حضرت رئیس امروہوی
بیگم اور بچیوں کی کھارا در سے واپسی کا قصہ بھی اک طرفہ تماشے سے کم نہیں۔ مکان کو دو حصوں میں تقسیم کر‘ بیچ میں دیوارکھنچوا دی۔ یہ میری غیر حاضری‘ غیر موجودگی میں ہوا۔ لیکن یہ حادثہ ابھی ہوا ہی تھا کہ میں کراچی وارد ہوا۔ کشیدگی بے پناہ تھی۔ منہ پھولے ہوئے‘ بول چال موقوف‘ آنا جانا القط۔ اس تقسیم بلکہ بندر بانٹ پر تُوتُو مَیں مَیں بھی ہوئی‘ وہ تو ہونا تھی۔ ایک مدت پہلے تقی صاحب نے مجھے رئیس کی موجودگی میں بتایا‘ میرا بیٹا حیدر تو کہتا ہے اگر چچی نے میری امی کے بارے میں پھرکوئی ایسی ویسی بات کی تو میں تو جوتیوں میں دال بٹنا کیسا‘ ساتھ جوتا چلائوں گا اور ان کے سر پر۔ یہ تقی صاحب کو زیب تو نہ دیتا تھا بیٹے کا انداز فکر اپنے بزرگوں خصوصاً خواتین کے بارے میں یہ ہو اور تقی صاحب ٹھنڈے پیٹوں نہ صرف یہ کہ سُن لیں بلکہ دوسروں پر بھی رعب گانٹھیں۔ حیرت ہوئی تھی مجھے تو‘ رئیس نے بھی سبھی کچھ بڑے تحمل سے سنا‘ رگِ حمیت نہ پھڑکی وڑکی۔ چونکہ میری حیثیت گھر کے فرد کی ہے‘ چھوٹی چھوٹی باتیں ہوں خواہ بڑے بڑے مسائل راز نہیں رکھے جاتے‘ دیوار چین دیکھ کر میں تو متوحش ہوا۔ ملاقاتی بٹے ہوئے‘ کسی کی نظر میں بڑا اور کوئی چھوٹے بھائی کو مظلوم کہتا۔ مفاہمت کے راستے مسدود کچھ تو بنائے جا چکے تھے اور کچھ دکھائی دیتے تھے‘ میں نے بیچ کا راستہ اختیار کیا‘ کبھی ادھر کبھی اُدھر‘ کبھی اس کی سنوں تو کبھی اُس کی
سُنوں۔ میرے ممدوح رئیس تھے مگر تقی صاحب کا احترام بھی میرے دل میں کم نہیں ہے۔ تقی صاحب کی فلسفیانہ موشگافیاں اس سرد جنگ میں اور نکھر گئیں۔ ان کا موقف یہ تھا کہ ہم پڑھے لکھے لوگوں کا ایک مقصد حیات ہے‘ نہیں تو ہونا چاہیے۔ قرآن سے اپنے دلائل کو تقویت پہنچاتے اورکہتے میاں ہمیں اتنی چھوٹی سی جائیداد اور اتنی چھوٹی باتوں پر تو نہیں لڑنا چاہیے۔ یہ باتیں‘ یہ حرکتیں ہمارے بس کا روگ کہاں ہیں‘ یہ جاہلوں پر سجتی ہیں‘ اور سچی بات تو یہ ہے‘ ہمیں لڑنا آتا ہی نہیں۔ رئیس شاکی تھے کہ گھر کا وہ حصہ جو تقی صاحب کے قبضے میں آیا‘ چونکہ پہلے میرے تصرف میں تھا‘ وہاں میری بہت سی چیزیں دبوچ اور دبا لی گئیں‘ مثلاً تکیوں کے اتنے غلاف اور جانے کیا کیا از قسم اُگالدان پاندان وغیرہ۔ دل میں ان کے یہ بھی تھا بلکہ کہا بھی تم ادھر نہ جایا کرو‘ جب آئو کچھ نہ کچھ پھل خشک میوہ لے کر آیا کرو تاکہ گھر میں یہ احساس ہو مجھ سے کوئی ملنے آیا۔ خالی ہاتھ تو میں بھی نہ گیا لیکن دوسری باتیں ان سنی کرتا رہا۔ بیحد محتاط اور عقیدت آمیز لہجے میں لگائی بجھائی نہیں‘ طرفین کو ''لعن طعن‘‘ کرتا رہا۔ کچھ اندر ہی اندر پشیمان بھی ہوئے‘ وہ جو ایک بھرم کہتے ہیں وہ جاتا رہا‘ پردہ اٹھ گیا‘ آنے جانے والوں نے جان لیا‘ یہ دیو قامت تو بونے نکلے۔ ناچار دروازے کے نام سے ایک دراڑ نَو تعمیر دیوار میں بالآخر ڈال دی گئی۔ مردوں مردوں میں تو میل جول بحال ہو گیا‘ عورتوں سے خدا بچائے‘ کالی ہوگوری ہو‘ جاہل ہو افلاطون ہو‘ رہتی بہرحال عورت ہی ہے۔ یہاں بھی یہی ہوا۔ چھ سات برس تو ہو گئے‘ شادی بیاہ میں بھی ایک دوسرے کا منہ نہیں دیکھا گیا۔ تقی صاحب کی ارسطوئیت اور رئیس کی نفسیاتی مہارت دھری کی دھری رہ گئی۔ میں نے مکان کی تقسیم کو بندر بانٹ اس لیے کہا کہ یہ دو بڑوں میں بٹ گیا‘ چھوٹے سید محمد عباس اور جون ایلیا کے حصے میں کچھ نہ آیا۔ گمان یہ ہے کہ کھارا در اور پاکستانی چوک کے چوبارے دے کر رام کر لیا۔ رئیس نے اپنے حصے کا مکان سجا بنا لیا تو ان کی دیکھا دیکھی تقی صاحب کے ہاں بھی توڑ پھوڑ شروع ہوئی۔ مکان کے پچھواڑے چند سندھی چھپر ڈالے برسوں سے
پڑے تھے۔ نیا ناک نقشہ ظاہر ہے توسیع طلب اور وسیع القلب نکلا۔ سندھی دھوبیوں کی اب وہ پہلی سی حالت بھی نہ رہی تھی۔ خاصے متمول تو نہیں پھر بھی کمی کسی چیز کی نہیں دیکھی گئی، ظاہراً وہ جھونپڑی نشین ہی تھے۔ اخلاقاً معاوضہ دے کر وہ قطعہ زمین تقی صاحب نے خالی کرانا چاہا‘ مہینوں کی دوستانہ گزارش بے کار گئی۔ اب مصلحت زور زبردستی میں نظر آئی۔ کاریگروں نے پرانی دیواریں ڈھانا اور پتھر لڑھکانا شروع کئے۔ واویلا مچ گیا‘ ہائے مر گئے ‘ہائے لٹ گئے۔ بھائی نے بھائی کو چار تنومند مصاحبوں کی کمک بھیجی‘ اکثریت کے بگڑے ہوئے تیور دیکھ کر اقلیت کو بھاگتے ہی بنی۔ خاموش تماشائی میں بھی تھا۔ پیپلز پارٹی کے حامیوں اور سوشلزم کے پرچارکوں کے قول و فعل کا تضاد دیکھ بھی لیا۔
امروہوی صاحب خوب دیکھ بھال کر پائوں پھیلاتے ہیں۔ آگا پیچھا دیکھ کر چلنے والوں میں سے ایک ہیں‘ اپنے قابو میں رہتے ہیں‘ روپے پیسے کی بڑی قدر ہے‘ حساب کتاب لکھنے کی عادت نئی نہیں‘ پرانی ہے۔ سال بھر کی آمدو رفت کا تجزیہ دِقّتِ نظر سے کرتے ہیں۔ آمدنی کے ذرائع میں اضافے کے منصوبے بناتے اور متعین کردہ راستے سے اِدھر اُدھر نہیں ہوتے۔ پس انداز کرنے کے فن میں کورے نہیں‘ مشاق ہیں۔ پانچ بیٹیوںکو بڑی شان اور لوازمات کے ساتھ رخصت کیا۔ جہیز میں کوئی کمی نہ چھوڑی۔ باراتیوں کے استقبال اور کھانے ٹھاٹ کے ہوئے۔ چیدہ اور معزز
شہریوں کو بلایا۔ اپنی معاشرتی ذمہ داریوں کو فرض جان کر نباہتے ہیں۔ یہ چھوٹی نہیں‘ بڑی بات ہے۔ دامادوں کی دامے درمے سخنے ہر طرح کی مدد کی۔ آڑے وقت میں ارباب اقتدار و اختیار پر اثر انداز ہونے کی تگ و دو کرتے ہیں۔ حکومت وقت کی نظر میں ناپسندیدہ حرکتوں کی پاداش میں جب بھی سبط اختر جیل گئے‘ نوکری سے نکالے گئے‘ ہر مرحلے پر رئیس ہمدم ود مساز رہے۔ بیٹی ‘نواسے نواسیوں کے دادا دادی سبھی کو اپنے گھر میں پناہ بھی دی، پرورش بھی کی۔ بلاوے پر میں بھی ایک ایسی ہی تقریبِ سعید میں شریک ہوا۔ بیٹی سسرال سدھاری حالانکہ رات کے بارہ بج چکے تھے‘ غم غلط کرنے کے لیے بوتل اور گلاس زیادہ دور نہ تھے‘ روتے جاتے تھے اور کہتے تھے آخر ہم کب تک دیے جائیں گے۔ ہمارے گھر میں کسی کو آنا ہوگا‘ جون کی شادی کرنا پڑے گی‘ جون نے شادی اپنی پسند زاہدہ حنا سے کی اور رئیس نے مجھے چُبھتے ہوئے لفظوں میں لکھا‘ لڑکی جہیز میں اور تو کچھ نہیں لائی‘ کتابیں ہی کتابیں ہیں‘ اس پر ہماری کئی خطوں میں نوک جھونک رہی‘ دولہا دلہن دس مربعہ فٹ کی کوٹھڑی میں کب تک رہتے۔ جون سسرال منتقل ہو گئے۔ یہ بھی خوب ہوا‘ کمرہ نہ سہی‘ وہ کولکی خالی تو ہوئی۔۔۔۔
آج کا مطلع
مصروفِ کار تو نظر آتا بھی چور ہے
یہ ہاتھ پائوں توڑ کے بیٹھا بھی چور ہے