تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     18-06-2016

طبقاتی جنگ

نریندر مودی ابھی واشنگٹن میں تھے کہ درمیانے درجے کے دو امریکی عہدیداروں نے اسلام آباد کا رخ کیا‘ اور پاکستانی حکام کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات ازلی اور ابدی ہیں‘ اور اگر ان میں بھارت کو شامل کیا جاتا ہے تو اس میں پاکستان کا بھلا ہو گا۔ مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز نہ مانے اور انہوں نے امریکہ کو مطلب پرست دوست قرار دے دیا۔ پا کستان نے ہندوستان کو حریف سمجھنے کا سلسلہ تو نواز شریف کے تیسری بار اور قوم پرست ہندو مودی کے پہلی بار برسر اقتدار آنے کے بعد تقریباً ترک کر دیا ہے‘ مگر اس کے آثار ابھی باقی ہیں۔ مودی کے حالیہ دورہ سعودی عرب اور ایران کو اسی عینک سے دیکھا گیا‘ اور اس پر مستزاد یہ کہ بلوچستان کے طے شدہ علاقے پر امریکی فوج کے ڈرون حملے اور اس میں افغان طالبان کے امیر ملا اختر منصور کی ہلاکت کو پاکستان کی آزادی اور خود مختاری پر ایک ضرب خیال کیا گیا ہے‘ جو بااعتماد دوستوں کو زیب نہیں دیتی۔ یہ ضرب ایبٹ آباد میں القاعدہ کے لیڈر اسامہ بن لادن‘ اور سلالہ کی چوکیوں پر جان لیوا امریکی حملے سے بھی زیادہ شدید خیال کی گئی ہے یا اس پر احتجاج شدید تر ہے۔
صدر اوباما نے افغانستان میں امریکی فوجیوں کے اختیارات میں غیر معینہ مدت کے لئے توسیع کر دی ہے‘ جس کا مطلب یہ لیا جا رہا ہے کہ امریکی فوجی‘ جو نیشنل افغان آرمی کی تربیت اور جوابی کارروائی پر مامور تھے‘ اب اس کے ساتھ طالبان پر حملے اور ان کے خلاف لامحدود فضا ئی کارروائی کا کہہ سکیں گی۔ اس سے صدر یہ لمبی جنگ ختم کرنے کے نصب العین سے اور زیادہ دور ہو گئے ہیں۔ حامد کرزئی کو‘ جو محمد علی کے جنازے میں شرکت کے لئے امریکہ میں تھے‘ ان قدامات کی تاثیر پر شک ہے۔ وہ امریکہ پر زور دیتے ہیں کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر واپس لانے کے لئے پاکستان پر دباؤ جاری رکھا جائے۔ امریکی حکام کہتے ہیں کہ منصور‘ انخلا کے لئے امن مذاکرات میں رکاوٹ تھا‘ مگر وہ یہ بھول گئے کہ طالبان راہنما کے ساتھ ایک اور شخص بھی مارا گیا‘ جسے معلوم نہیں تھا کہ اس کے ساتھ ایران کی سرحد سے کوئٹہ تک کون سفر کر رہا ہے؟ یہ شخص ٹیکسی ڈرائیور محمد اعظم تھا جو اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنے کی امید کر رہا تھا‘ اور جس کی حمایت اقوام متحدہ اور اس کے رکن کئی ملک کر رہے اور امریکہ کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ بے گناہوں کے خلاف ڈرون حملوں کا سلسلہ بند کرے۔ پاکستان اپنی سہولت سے یہ حقیقت فراموش کر رہا ہے کہ منصور‘ جو ایک افغان شہری تھا‘ پاکستان میں ولی محمد کے بھیس میں کیا کر رہا تھا اور کس نے اسے پاکستان کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ مہیا کئے تھے؟ امریکی بیان سے اس امر کی بھی تصدیق ہو گئی کہ ''کوئٹہ شوریٰ‘‘ کی کہانی درست تھی اور وہاں پاکستان کے طرفدار طالبان کا آنا جانا تھا۔
مری مذاکرات میں منصور کا خوش دلی سے شریک نہ ہونے کا مطلب سوائے اس کے اور کیا ہو سکتا ہے کہ پاکستان کے حامی اور مخالف طالبان یعنی دونوں دھڑے امریکہ کے رخصت ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ منصور اور اس کے ساتھی پاکستان نے پالے ہوئے ہیں اور پاکستانی فضل اللہ کو افغان طالبان نے اپنی پناہ میں رکھا ہوا ہے۔ یہ مْلا جو ایف ایم ریڈیو کے بکثرت استعمال سے پاکستان میں ''مْلا ریڈیو‘‘ کہلاتا رہا‘ صوفی محمد کا‘ جو ایک جیش لے کر امریکہ کے خلاف جہاد کرنے کی غرض سے افغانستان گیا تھا‘ داماد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم کی عدم موجودگی میں امریکی وفد طاقت کے اصل سر چشمے راحیل شریف سے ملا اور جرنیل نے زور و شور کے ساتھ فوج کا یہ موقف پیش کیا کہ امریکہ‘ فضل اللہ کے خلاف ایسی کارروائی کیوں نہیں کرتا جو منصور کے خلاف ضروری سمجھی گئی؟ یہ مطالبہ تو ہو سکتا ہے مگر منصور کے خلاف امریکی اقدام کا جواب نہیں۔
صدر اوباما اب سال رواں کے اواخر میں وائٹ ہاؤس سے روانگی کے بعد بھی افغانستان میں امریکی فوجیں بر قرار رکھنے کے حق میں دکھائی دیتے ہیں۔ اسی لئے انہوں نے خطے میں اپنے فوجی کمانڈروں کو طالبان سے لڑائی کے نئے اختیارات سونپ دیے ہیں۔ گویا اب تک جو کردار دفاعی تھا اسے جارحانہ رنگ دیا جا رہا ہے‘ مگر ایک سرکاری عہدے دار کا بیان ہے کہ یہ طالبان کو نشانہ بنانے کا کھلا حکم نہیں۔ جیمز ڈوبنز نے‘ جو افغانستان اور پاکستان کے لئے امریکہ کے خاص نمائندے رہے ہیں‘ کہا کہ نئے اختیارات اس بات کا اعتراف ہے کہ اوباما انتظامیہ کی جانب سے امریکی لڑائی کو القاعدہ تک محدود کرنا‘ کامیاب نہیں ہوا۔ چونکہ القاعدہ‘ طالبان‘ لشکر جھنگوی اور داعش بنیادی طور پر ایک ہیں اس لئے امریکہ‘ مخمصے میں پڑا ہوا ہے۔ ''لہٰذا مجھے خوشی ہے کہ وہ زیادہ نارمل طریقے پر واپس جا رہے ہیں۔ اگر طالبان ہمارے ساتھ جنگ چاہتے ہیں تو ہم ان کے ساتھ جنگ کرتے رہیں گے‘‘ ڈوبنز نے کہا۔
یہ واضح نہیں کہ نسبتاً ایک چھوٹی فورس کے ساتھ طالبان کو کیونکر فتح کیا جائے گا؟ جارج بش کے زمانے میں جب افغانستان پر یلغار کی گئی اس ملک میں امریکی فوجوں کی تعداد رفتہ رفتہ ایک لاکھ سے تجاوز کر گئی تھی مگر امریکہ جنگ کے طول پکڑنے اور نفری نو ہزار آ ٹھ سو رہ جانے کے باوجود سال کے آخر تک جیت کا اعلان کیسے کرے گا؟ وقت طالبان کے ساتھ ہے۔ امریکہ میں کیپیٹل ہل پر ویت نام جیسے مظاہروں کا آغاز ابھی نہیں ہوا۔ رپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ فوجوں کو گھر واپس بلا نے کی باتیں تو کرتے ہیں مگر ان کی کامیابی کے امکانات محدود ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ جب تک امریکہ میں جنگ کے خلاف باقاعدہ کوئی تحریک نہیں چلے گی عہدیدار شام‘ عراق‘ لیبیا‘ افغانستان اور دنیا کے دوسرے حصوں سے فوجیں بلانے پر غور نہیں کریں گے۔ امریکہ کو تو پوری طرح یہ بھی احساس نہیں کہ یہ لڑائی دائیں بازو کے انتہا پسندوں اور بائیں کے اعتدال پسندوں (یعنی لبرلز) کے مابین ہے اور اسے اس لڑائی سے دور رہنا چاہئے۔ آرلینڈو میں‘ جہاں دنیا کی سب سے بڑی تفریح گاہ ڈزنی ورلڈ ہے‘ ایک نائٹ کلب میں ایک افغان کی شوٹنگ سے 49 افراد کی ہلاکت اور اتنی ہی تعداد میں لوگوں کا زخمی ہونا اس لڑائی کی ایک مثال ہے اور دو سال سے پاکستان میں جاری ضرب عضب دوسری‘ جس میں ہزاروں قبائلی بے گھر اور سینکڑوں سپاہی شہید ہو چکے ہیں۔ افغان تاریخ کو دوبارہ لکھنا چاہتے ہیں۔ حکومت خواہ بادشاہ کی ہو‘ کمیونسٹ ہو‘ طالبان ہوں یا اشرف غنی کی جمہوریت‘ ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہیں کرتی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے طورخم کے علاقے میں جرائم پیشہ افراد کی روک تھام کے لئے ایک جنگلہ اور ایک گیٹ بنانے کی کوشش کی تو افغا ن حکومت نے آگ برسا دی‘ جس سے پاک فوج کا ایک میجر شہید اور دس دوسرے پاکستانی زخمی ہو گئے۔ ہمارے وزیر دفاع کی جانب سے ''بدلہ‘‘ لینے کے عزم کے اظہار کے باوجود دونوں ملکوں نے اگلے ہی دن صلح کے پھریرے لہرا دیے اور دفتر خارجہ نے اپیل کی کہ سرحدی کشیدگی کو جنگ نہ کہا جائے۔ مفروضہ رپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے آرلینڈو کے قتل عام کا سن کر صدر اوباما سے مطالبہ کیا کہ اگر وہRadical Islamic Terrorism نہیں کہہ سکتے تو اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں۔ پاکستان کو چاہئے کہ امریکہ اور افغانستان کے ساتھ تمام پوشیدہ اور ظاہری سمجھوتے ختم کر دے اور واشنگٹن اور کابل کے خلاف جنگ کا اعلان کرے۔ جب تک وہ ایسا نہیں کرتا اسے اپنے سب معاہدوں کا پاس کرنا چاہئے اور ان واقعات کو ناگزیر جان کر قبول کرنا چاہئے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved