تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     18-06-2016

ملزم سُورج حاضر ہو!

ایک طرف گرمی اور دوسری طرف حالات کی گرما گرمی۔ میری، آپ کی... ہم سب کی زندگی ایک ایسے خطے میں بسر ہو رہی ہے جہاں ماحول سے کلیجے تک ٹھنڈک برائے نام ہے۔ ہر طرف، ٹھنڈک کے معمولی سے وقفوں کے سوا، گرمی اور گرما گرمی کا راج ہے۔ قدرتی ماحول جیسے جیسے گرم ہوتا جاتا ہے، سماجی اور سیاسی معاملات بھی شدید گرمی کی لپیٹ میں آتے جاتے ہیں۔ موسم گرما میں جب محکمہ موسمیات والوں کا پارہ چڑھتا ہے تو لوگوں کا پارہ بھی چڑھتا جاتا ہے۔ لوگ بات بات پر دھماکا خیز مواد کی طرح پھٹ پڑتے ہیں، پٹرول کی طرح بھڑک اٹھتے ہیں۔ بس میں کسی کا پیر دب جائے تو وہ کچھ ایسا ردعمل ظاہر کرتا ہے جیسے کسی نے گالی دے دی ہو!
جس موسم میں کیریاں پک کر آم میں تبدیل ہوتی ہیں اُس موسم میں ہم بھی تپ جاتے ہیں، جسم جل بُھن جاتے ہیں۔ دماغ چلتے چلتے ایسا رک جاتا ہے کہ چل جاتا ہے! گرمی بڑھتی ہے تو معاملہ جسم سے ہوتا ہوا روح تک آجاتا ہے۔ ایسے میں احساسات، جذبات اور خیالات تک جھلس جاتے ہیں۔ شدید گرمی سے آم بننا تو کیری کا مقدر ہے۔ یہ کرشمہ ہمارے مقدر میں نہیں۔ گرمی بڑھنے پر انسان آم تو کیا بنیں گے، کیری بھی نہیں رہتے!
سڑکوں پر ہمیں ایسے کئی افراد دکھائی دیتے ہیں جن کا ذہن کام نہیں کرتا۔ یہ مست ملنگ اپنی ہی دُھن میں رہتے ہیں۔ عام طور پر یہ ماحول کا اثر قبول نہیں کرتے مگر شدید گرمی اِنہیں بھی معاف نہیں کرتی۔ ہم نے ایسے بہت سے دیوانوں کو شدید گرمی میں ٹریفک کنٹرول کرتے دیکھا ہے! ذہن جب چلنے سے انکار کر دے تو اِسی طور چلا کرتا ہے!
ہر قسم کے میڈیا کی ہم پر مہربانی ہے کہ بھیانک چیز بھی خوش نُما دکھائی دیتی ہے۔ جلتے چولھے پر رکھے توے جیسی گرم چیز کو بھی میڈیا والے کچھ اِس انداز سے پیش کرتے ہیں کہ اُس میں سے ٹھنڈک کی لہریں پُھوٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں! کسی بھی شدید بحران کو انتہائی نزاکت کے ساتھ قابل قبول بنانا میڈیا والوں کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ کہیں اعداد و شمار کا گورکھ دھندا پھیلا کر اور کہیں تجزیہ کاروں کو ڈھنگ سے بروئے کار لا کر کسی گندے معاملے کو بھی انتہائی خوش نما بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور عوام سوچتے ہیں ہی رہ جاتے ہیں کہ وہ ایسی خوش نما چیز سے خواہ مخواہ ڈر رہے تھے!
گرمی ہمارے ہاں بھی پڑتی ہے مگر اُس میں چند برس پہلے تک وہ بات نہیں تھی جو ہونی چاہیے تھی۔ اب وہ بات کچھ اس انداز سے ہے کہ جسم و جاں کے لیے عذاب کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ چلچلاتی دھوپ میں چلنا پڑے تو سَر سے پاؤں تک پسینہ بہتا ہے۔ ایسے میں حواس گم ہو جاتے ہیں، اعصاب دباؤ محسوس کرتے ہیں اور ذہن کام کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔ مگر یہ میڈیا کی مہربانی ہے کہ دل کش اور رسیلے جملوں کی مدد سے ہم گرمی کو بھی انجوائے کر رہے ہیں!
گزشتہ اتوار کو شدید گرمی کی لہر نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ لیا تو میڈیا والوں نے اس کیفیت کو لہک لہک کر بیان کیا تاکہ اہل وطن کے دل و دماغ پر زیادہ بوجھ نہ پڑے۔ ایک ٹی وی چینل نے کہا کہ اتوار کو پوری قوم ہفتہ وار چُھٹّی منا رہی تھی مگر سُورج دن بھر ڈیوٹی دیتا رہا! گویا سُورج بھائی صاحب دن بھر ڈیوٹی دے کر اوورٹائم کرتے ہوئے ہمارے لیے ڈیوٹی فری دھوپ تقسیم کرتے رہے! لیموں سے شہد نچوڑنے کا فن یہی تو ہے۔ یہ میڈیا والوں ہی کا تو کمال ہے کہ بُری سے بُری بات کو بھی اِتنی اچھی بنا کر پیش کرتے ہیں کہ اپنی ہی بصارت، سماعت اور ذہانت پر یقین نہیں آتا۔ اور اگر میڈیا والے ضد پر آئیں تو برف کو بھی گرم ثابت کر دیں! ؎
دیکھیے سوزِ دروں کی شِدّت
برف کے دِل سے دُھواں اٹھتا ہے!
ایسا نہیں ہے کہ گرمی صرف ہمارے ہاں غضب ڈھاتی ہے۔ جہاں جہاں بھی سُورج اپنی حد سے گزرتا ہے، دل و دماغ کا تہہ و بالا ہو جانا طے ہے۔ بھارت ہی کی مثال لیجیے۔ شدید گرمی سے وہاں ہر سال ہزاروں افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ اور جو موت کے منہ میں جانے سے رہ جاتے ہیں وہ اپنے آپ کو اور ماحول کو بُری طرح کوستے ہوئے گرمی کا موسم گزارتے ہیں۔ گرمی سے صرف ہمارے ہاں دماغ نہیں چلتے، بھارت میں بھی لوگ حواس کھو بیٹھتے ہیں اور پھر ایسی حرکتیں کرتے ہیں کہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہنسیں یا روئیں۔ چند روز قبل فیس بک اور واٹس ایپ پر ایک شکایت نامہ نمودار ہوا تو لوگ پہلے تو حیرت سے دوچار ہوئے اور پھر بے لگام قہقہوں کے دریا میں غوطے کھانے لگے۔ ''چمکتے دمکتے‘‘ بھارت کا ایک سپوت بازی لے گیا۔ مدھیہ پردیش کے ضلع شاجا پور میں شیو پال سنگھ کو ایسی گرمی لگی کہ انہوں نے فیس بک اور واٹس ایپ پر پولیس سے مطالبہ کر دیا کہ گرمی کی شدید لہر پیدا کرنے اور لوگوں کا جینا حرام کرنے پر سُوریہ دیو یعنی سُورج کے خلاف کارروائی کی جائے!
روشنی بہت زیادہ ہو تو آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں، کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ گویا بہت زیادہ روشنی بھی اندھیرے ہی کی طرح ہوتی ہے۔ شیو پال سنگھ بھی روشنی کی بہتات کے باعث دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہو گئے۔ گویا ع
اندھے کو اندھیرے میں بہت دُور کی سُوجھی
اِس میں تو خیر کوئی شک نہیں کہ شدید گرمی نے شیو پال سنگھ جی کا ناک میں دم کر دیا ہو گا اور اُن کے دماغ کا وہی حال ہوا ہو گا جو پتیلی میں اُبلے ہوئے پانی کا ہوا کرتا ہے۔ گرمی میں انسان پگلا جاتا ہے مگر خیر پگلانے کی بھی کوئی حد تو ہوتی ہی ہے۔ اب دماغ کا ایسا بھی کیا پکنا کہ بات سُورج تک پہنچ جائے۔ سائنس دان بتاتے ہیں کہ سُورج ہم سے 9 کروڑ 30 لاکھ میل یا 14 کروڑ 96 لاکھ کلومیٹر دور ہے۔ مگر گرمی کا کمال دیکھیے کہ شیو پال سنگھ جی کا دماغ ایک جست میں یہ فاصلہ طے کر گیا! ع
ناطقہ سر بہ گریباں ہے اِس کیا کہیے!
مرزا تنقید بیگ کو یہ خبر سنائی تو بولے: ''شیو پال سنگھ کا مَتّھا گھومنا کچھ حیرت کی بات نہیں۔ بات گرمی کا اثر قبول کرنے سے زیادہ پولیس پر غیر متزلزل اعتماد کی ہے! ہماری پولیس کی طرح بھارت کی پولیس بھی 'تفتیش‘ کے ایسے طریقے جانتی ہے کہ ہرن بھی پکار اٹھے کہ ہاں بھائی، میں ہاتھی ہوں! شیو پال سنگھ نے سوچا ہوگا جب پولیس اور بہت سے مسائل حل کر ہی ڈالتی ہے تو کیوں نہ سُورج کے خلاف بھی ایکشن ہو جائے، اُس کے کس بل نکالے جائیں! بہت گرمی بانٹتا پھرتا ہے۔ تھوڑی بہت چھترول ہو گی تو ٹھنڈا ٹھار ہوکر ایک کونے میں بیٹھ رہے گا!‘‘
شدید گرمی سے ہمارا بھی ناک میں دم ہو جاتا ہے مگر ہم خیر سے اب تک اس مقام پر نہیں پہنچے جہاں شیو پال سنگھ جی پہنچ گئے ہیں۔ مانا کہ سُورج ہم سے 14 کروڑ 96 لاکھ کلومیٹر دور ہے‘ یعنی بہت پہنچا ہوا ہے مگر شیو پال سنگھ جی تو اُس سے بھی ''پہنچے‘‘ ہوئے نکلے! ایک لحاظ سے دیکھیے تو انہوں نے پورے خطے کی ''لاج‘‘ رکھ لی۔ سُورج کے خلاف کارروائی کا خیال برصغیر کے کسی فرد ہی ذہن میں پیدا ہو سکتا تھا ... اور ہوا!
شدید گرمی پڑتی ہے تو سُورج کی دیکھا دیکھی چاند بھی گرم لپٹیں پھینکنے لگتا ہے۔ چاندنی سے ٹھنڈک یوں غائب ہو جاتی ہے جیسے چار اور دو ٹانگوں والے گدھوں کے سَر سے سینگ! یہ چاند کی خوش نصیبی ہے کہ شیو پال سنگھ جی کی نظر ابھی اُس پر نہیں پڑی۔ جس دن اُن کی کھوپڑی گھوم گئی، چاند بھی سوشل میڈیا میں بدنامی کی سُولی پر لٹک جائے گا!
سُورج کے ساتھ چاند کا ذکر لازم سمجھا جاتا ہے۔ شیو پال سنگھ جب سُورج تک پہنچ گئے تو چاند کی کیا مجال کہ اُن کے ہَتّھے چڑھنے سے انکار کر دے! اور چاند ہے ہی کتنا دور؟ محض 3 لاکھ 84 ہزار کلومیٹر! جب پولیس کو سُورج کے خلاف کارروائی کے قابل گردانا جا سکتا ہے تو پھر چاند کی کیا ہستی ہے! ایسے میں انتظار کس بات کا ہے؟ شیو پال سنگھ جی لگے ہاتھوں چاند کا بینڈ بجانے کا بھی اہتمام کر ہی ڈالیں۔ ویسے بھی اس خطے کی پولیس بظاہر تمام اہم مسائل حل کر چکنے کے بعد اب ''فارغ‘‘ بیٹھی ہے تو ذرا وہ بھی تو ہماری پولیس کا مزا چکھیں جو اہلِ زمین کو دکھ دیتے پھرتے ہیں!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved