پاکستان میں کسی بھی جمہوری حکومت کے لئے تین سال کا عرصہ بغیر کسی مدوجزر کے گزر جانا غیرمعمولی بات ہوتا ہے۔ خصوصاً حکومت مسلم لیگی ہو تو۔ موجودہ مسلم لیگ بھی ٹوٹ پھوٹ کے ذریعے معرض وجود میں آئی تھی۔ لیکن میاں نوازشریف کی مضبوط شخصیت کے سائے میں ‘نہ صرف اکثریت کے ساتھ قائم ہوئی بلکہ قومی اسمبلی میں اس کی طاقت بڑھتی بھی رہی اور آج وہ دو تہائی اکثریت کے ساتھ برسراقتدار ہے۔ ابھی تک میاں صاحب کی قیادت مسلمہ ہے۔ لیکن گزشتہ چند روز کے اندر‘ دو اہم واقعات رونما ہوئے۔ اول میاں صاحب کی صحت کا مسئلہ اچانک پیدا ہوا۔ ابتدا میں معمولی بیماری کی خبریں تھیں۔ پھر پتہ چلا کہ عارضہ قلب کی شکایت ہے اور جب آپریشن ہو گیا‘ تو خبر آئی کہ یہ بائی پاس آپریشن تھا اور بعد میں معلوم ہوا کہ چار بائی پاس آپریشن کئے گئے۔ یہ انتہائی غیرمعمول بات ہے۔ یکے بعد دیگرے چار کامیاب بائی پاس آپریشنز کا ہونا‘ میڈیکل سائنس کا معجزہ ہے۔ بلاشبہ میاں صاحب مضبوط دل کے انسان ہیں اور اتنا مضبوط دل ہر کسی کا نہیں ہوتا۔ ان کے اہل خانہ اور پارٹی کے اراکین کو اس معجزاتی صحت یابی پر خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے اور عوام نے جتنی بڑی تعداد میں‘ میاں صاحب کی صحت یابی کے لئے دعا کی‘ یقینی طور پر خلق خدا کی اتنی بڑی تعداد کا دعائیں مانگنا ‘ایک معجزے سے کم نہیں۔ یہ دعائیں سنی گئیں اور اب میاں صاحب آہستہ آہستہ معمول کی مصروفیات شروع کر چکے ہیں۔ شاید ان کی صحت یابی کی خبروں سے ہی‘ برسراقتدار پارٹی کے اتحاد میں رخنے نمودار ہونا شروع ہو چکے ہیں۔ جو پہلے دو نمونے سامنے آئے ہیں‘ وہ ابتدائی نوعیت کے ہیں۔ مسلم لیگی‘ جب اپنی حکومت کے خلاف بغاوت پر اترتے ہیں‘ تو اس کی ابتدائی علامتیں یہی ہوتی ہیں‘ جو گزشتہ روز دیکھنے میں آئیں۔ بغاوت کی ان علامتوں کے لئے ماحول ابھی سازگار نہیں ۔ میاں صاحب کی بیماری میں ایسی باغیانہ حرکت ہماری روایات کے مطابق نہیں۔ ایک تو میاں صاحب کارعب اور دبدبہ‘ دوسرے تین سال کا عرصہ پورا ہو جانا‘ معمولی باتیں نہیں ہیں۔ پاکستان میں اراکین اسمبلی کا اپنی قیادت سے زیادہ عرصہ مطمئن رہنا خلاف معمول ہے۔ مسلم لیگی وہ ہوتا ہے‘ جو ہر چند ہفتوں کے بعد بڑے بڑے مفادات حاصل کرنے کا عادی ہو اور ایک فائدہ اٹھانے کے بعد وہ دوسرے فائدے کی فرمائش کرنے میں تاخیر نہیں کرتا اور اگر فرمائش پوری نہ ہو‘ تو ناراض ہونے میں بھی تاخیر نہیں کرتا۔ ایسے لوگوں کے نخرے برداشت کرنا‘ ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ ضیاالحق کے دور اقتدار میں اراکین اسمبلی کی عادات بہت بگڑ چکی ہیں۔ ایک فوجی آمر کے پاس اراکین اسمبلی کو فائدے پہنچانے کے سوا اور کچھ ہوتا بھی نہیں۔نوازشریف جب
وزیراعظم بنے‘ تو ان کے سامنے جنرل ضیا کی سیاسی روایات تھیں۔ لیکن نوازشریف نہ تو فوجی آمر تھے اور نہ ہی انہیں کوئی سیاسی تجربہ تھا۔ بطور وزیراعلیٰ انہیں جو مختصر تجربہ ہوا وہ ضیاالحق کے زیرسایہ قائم کی گئی صوبائی اسمبلی تھی۔ میاں صاحب اس کے اراکین کو جمع کرنے میں نمایاں کردار ادا کر چکے تھے۔ انہوںنے اپنے نام کے مفہوم کے عین مطابق ہر رکن اسمبلی کو جی بھر کے نوازا تھا۔ جب بھی صوبائی اسمبلی کا کوئی رکن انہیںملنے آتا‘ میاں صاحب وقت ضائع کرنے کے بجائے اس سے فوراً ہی پوچھ لیتے ''بتایئے! میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟‘‘ اراکین بھی تکلف سے کام نہیں لیتے تھے۔ ان کے دو ہی مطالبات ہوتے ۔ پلاٹ یا کوئی ''رس بھری‘‘ نوکری۔ میاں صاحب نے بھی صلائے عام
دے رکھی تھی۔ جو پلاٹ مانگتا‘ اسے پلاٹ دے دیتے اور جو نوکری مانگتا‘ وہ نوکری لے کر نکلتا۔ جماعت اسلامی ان کی اتحادی پارٹی تھی‘ اس لئے جماعت نے میاں صاحب کے زمانے میں جو مزے اڑائے‘ نہ تو اس سے پہلے کبھی ان کے یہ مزے ہوئے تھے اور نہ ہی اس کے بعد۔ میاں صاحب کی نوازشات کی کوئی حد نہیں ہوا کرتی تھی۔ لیکن جماعت والوں نے ان کا پیمانہ صبر بھی لبریز کر دیا تھا۔ وزیراعظم کی حیثیت میں انہیں اپنی پارٹی ‘سیاسی بنیادوں پر منظم کرنے کا موقع ملا۔ یہی وہ دور تھا‘ جس میں انہیں اپنی خوبیاں آزمانے کی پوری سہولتیں میسر تھیں۔ ان کی کامیابی یہ تھی کہ مقابلہ بے نظیربھٹو سے ہو گیا‘ جنہیں سیاسی تجربہ تو بہت تھا لیکن حکومت کا نہیں تھا اور مقابلہ پڑا تو آصف زرداری نے بڑھ چڑھ کر جوڑ توڑ کی ذمہ داریاں اپنے کندھوں پر اٹھا لیں اور پھر ایسی اٹھائیں کہ ممبروں کے ساتھ تعلق داری نبھانے کا شعبہ مستقل طور پر ان کے سپرد ہو گیا۔ آصف زرداری نے اس شعبے میں کمال کی مہارت حاصل کی۔ جس کا ثبوت مولانا فضل الرحمن کے ساتھ ان کے تعلقات ہیں۔ مولانا اس سے پہلے سیاسی تعلقات رکھنے کے تو عادی تھے لیکن نجی دوستی پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ آصف زرداری نے ان پر ایسا جادو کیا کہ آج ان دونوں کے مابین‘ دوستی کا ناقابل شکست رشتہ قائم ہو چکا ہے۔ کسی سیاستدان کے بارے میں یہ دعویٰ کرنا غلط ہوتا ہے۔ لیکن دو سیاستدانوں میں دوستی بھی ہو جاتی ہے۔ یہ آصف زرداری کا ہی کمال ہے کہ بی بی شہید کے بعد جب مخلوط حکومت بنائی‘ تو فیصلہ کن اکثریت نہ ہونے کے باوجود انہوں نے پانچ سال تک اس حکومت کو برقرار رکھا۔ان کا مقابلہ ایک طرف نوازشریف سے تھا اور دوسری طرف زخم خوردہ پرویزمشرف سے۔ مگر آصف زرداری کی خوش قسمتی تھی کہ جنرل کیانی کمزور شخصیت کے مالک تھے۔ مشرف کی طرح دلیرانہ فیصلوں کے عادی نہیں تھے۔ جس کا زرداری نے خوب فائدہ اٹھایا اور جیسے تیسے کر کے اپنا عرصہ اقتدار کامیابی سے گزار گئے۔ لیکن یہ کامیابی صرف اقتدار کی مدت پوری کر لینے تک محدود تھی۔ وہ اراکین قومی اسمبلی کے ساتھ ذاتی رشتے استوار نہ کر سکے۔ دوستی کے رشتے وہ صرف غیرسیاسی لوگوں کے ساتھ رکھتے تھے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پہلے عام انتخابات میں پنجاب میں پیپلزپارٹی کا صفایا ہو گیا۔ زرداری صاحب پہلے سیاسی امتحان میں کامیاب نہ ہو سکے۔ پارٹی ان کے ہاتھ سے نکل گئی۔ آج بھی وہ سندھ میں اپنی اور اقتدار کی طاقت‘ دونوں کو ملا کر صوبائی حکومت کو بچاتے آ رہے ہیں۔ مگر اگلے انتخابات میں وہ کیا نتائج حاصل کر سکتے ہیں؟ اس کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس کے برعکس نوازشریف کی سیاست بڑی حد تک کامیاب جا رہی تھی۔ لیکن انہیں دو ایسے جھٹکے لگے ،جو ان کی انتخابی صلاحیتوں پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ ایک تو ان کی بیماری اور یکے بعد دیگر ے چار بائی پاس آپریشن اور دوسرے پاناما لیکس کا سکینڈل۔ صحت کو بحال ہونے کے لئے ان کے پاس معقول عرصہ موجود ہے‘ جس میں ان کی صحت پوری طرح بحال ہو سکتی ہے۔ لیکن پاناما لیکس کی چوٹ سے سنبھلنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ اپوزیشن‘ جس کو نوازشریف نے بڑی حد تک کمزور کر دیا تھا‘ پاناما سکینڈل نے اسے سنبھلنے کا بھرپور موقع فراہم کر دیا۔ لیکن اپوزیشن اس سے پوری طرح فائدہ اٹھانے میں ناکام رہی۔ ابھی تک اپوزیشن‘ نوازشریف کی جسمانی اور سیاسی کمزوری سے بھرپورفائدہ نہیں اٹھا پائی۔ سیاسی مہم چلانے میں جس توانائی کی ضرورت ہے‘ نوازشریف کو کم از کم ‘چار چھ مہینے مہیا نہیں ہو پائے گی۔ جتنا عرصہ انہیں جسمانی اور سیاسی طور پر بحال ہونے کے لئے درکار ہے اگر وہ اس کے دوران سنبھلنے میں کامیاب ہو گئے‘ تو پھر ان کا راستہ روکنا دشوار ہو جائے گا۔ فی الحال یہ جائزہ لینا ہو گا کہ وہ اپنی سیاسی اور جسمانی کمزوریوں پر کیسے غلبہ پاتے ہیں؟ پارٹی کے اندر بغاوت کی جو
ابتدائی جھلکیاں دکھائی دی ہیں‘ ان میں دونوں طرح کے امکانات مضمر ہیں۔ اگر مخالفانہ حالات میں شدت آ گئی‘ تو پھر حال مینڈکوں کے ٹوکرے کی طرح ہو جائے گا۔ مینڈک اچھل اچھل کر ٹوکرے سے باہر جائیں گے اور میاں صاحب انہیں دبوچ دبوچ کر واپس ٹوکرے میں لائیں گے۔ میاں صاحب کی مخالف پارٹیاں‘ جن کی اپنی حالت بھی مینڈکوں سے مختلف نہیں‘ وہ کتنی دیر تک یکجا رہ سکتی ہیں؟ اور کب تک اکٹھی رہ سکیں گی؟ یہ لمحات فیصلہ کن ہیں۔دونوں طرف حریف پارٹیوں کو ایک ہی مشکل پیش آئے گی۔ وہ ہے اپنے اپنے ٹوکرے کے مینڈکوں کو یکجا رکھنا۔ دونوں طرف سیاسی نظریات کا فقدان ہے۔ صرف نظریہ اقتدار ہے۔ اس میں کون کامیابی حاصل کرے گا؟ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔