تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     17-06-2016

جھکنے والوں نے رفعتیں پائیں

مرحوم پیر علی شاہ مردان پگاڑہ کا قول اور بلاول بھٹو کا سٹائل دونوں ملا دیں تو ''دو آتشہ‘‘ چھوٹا سا لفظ لگتا ہے۔
پیر پگاڑہ صاحب سے میری کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ اکثر ہمراہ مرحوم مجاہدِ اول سردار قیوم۔ پیر پگاڑہ صاحب اس متحدہ مسلم لیگ کے سربراہ بنے‘ جس میں آج موجود تمام لیگی دھڑے شامل تھے۔ بانیء پاکستان حضرت قائد اعظم ؒ نے جن کوکھوٹے سِکے کہہ کر پکارا‘ انہوں نے قائد کا قول سچ ثابت کیا کہ وہ کھوٹے بھی ہیں‘ اور جعلی بھی۔
تاریخ نے ایک دفعہ پھر اپنے آپ کو دہرایا ہے۔ پیر پگاڑہ صاحب کا قول سچ ثابت ہوا۔ نون لیگی حکمران اندر پیر پکڑتے ہیں‘ اور باہر نکل کر گلا پکڑ لیتے ہیں۔ یہ محض پیر پگاڑہ کا قول نہیں‘ ان کا ذاتی تجربہ بھی تھا۔ بالکل ایسے ہی تجربے سے جنرل جیلانی اور جنرل مشرف بھی گزرے۔ پہلے جرنیل کی سیاسی ٹافیاں اور دوسرے جرنیل کی سیاسی معافیاں‘ دونوں سے نون لیگ نے جی بھر کر لطف لیا۔ یہ ناقابلِ تردید تاریخ ہے۔
پیر صاحب پگاڑہ مرحوم بَلا کے ستارہ شناس اور دست شناس تھے۔ پیر صاحب سردار قیوم صاحب کے اقتدار کے زمانے میں ان کی دعوت پر مظفر آباد تشریف لے گئے۔ ایک اعلیٰ بیوروکریٹ نے سردار صاحب سے درخواست کی، 'پیر صاحب سے کہیں وہ میرا ہاتھ دیکھیں‘۔ کافی پس و پیش کے بعد درخواست مان لی گئی، اور بیوروکریٹ کا ہاتھ دیکھا۔ مذکورہ اعلیٰ افسر کشمیر کے صدر ہاؤس سے تھوڑے ہی فاصلے پر واقع سرکاری گھر میں رہائش پذیر تھا۔ پیر صاحب پگاڑہ نے اس کا ہاتھ دیکھنے کے بعد کہا: جاؤ اچھی طرح سے ہاتھ دھو کر‘ پھر آؤ۔ دوبارہ ہاتھ دیکھنے پر پیر صاحب پگاڑہ کی پیشانی پر بَل پڑ گئے۔ انہوں نے بڑے غور سے بیوروکریٹ کا چہرہ دیکھا‘ پھر ہاتھ پر نگاہ ڈالی اور اسے حکم دیا: ''تم گھر چلے جائو‘‘۔ بیوروکریٹ نے التجائیہ نظروں سے پیر صاحب سے پوچھا: کیوں جناب؟ اس پر پیر پگاڑہ نے اونچی مگر متفکر آواز میں کہا: جلدی کرو‘ ابھی گھر پہنچو۔ وہ بیوروکریٹ اس وقت کی آزاد کشمیر حکومت میں اہم محکمے کا انچارج تھا۔ اس کے گھر جانے کے 30 منٹ بعد صدر ہاؤس کو اطلاع ملی کہ ''صاحب گھر پہنچے، دروازے پر لڑکھڑائے، صوفے تک گئے، بیٹھے اور اللہ کو پیارے ہو گئے‘‘۔
یہ واقعہ مجاہد اوّل نے تحصیل کہوٹہ میں واقع گاؤں بیور جاتے ہوئے میری گاڑی میں سنایا تھا‘ جہاں وہ میرے ساتھ بیور یونین کونسل کے چیئرمین کی وفات پر فاتحہ کے لئے جا رہے تھے‘ جو ان کا بہت جی دار ساتھی تھا۔ مجھے بہت اشتیاق ہوا۔ خواہش پہلے بھی تھی کہ پیر صاحب پگاڑہ میرا بھی ہاتھ دیکھیں؛ چنانچہ میں نے گاؤں بیور سے واپسی پر مجاہد اوّل سے وعدہ لے لیا کہ وہ پیر صاحب سے میرا ہاتھ دیکھنے کی سفارش کریں گے۔ مجاہد اوّل اس وقت تو ہنس دئیے لیکن بعد ازاں پیر صاحب نے ان کے ہی اصرار پر میرا ہاتھ دیکھا۔ میری ہتھیلی کو بند کیا‘ اور کہا: آئندہ کسی کو بھی اپنا ہاتھ نہیں دیکھنے دینا۔
وفاقی وزیر سرکاری اطلاعات نے قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر سے ''رکوع‘‘ کے انداز میں ملاقات کی‘ جس پر بلاول بھٹو نے برمحل ٹویٹ ڈال دی۔ بلاول کی ٹویٹ مجھے اٹک قلعے میں لے گئی‘ جہاں مشرف کے دور میں موجودہ وزیر اعظم کا ٹرائل ہو رہا تھا۔ یہ ٹرائل ایک ایسے فوجی بیرک میں شروع ہوا‘ جس کے ایک سِرے پر نواز شریف صاحب کو ملزم کے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑا تھا۔ بیرک کے دوسرے سِرے میں قائم عدالت میں نواز شریف صاحب کا ''پسندیدہ قیدی‘‘ آصف زرداری زیر حراست تھا۔ یہ مکافاتِ عمل کا ٹریلر تھا۔
سچ کہتے ہیں نواز شریف صاحب بہت شرمیلے تھے۔ وہ سیدھے شاہی غسل خانے میں واقع کوٹھڑی سے نکلتے‘ اور بیرک کے ایک کونے میں واقع انتظار گاہ آ جاتے‘ جہاں وہ اپنے وکلا سے مشاورت کرتے۔ لاہور کے ایک سینیئر وکیل ان کے مشیر اعلیٰ تھے۔ یہی صاحبِ طرز براڈکاسٹر اور معروف وکیل‘ ہمارے پہلے منتخب وزیر اعظم شہید ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پراسیکیوٹر بنے تھے۔ اس سیاسی مقدمے میں‘ جس کو قانون کی دنیا میں آج تک TRIAL OF A MURDER" " کی بجائے "MURDER OF A TRIAL" یعنی قتل کا ٹرائل نہیں‘ بلکہ ٹرائل کا قتل کہتے ہیں۔
مرحوم وکیل صاحب نے درجن بھر وکیلوں کی موجودگی میں اٹک کے قید خانے میں نواز شریف صاحب سے آخری ملاقات کی داستان سنائی۔ ان دنوں میں بھی اٹک قلعے میں اعظم ہوتی، آصف زرداری، احمد ریاض شیخ سمیت نیب کے کئی مقدمات کے ٹرائل میں وکیلِ صفائی تھا۔ وکیل صاحب نے کہا: مجھے آدھی رات کو ایک قومی اخبار کے مالک اور نواز شریف کے کچھ ہمدردوں نے بذریعہ کار اٹک قلعے بھجوایا۔ وہ سب حضرات اس خبر پر پریشان تھے کہ نواز شریف معافی مانگ کر خاندان اور نوکروں سمیت جدہ کے سرور پیلس جا رہے ہیں۔ وکیل صاحب نواز شریف کے پاس پہنچے۔ وہ ناشتہ کر رہے تھے۔ سامنے سٹوو جل رہا تھا۔ وکیل صاحب نے کہا: سنا ہے آپ ملک سے باہر جا رہے ہیں۔ جواب ملا: آپ کشمیری مٹھائی‘ گلگلے پسند کرتے ہیں؟ اگلا سوال تھا: کیا مشرف سے آپ کے معاملات طے ہو گئے؟ جواب ملا: دریائے کابل کی مچھلی دریائے اٹک کی مچھلی سے زیادہ لذیذ ہے۔ وکیل صاحب کا حوصلہ جواب دے گیا۔ اگلے سوال سے پہلے ہی مغل شاہی کے مغلِ اعظم کے قلعے میں تلی ہوئی ''تَوا مچھلی‘‘ کی پلیٹ وکیل صاحب کو پکڑا دی گئی۔
بر سبیلِ تذکرہ کلنٹن کے ناشتے کی کہانی یاد آ رہی ہے۔ وہی امریکی صدر بِل کلنٹن‘ جن کے بارے میں ہر سال 28 مئی کو موجودہ حکمران یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ بِل کلنٹن نے 4 ٹیلیفون کرکے نواز شریف کو منع کیا‘ لیکن ہم نے 5 دھماکے کر دیئے۔ بِل کلنٹن کی یادداشتیں بتاتی ہیں کہ کس طرح نواز شریف صاحب نے اپنی حکومت بچانے کے لئے امریکہ سے مدد طلب کی تھی۔ اب نواز شریف کے دانش مند وزیر نے رکوع میں جا کر حکومت بچانے کی جو کوشش کی ہے‘ وہ اقتداری ٹولے کے سیاسی اخلاق اور وصولی مؤقف کے عین مطابق ہے۔ 
چانکیہ سیاست کرنے والوں کا معروف اصول یہ ہے: دولت کے ہیں تین نام... پرسو، پرسا، پرسرام۔ جو ذریعہ مے فیئر اور پاناما کے پرس بھرنے کے کام آئے‘ اس کے گھٹنے پکڑنے یا پاؤں چھونے میں کیا حرج ہے۔ ویسے بھی گھٹنے اور پاؤں میں فرق ہی کتنا ہے۔ آپ اسے تخت لاہور کا دو موریہ پل سمجھ لیں۔ ایک طرف گھٹنا‘ دوسری طرف پاؤں۔ اقتدار‘ اقتدار ہوتا ہے‘ جو آسانی سے نہیں ملتا‘ اور خودی خودی ہوتی ہے جس پر علامہ اقبال کا کلام طبلہ اور ہارمونیم پر لہک لہک کر گانے کا اپنا مزہ ہے۔ فی زمانہ تاجرانہ خودی کا ترانہ یہ ہے۔ محمود سرحدی کے بقول: 
ہم نے اقبال کا کہا مانا
اور فاقوں کے ہاتھوں مرتے رہے
جھکنے والوں نے رفعتیں پائیں
ہم خودی کو بلند کرتے رہے 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved