تحریر : انجم نیاز تاریخ اشاعت     19-06-2016

الخلیل سے ایک مراسلہ

سلام... میرا وعدہ تھا کہ میں آپ کو ماہِ رمضان میں لکھوں گا۔ آپ جاننا چاہ رہی تھیں کہ میرے والدین نے میرا نام رمضان کیوں رکھا۔ جب آپ مسجدِ ابراہیمی کی سیر کر رہی تھیں تو میں نے آپ کو بتایا تھا کہ میرے نام کا اس مسجد سے ایک تعلق ہے۔ یہ وہی مسجد ہے جہاں حضرت ابراہیم ؑ، ان کی زوجہ مبارکہ حضرت سارہ، ان کے بیٹے حضرت اسحقؑ اور بہو حضرت رفیقہ کی قبریں ہیں۔ ان مقدس قبروں کے ارد گرد گھومتے ہوئے آپ نے گھنٹوں گزار دیے تھے۔ یاد ہے آپ بہت حیران ہو رہی تھیں کہ اس مسجد میں مسلمانوں اور یہودیوں کے لئے الگ الگ داخلی دروازے کیوں ہیں حالانکہ یہ اللہ کے ایک ایسے نبی یعنی حضرت ابراہیم ؑ کے نام سے موسوم ہے‘ جن کا اسمِ مبارک مسلمان پانچ وقت نماز میں لیتے ہیں۔ اصل میں تو یہ پورا شہر انہی کے نام سے موسوم ہے۔ عبرانی لفظ ''ہبرون‘‘ کا مطلب ہوتا ہے ''دوست‘‘، اس شہر کے عربی نام ''الخلیل‘‘ کا مطلب بھی یہی ہے۔ مسلمان اور یہودی دونوں حضرت ابراہیم ؑ کو خلیل اللہ مانتے ہیں یعنی اللہ کا دوست۔
ماہِ رمضان کے شروع ہوتے ہی روزانہ ہلاکتوں کی تعداد معمول سے زیادہ ہو گئی ہے۔ الخلیل کے ایک گائوں سے تعلق رکھنے والے دو فلسطینیوں نے تل ابیب میں ایک کیفے پہ حملہ کرکے چار اسرائیلیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اسرائیلی وزارتِ دفاع کی جانب سے اس پہ فوری ردعمل کا اظہار ہوا۔ اس نے سرحدوں کو سیل کر نے کے لئے فی الفور دو فوجی بٹالین بھجوا دیں۔ رمضان کے دنوں میں اسرائیل میں داخلے کے جو اجازت نامے فلسطینیوں کو جاری کئے جاتے ہیں‘ وہ بھی کئی ہزار کی تعداد میں منسوخ کر دیے گئے۔ مغربی کنارے سے مقبوضہ یروشلم میں اہلِ خاندان سے ملاقات کو جانے والے فلسطینیوں کے تراسی ہزار اجازت نامے راتوں رات منسوخ کر دیے گئے تھے۔ غزا کی پٹی سے یروشلم میں واقع مسجدِ اقصیٰ میں نماز کو آنے والے پانچ سو فلسطینیوں کے اجازت نامے بھی منسوخ کئے گئے۔ اسی طرح کی مزید کارروائیاں بھی متوقع ہیں۔ تل ابیب میں ہونے والے حملے کے بعد اس شہر کے میئر نے بڑی جرأت دکھاتے ہوئے یہ بات تسلیم کی کہ اسرائیل وہ واحد ملک ہے جہاں ''ایک اور قوم مقبوضہ حیثیت میں رہ رہی ہے۔ اس قوم کو یہاں کوئی حقوق حاصل نہیں۔ اس قبضے کو انچاس برس ہونے کو آ رہے ہیں۔ ہم یہ نہیں کر سکتے کہ ایک طرف ان پہ قابض رہیں‘ اور دوسری طرف ان سے یہ امید بھی رکھیں کہ وہ یہ سمجھیں کہ سب کچھ ٹھیک جا رہا ہے اور انہیں اسی طرح ہی رہنا ہو گا‘‘۔ تل ابیب کے میئر نے اسرائیلی لیڈروں پہ بھی نکتہ چینی کی۔ یہ لوگ کئی عشروں تک ہم سے وعدے کرتے رہے کہ ہمیں ہماری ریاست مل جائے گی لیکن ہمارے علاقوں میں ان کی آبادیوں کی تعمیر بھی بدستور جاری رہی۔ یروشلم سے مغربی کنارے جاتے ہوئے میں نے آپ کو ان کی آبادیاں دکھائی بھی تھیں۔ میں نے آپ کو وہ بڑی سی خاردار باڑ بھی دکھائی تھی جو اسرائیلیوں نے ہمیں ایک مختصر سے رقبے میں محدود رکھنے کے لئے لگائی ہے۔ آپ کو تو یقینا علم ہو گا کہ سعودی عرب تل ابیب میں اپنا سفارتخانہ کھولنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ سعودی ارب پتی شہزادے اور میڈیا ٹائیکون الولید بن طلال اسرائیل میں سعودی عرب کے اوّلین اعزازی سفیر ہوں گے۔ ابھی پچھلے دنوں سعودی عرب اور فرانس نے پیرس میں ایک سربراہی اجلاس منعقد کرایا تھا‘ جس کا مقصد عرب امن عمل کی بحالی تھا۔ اجلاس میں زور دے کر یہ کہا گیا تھا کہ عشروں پہ محیط اس عرب اسرائیل تنازع کی تحلیل کا بہترین طریقہ یہی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں عرصے سے تعطل کے شکار امن عمل کے آغازِ نو کے طریقوں پہ بات چیت کے لئے اس اجلاس میں اٹھائیس ممالک کے وفود شریک ہوئے۔ فلسطین اور اسرائیل کو مدعو نہیں کیا گیا تھا۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو دو قوموں کے لئے دو الگ ریاستوں کے خیال سے اتفاق رکھتے ہیں‘ لیکن یروشلم سے دست بردار ہونے کو وہ قطعی تیار نہیں جو کہ مستقبل کی فلسطینی ریاست کا مجوزہ دارالحکومت ہے؛ چنانچہ یہ ساری کہانی تو یہیں ختم ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ میں نے آپ کو بتایا بھی تھا‘ الخلیل غزا کے بعد فلسطینی آبادی کا دوسرا سب سے بڑا شہر ہے۔ اسے دو سیکٹروں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس کا اسی فیصد حصہ فلسطینی اتھارٹی کے زیرِ انتظام ہے‘ جبکہ بیس فیصد حصے کا انتظام اسرائیل کے ہاتھ میں ہے۔ دو سال قبل اسرائیلی فوج نے یہاں یہودیوں کی قدیم آبادی میں رہائش پذیر چھ سو یہودیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے بہانے شہر پر قبضہ کر لیا تھا۔ اسرائیلی فوجIDF (یعنی اسرائیلی ڈیفنس فورسز) عرب نوجوانوں کو چاقو رکھنے کے الزامات لگا کر دہشت گردی کے شبے کے تحت قتل کر رہی ہے۔ تین ماہ قبل ایسا ہی ایک واقعہ ہوا تھا جس کی گونج قومی میڈیا میں ابھی تک سنائی دے رہی ہے۔ آذریا نامی اسرائیلی فوجی پہ عبدالفتح الشریف کے قتل کا مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔ اسی واقعہ میں ایک اور فوجی نے رمزی الخسروی کو بھی قتل کیا تھا۔ الخلیل کے دو عینی گواہ بتاتے ہیں کہ الخسروی پہ پہلے گولی چلا کر اسے چلنے پھرنے سے معذور کیا گیا اور کچھ دیر بعد اس کے سر میں گولی مار دی گئی تھی۔ ماہِ رمضان کا مقدس مہینہ ہے‘ اور میں آپ کو رحمتوں اور سلامتی کے پیغامات بھیجنے کی بجائے یہ بتا رہا ہوں کہ حضرت ابراہیم ؑ کے شہر میں فلسطینی کس طرح اسرائیلیوں کے خوف اور دہشت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ہم نے اس پہ بھی بات کی تھی کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں اسراء اور معراج کی شب آسمان کی جانب صعود کرنے سے قبل حضورِ اکرمﷺ تشریف لائے تھے۔ قرآن پاک میں 69 بار حضرت ابراہیم ؑ کا نام آیا ہے۔ توحید کے قائل تینوں مذاہب میں ان کے مقام کی تقدیس تسلیم کی جاتی ہے۔ سورہ آلِ عمران میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ''اے اہلِ کتاب، تم ابراہیم کے بارے میں بحث کیوں کرتے ہو؟ تورات اور انجیل تو اس کے بعد نازل ہوئے تھے۔ کیا تم عقل سے کام نہیں لو گے؟‘‘ اور 3:67 میں فرمانِ خداوندی ہے کہ ''ابراہیم نہ یہودی تھا اور نہ ہی عیسائی بلکہ وہ حق کی جانب رغبت رکھنے والا مسلمان تھا۔ مشرکوں میں اس کا شمار نہیں ہوتا تھا‘‘۔ یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج مسلمانوں اور یہودیوں کے لئے امن اور یگانگت کے ساتھ رہنا ممکن نہیں۔ سیاحت پہ بھی اس کا اثر ہوا ہے۔ جب میں آپ کو اپنے والد کی دکان پہ لے گیا تھا تو آپ دیکھ رہی تھیں کہ وہاں خریداروں کا کس قدر ہجوم تھا‘ لیکن اب خال خال ہی کوئی خریدار وہاں کا رخ کرتا ہے۔ لوگوں کو ڈر رہتا ہے کہ کسی بھی لمحے فساد پھوٹ پڑے گا اس لئے وہ حساس جگہوں سے دور رہنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ میں نے آپ کو بتا دیا ہے کہ ہماری روزمرہ کی زندگی یہاں کیسے گزر رہی ہے۔ آپ شاید ابھی تک میرے نام کی حقیقت جاننے کے لئے متجسس ہیں۔ چلئے آپ کو ساری کہانی سنائے دیتا ہوں۔ آپ کو یاد ہے جب مسجد ابراہیمی میں آپ نے حضرت ابراہیم ؑ کے مزار پہ فاتحہ پڑھی تو وہاں الکرم نامی ایک آدمی بھی تھا‘ جو آپ سے بات کرنا چاہ رہا تھا، اور جاننا چاہتا تھا کہ آپ کہاں سے آئی ہیں۔ جب آپ نے اسے بتایا کہ آپ پاکستان سے آئی ہیں‘ تو اس نے کافی گرمجوشی کا اظہار بھی کیا تھا۔ اس نے آپ کو بتایا تھا کہ 1994ء کے شہداء میں ایک اس کا بھائی بھی تھا۔ آپ کو یاد ہے کہ اس نے آپ کو بتایا تھا کہ رمضان کے مہینے میں فجر کی نماز کی ادائیگی کے لئے اس کا بھائی ہر صبح مسجد ابراہیمی آیا کرتا تھا۔ ایک دن بروک گولڈ سٹائن نامی امریکی اسرائیلی انتہا پسند نے نمازیوں پہ گولیاں برسا کر تیس افراد کو چند لمحوں میں شہید کر دیا تھا۔ میں انہی شہیدوں میں سے ایک شہید کا بھتیجا ہوں۔ اپنے چچا کی شہادت کے چند دن بعد ہی میری پیدائش ہوئی تھی۔ رمضان کا مہینہ بدستور جاری تھا، اسی لئے میرا نام بھی رمضان رکھ دیا گیا۔ عربوں اور اسرائیلیوں کے درمیان ہلاکتوں کا خونیں چکر آج بھی اسی طرح چل رہا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved