تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     18-06-2016

یہ غیرت نہیں‘جنون ہے

یہ غیرت نہیں جنون ہے‘ پسند کی شادی پر ناراضگی نہیں درندگی کا اظہار ہے اسلام کی اعلیٰ و ارفع تعلیمات سے روگردانی اور ملکی قوانین کی مکمل خلاف ورزی۔ ایک نفسیاتی مرض جس کا علاج ضروری ہے ورنہ واقعات بڑھیں گے اور درندوں کی حوصلہ افزائی ہو گی۔
لاہور اور بٹرانوالی (ضلع گوجرانوالہ) کے واقعات کا اذیت ناک پہلو یہ ہے کہ بیٹی کے قتل میں باپ اور بھائی کے ساتھ ماں بھی شریک ہے وہ ماں جس کے قدموں تلے جنت ہے اور جو اولاد کی ذرا سی تکلیف پر ادھ موئی ہو جاتی ہے۔ کیا پاکستانی معاشرے میں مائیں ممتا سے محروم ہو گئی ہیں یا سنگدلانہ ماحول نے ان کے لطیف جذبات اور شفیق احساسات کو کچل کر رکھ دیا ہے۔ چند روز قبل لاہور میں زینت کو ماں نے بیٹے کے ساتھ مل کر قتل کیا‘ تیز آتش گیر مادے سے جلایا اور گزشتہ روز گوجرانوالہ کے نواحی قصبہ بٹرانوالی میں مقدس کو جو ایک بچے کی ماں اور حاملہ تھی ماں باپ اور بہن نے چوک میں بے دردی سے ذبح کر دیا۔ زینت اور مقدس کے خلاف اس سنگین جرم کو ناجائز تعلقات کا شاخسانہ قرار دیا جا سکتا ہے نہ فوری اشتعال کا نتیجہ کیوں کہ دونوں پسندکی شادی کر کے اپنا گھر بسا چکی تھیں۔
قرآن مجید میں شادی کا حکم پسند‘ انصاف اور برابری سے مشروط ہے (فانکحوا ما طاب لکم من النساء) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک نکاح محض اس بنا پر فسخ کرنے کا حکم دیا کہ خاتون کو مرد پسند نہ تھا اور ایک یتیم بچی کو مرضی سے شادی کرنے کی اجازت دی۔ یہ بھی فرمایا کہ شادی میں میاں اور بیوی کے لیے ایک دوسرے میں پسندیدگی کا کوئی نہ کوئی پہلو ضرور ہونا چاہیے۔ ایک نوجوان سے کہا کہ شادی سے قبل اپنی منگیتر کو دیکھ ضرور لو کیونکہ انصار کی عورتوں میں عموماً بھینگا پن پایا جاتا ہے۔ مقصد یہ تھا کہ ازدواجی زندگی خوشگوار گزرے اور ایک دوسرے کی شکل و صورت‘ عادات و اطوار،
تعلیمی ‘ ذہنی سطح اور سماجی مرتبے میں کسی قسم کی ناپسندیدگی روز مرہ کی توتکار‘ خانگی جھگڑوں اور بالآخر علیحدگی پر منتج نہ ہو۔ اسلام میں خاندان کی اہمیت اور والدین کی اطاعت و تابعداری پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے اور اولاد کو سرکشی و نافرمانی پر سخت وعید سنائی گئی ہے۔ آزادی اور پابندی کا یہی توازن عائلی زندگی میں مسرتیں بکھیرتا اور دوامی خوشی کی راہ ہموار کرتا ہے ؎
صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پا بہ گل بھی ہے
انہی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تو کر لے
پاکستان میں والدین کے ہاتھوں اپنی نور نظر بچیوں کا قتل ایک ایسا المیہ ہے جس کا گہرائی سے تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیشہ اولاد غلط کار ہوتی ہے نہ والدین قصوروار۔ جب کوئی دل دہلا دینے والا سانحہ رونما ہوتا ہے تو ہم اس پر رائے زنی کرتے اور اپنی اپنی افتاد طبع کے مطابق ایک فریق کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ بعض مذہبی عناصر کے نزدیک مغربی تہذیب سے متاثر سرکشی پر اتری لڑکیاں قصور وار ہیں جو والدین کی عزت و آبرو دائو پر لگا کر انہیں اشتعال دلاتی اور برے انجام کو پہنچتی ہیں۔ آخر اٹھارہ بیس سال تک پرورش کرنے والے والدین اس کا برا کیسے سوچ سکتے ہیں اور اپنی نور نظر ‘ لخت جگر کو کسی اُچکے‘لفنگے اوراوباش کے پلے باندھ کر اس کی زندگی اور اپنی عمر بھر کی نیک نامی برباد کیسے کر سکتے ہیں؟ جبکہ نسوانی حقوق کے علمبرداروں کے نزدیک ہر بالغ لڑکے اور لڑکی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے جذبات کی تسکین اور خواہشات کی تکمیل کرے۔ مذہب ‘قانون‘ معاشرے اور والدین کو اولاد کی مرضی کے فیصلوں میں رکاوٹ ڈالنے کی اجازت نہیں۔ میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا ملاّ قاضی۔
معاملہ مگر اتنا سادہ نہیں۔ بجا کہ پاکستان میں مادر پدر آزاد میڈیا‘ جنسی انگیخت پر مبنی فلموں‘ ڈراموں اور لٹریچر کے علاوہ عورت کو جنس بازار بنانے والے تشہیری مواد نے نوخیز ذہنوں کو اچھے برے کی تمیز سے محروم کر دیا ہے۔ دولت کی نمائش اور نت نئے فیشن بھی ناپختہ اذہان کو متاثر کرتے ہیں اور جذباتی کیفیت میں وہ عموماً غلط فیصلہ کر گزرتے ہیں۔ والدین کو بھی الا ماشاء اللہ اس وقت ہوش آتی ہے جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے اور خود سر اولاد ان کی کوئی معقول بات سننے کو تیار نہیں ہوتی۔ اس میں بھی شک نہیں کہ والدین بسا اوقات اولاد کو معقولیت سے سمجھانے کے بجائے دھونس دھاندلی سے کام چلانے کی کوشش کرتے ہیں جس کا نتیجہ ضد اور ہٹ دھرمی پر مبنی ردعمل میں نکلتا ہے اور چالاک مرد کے جال میں پھنسی لڑکیاں نتائج کی پروا کئے بغیر اندھے کنوئیں میں چھلانگ لگا دیتی ہیں، ماں کا رتجگا اور ممتا یاد رہتی ہے نہ باپ کی ریاضت‘شفقت اور عزت۔ تعلیم اور تربیت میں اخلاقی پہلو نظر انداز ہو چکے ہیں اور ماحول قدم قدم پر نوجوان نسل کو مغرب کی تقلید پر اکساتا ہے جہاں خاندانی نظام تباہ ہو چکا ہے اور رشتوں کا تقدس پامال۔ والدین کی غربت‘ تنگدستی اور ناخواندگی بھی تعلیم یافتہ اورزندگی کی جدید سہولتوں کی خواہش مند اولادکو من مانے فیصلوں پر اکساتی ہے مگر یہ معاملے کا ایک پہلو ہے۔
والدین بھی الا ماشاء اللہ پالنے پوسنے کے بعد اولاد کو عاقل و بالغ اور آزاد و خود مختار انسان کے بجائے زر خرید غلام سمجھنے لگتے ہیں۔ چٹا ان پڑھ والد بھی گریجوایٹ بیٹے یا بیٹی کو دن میں کئی بار یہ باور کرانا ضروری سمجھتا ہے کہ اسے کچھ معلوم نہیں اور وہ خود سب کچھ جانتا ہے۔ تعلیم دلانے کے بعد بھی انہیں احساس نہیں رہتا کہ تعلیم یافتہ بیٹی کسی ان پڑھ نکھٹو اور واجبی شکل و صورت کے رشتہ دار لڑکے کے بجائے ایسے شخص سے شادی کی آرزو مند ہے جو ماضی کی محرومیوں کا ازالہ کرنے پر قادر ہو‘ خوش شکل‘ تعلیم یافتہ اور سماجی حیثیت کا مالک ہو اور اسے ایک آسودہ زندگی فراہم کرسکے۔ برادری میں وٹے سٹے کی شادی‘ ماں باپ کی اپنے بہن بھائی کو خوش کرنے کی خواہش اور جھوٹی انا بسا اوقات بچیوں کو سرکشی کی طرف مائل کرتی اور ماں باپ کی ''عزت‘‘ کو خاک میں ملانے کا سبب بنتی ہے۔ والدین اپنے ارمان پورے کرنے کے لیے اولاد کے خوابوں کا گلا گھونٹنے سے گریز نہیں کرتے اور اس میں بھی صنفی امتیاز برقرار رکھتے ہیں۔ بیٹی اگر ماں باپ کی مرضی کو ٹھکرا کر پسندکی شادی کرے تو گردن زدنی، زینت اور مقدس کے انجام کی حق دار لیکن یہی کارنامہ اگر پوت انجام دے تو سات خون معاف۔ جوانی دیوانی ہوتی ہے کہہ کر درگزر کیا جاتا ہے۔
علماء کرام اور مذہبی جماعتوں کو عمومی طور پر مطعون کیا جاتا ہے مگر کبھی کسی نے نہیں سوچا کہ جس قسم کی ہندووانہ رسومات اور قبائلی روایات کی بھینٹ انہیں چڑھایا جاتا ہے اور جس پراگندہ ماحول میںبچیاں پل بڑھ کر جوان ہوتی ہیں وہ مولوی اور مذہب کی عطا ہے نہ ہماری مشرقی روایات کا لازمی حصہ۔ جنسی ہیجان‘ لامحدود خواہشات اور سب کچھ کر گزرنے کی ترغیب کے بعد نوجوان نسل سے یہ توقع کرنا کہ وہ من مانی نہ کرے اور ماں باپ کی عزت کو ملحوظ رکھے ع
ایں خیال است و محال است و جنون
اگر معاشرے کو واقعی راہ راست پر لانا مطلوب اور توازن برقرار رکھنا مقصود ہے تو ان اسباب کا سدباب کرنا ہو گا جو اولاد کو سرکشی پر اکساتے اور جنونی والدین کو وحشت و درندگی کی راہ پر چلاتے ہیں غلطی دونوں طرف سے ہو رہی ہے علماء کرام کا فرض ہے کہ وہ روزانہ کے درس اور خطبات جمعہ میں نکاح‘ شادی ‘ عورت مرد کے حقوق اور رشتوں کی تقدیس کے حوالے سے اپنے مقتدیوں کی رہنمائی کریں اور فحاشی و عریانی کا رونا رونے کی بجائے والدین کو اولاد کے حقوق سے آشنا کریں جبکہ ذرائع ابلاغ بھی مادر پدر آزادی کی ترغیب دینے کے بجائے حقوق و فرائض میں توازن و اعتدال پیدا کرنے کے لیے اپنی ذمہ داری نبھائیں۔اولاد کی پسند غلط ہو سکتی ہے مگر سزا بول چال بند اور قطع تعلقی ہو سکتی ہے۔ بیٹی کو قتل کرنا اور زندہ جلانا نہیں یہ غیرت نہیں جنون ہے‘ درندگی کا اظہار اور ناقابل معافی جرم۔ اس مکروہ فعل کو غیرت کا اظہار قرار دینے والے ماں باپ اور بہن بھائیوں کو جب تھانے کچہری میں‘ گلی محلے میں اور برادری و سماج میں رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ جیل پہنچ کر گھر کی باقی خواتین خانہ کی عزت و عصمت پولیس اہلکاروں اور معاشرے کے ہاتھوں پامال ہوتی ہے تو تب پتہ چلتا ہے کہ وہ کتنی بڑی غلطی کے مرتکب ہوئے اور کس طرح غیرت کا جنازہ نکل رہا ہے۔ روز قیامت جب زینت اور مقدس اپنی مائوں کی موجودگی میں سوال کریں گی کہ ''بایِّ ذنب قُتِلَت‘‘ تو ان کا جواب کیا ہو گا؟ یہ واقعات روز مرہ کا معمول کیوں بن گئے‘ ہمارے دانشوروں‘ ماہرین نفسیات‘ حکمرانوں اور مذہبی رہنمائوں کو سوچنا چاہیے۔؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved