ۔ 2008ء تک ایسا ہی آہنی دروازہ یہاں موجود تھا۔ شاہراہ کشادہ کرنے کے لیے مسمار کر دیا گیا تو نیا تعمیر کیوں نہ ہو؟
سرحد کے دونوں طرف تین میل کی آبادیوں کو آمدرفت کی جو سہولت ڈیڑھ صدی پہلے فراہم کی گئی تھی ، وہ اب برقرار نہیں رہ سکتی۔ کم از کم اس طریقِ کار کے تحت نہیں ۔ دہشت گردی کا مسئلہ تب نہیں تھا ۔آویزش اور کشمکش کے مہ و سال کے بعد اتفاقِ رائے سے یہ لکیر کھینچی گئی تھی ۔ ایسی ہی لکیریں تاریخی عمل میں پختہ سرحدیں بنتی ہیں ۔ دنیا کا کوئی ملک افغانستان کا مقدمہ تسلیم نہ کرے گا۔ اس لیے بھی کہ برسوں سے وہ پاکستانی مداخلت کا رونا رو رہے ہیں ۔ خود امریکی بھی ۔ آخر کار اس سرحد پروہ سب قوانین نافذ کرنا ہوں گے ، ہر کہیں جو ہوتے ہیں ۔ مشترکہ نگرانی میں چند ہزار لوگوں کے لیے خصوصی پاسپورٹ بنائے جا سکتے ہیں ۔ اتفاقِ رائے سے کوئی اور نظام بھی رائج کیا جاسکتاہے ۔ ایک بار پھر یہ ایسا معاملہ ہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی میں جس پر کوئی اختلاف نہیں ۔ 
جو دانشور پاکستان کی سفارتی اور سیاسی تنہائی کا رونا رو رہے ہیں ، وہ یہ بھی فرمائیں کہ ایران او ربھارت کو کون سی رعایتیں پاکستان دے کہ ان کا روّیہ بدل جائے ۔ بلّی کو چھیچھڑے دکھائی دے رہے ہوں تو وہ مولانا طارق جمیل کا وعظ نہیں سنے گی ۔ 
یہی پسِ منظر ذہن میں تھا، جب عرض کیا تھا کہ عید الفطر کے فوراً بعد یلغار کا جو منصوبہ ہے ، اس کی کامیابی کا امکان کم ہے ۔ جولائی کے لاہور میں حبس ناقابلِ برداشت ہوتاہے اس پر مون سون کی بے رحم بارشیں ، جب ایل ڈی اے کے افسر معطل ہوا کرتے ہیں ۔ جب لانگ بوٹ پہن کر شہباز شریف پانی میں تصاویر بنواتے ہیں ۔ ہوا چلے تو لاہوری پکنک مناتے ہیں ۔ حبس ہو تو ایک دوسرے کے درپے ہوتے ہیں ۔
طور خم پر گولہ بار ی کے بعد وزیرِ اعظم نے جو بیان لندن سے داغا ہے اس کا لب و لہجہ مختلف ہے ۔ صاف نظر آیا کہ عسکری قیادت سے وہ مصالحت کے آرزومند ہیں ۔ تجارتی راہداری پر امریکی اور بھارتی دبائو کے ماحول میں عسکری قیادت سیاسی محاذ کیوں کھولے گی؟ جی نہیں ، ایجی ٹیشن کامیاب ہوتا نظر نہیں آتا۔ ایک بات او ر،2013ء میں جس اکثریت نے نواز شریف کو ووٹ دئیے ، کیا اس نے انہیں پارسا سمجھا تھا؟جی نہیں ۔ پاناما لیکس منکشف ہونے سے پہلے والے میاں صاحب خلقِ خدا کی نظر میں کیا اتنے ہی مختلف تھے کہ اب وہ بھڑک اٹھے۔ بے تاب ہو جائے اور اتنی بے تاب کہ خوشہ ء گندم کو جلا دے ؟ 
خبر یہ ہے کہ 34میں سے تحریکِ انصاف کے 16ایم این اے ناراض ہیں اور یہ خبر سنی سنائی نہیں ۔ معاف کیجیے گا، سنی ہے مگر گھوڑوںمیں سے ایک کے منہ سے ۔ صوبائی ارکان میں سے کتنے شاد ہیں ؟ معلوم نہیں ۔ پچھلی بار غلطی ہوئی کہ تحریری طور پر متنبہ نہ کیا تھا ، سو اس بار ناراضی کا خطرہ مول لے کر بھی یہ جسارت کی ہے ۔ ع
اگّے تیرے بھاگ لچھیے 
کوئی فوج اگر خود کو منظم کیے بغیر حریف پر یلغار کرے تو انجام کیا ہوگا؟ کپتان کو اوّل اپناگھر ٹھیک کرنا چاہئیے مگر وہ نہیں مانے گا۔آدمی کی افتادِ طبع ہی اس کی تقدیر ہوتی ہے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved