تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     20-06-2016

بلند و پست

آدمی اتناہی پست یا بلند ہوتاہے ، جتنا کہ اس کی فکر اور اس کا علم و ادراک ۔ اتنا ہی کامیاب یا ناکام ، جتنی اس کے خیال کی قوّتِ پرواز۔جس قدر امید، جتنی کہ مایوسی۔ ع 
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود 
کچھ کم، کچھ زیادہ ،ہر آدمی کسی نہ کسی طرح کے ذہنی غسل سے گزرتاہے ۔ ماں باپ، تعلیمی ادارے اور ماحول ۔ معاشرے میں مروّج رجحانات۔ زندگی کے اولین برسوں میں رائج روّیوں اور تصورات کا اثر گہرا ہوتاہے ۔ زمانہ قدیم کے چینی اپنی خواتین کو لوہے کی جوتیاں پہنایا کرتے کہ ان کے پائوں بڑھنے نہ پائیں ۔ انسانی دماغوں پر بھی یہی گزرتی ہے ۔ رفتہ رفتہ خیالات کا سلسلہ پختہ سے پختہ تر ہوتا چلاجاتاہے ، جس طرح کمہار کے آوے میں سلگتی آگ میں مٹی کا برتن ۔ رنگ وروغن چڑھایا جا سکتاہے ، شکل بدلی نہیں جا سکتی ۔
صدیوں پہلے بغداد کے ایک مدرس نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ پڑھے لکھے لوگ بھی عمر بھر اپنے والدین کے عقائد تک محدود کیوں رہتے ہیں ۔ خواہ یہ والدین بے بہرہ ہی کیوں نہ ہوں۔ اسی سوال پر پیہم غور و فکر نے اسے اپنے عہد کا عظیم ترین سکالر بنا دیا۔ اپنے پورے عہد کا معلم ۔ محمد الغزالی ،زندگی ہی میں جنہیں امام کہا جانے لگا ۔ 
انسانوں کی اکثریت جیسی پیدا ہوتی ، ویسی ہی مر جاتی ہے ۔ اہم ترین سوالات کو وہ سب سے کم اہمیت دیتی ہے۔ ساری عمر تلاشِ رزق میں بیت جاتی ہے ۔ درآں حالیکہ انسانوں کے خالق نے اس کا وعدہ کر رکھا ہے اور اس سے زیادہ سچّا وعدہ کس کا ہو سکتاہے ۔ مشاہدہ یہ کہتاہے کہ جو لوگ رزق کے باب میں وحشت کا شکار نہیں ہوتے ، وہ بہت آسودہ زندگیاں گزارتے ہیں ۔ ذہنی دبائو سے وہ نجات پا لیتے ہیں ۔ خوف اور حزن کی بربادی سے ۔ انسانی ذہن زیادہ آزادی سے پرواز کرنے لگتاہے ۔ حیات کے درو بام روشن سے روشن تر ہو تے چلے جاتے ہیں ، حتیٰ کہ کرامات رونما ہونے لگتی ہیں ۔
دو متوازی گروہ معاشرے میں ہوتے ہیں ۔ عظیم اکثریت ''ہوا‘‘ یعنی رواج اور فیشن کی طرف لپکتی ہے ۔ دوسری طرف معدودے چند لوگ جکڑ بندیوں سے اوپر اٹھ کر سوچتے اور تخلیقی زندگی بسر کرتے ہیں ۔ بہت آسانی سے سمجھ میں آجانے والی مثال خواتین کی ہے ، نت نئے فیشن کے ملبوسات اور آرائش کی دوسری اشیا جنہیں دیوانہ بنائے رکھتی ہیں ۔ جمعیت علمائِ اہلِ حدیث کے سادہ اطوار سربراہ پروفیسر ساجد میر سے کسی نے کہا تھا:صدیوں کی تبلیغ سے بھی آپ تو شلواریں ٹخنوں پر سے اوپر نہ اٹھواسکے ۔ فیشن کی ہوا چلی تو سب خواتین ایمان لے آئیں ۔ 
یہ معاشرے میں قبولیت کی آرزو ہے ، جس پر بعض دوسری جبلتوں کی چھینٹ بھی پڑتی ہے ۔ مسترد کیے جانے کا خوف ۔ غلبے کی ، نمایاں تر ہو کر اپنی انا کو تسکین پہنچانے کی ۔ آدمی ایک پیچیدہ مخلوق ہے مگر ایسی بھی پیچیدہ نہیں کہ سمجھا ہی نہ جا سکے ۔ 
افراد کی طرح اقوام کی بھی نفسیات ہوتی ہیں ۔ ان کے مزاج اور اندازِ فکر جو صدیوں میں ڈھلتے ہیں اور آسانی سے تبدیل نہیں ہوتے ۔ برصغیر کا معاشرہ ہمیشہ سے تمیزِ بندہ و آقا کا معاشرہ تھا۔ برہمن ، کھشتری اور شودر۔ اہلِ ایمان نے ذات پات کے اثرات قبول کیے ہیں ۔بعض نے بہت زیادہ ۔ پرویز رشید نے خورشید شاہ کے گھٹنے چھوئے تو کسی کو کیا اعتراض ۔ یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے ۔اس کی مگر جو توجیہہ کی گئی ، وہ بہت دلچسپ تھی۔ کہا گیا کہ وہ سیّد بادشاہ ہیں ۔ سیّد ،بادشاہ نہیں ہو تے ۔ جس ہستی کی وہ اولاد ہیں ، اس کا فرمان یہ ہے : قوم کا خادم ان کا سردار ہوتاہے ۔ بات یہ ہے کہ بے ہنر پرویز رشید کا ایک ہی ہنر ہے ، انسانی کمزوریوں کا ادراک اور انہیں برتنے کا سلیقہ ۔وہ جانتے ہیں کہ جاگیردارانہ پسِ منظر کا سندھی لیڈر خوشامد سے شاد ہو سکتاہے ۔رام ہوگا تو سننے پر آمادہ ۔ پھر ممکن ہے کہ کسی خیال اور پیشکش کی طرف مائل بھی ہو جائے ۔ 
رحیم یار خان کے ایک نووارد ڈپٹی کمشنر نے اپنے چپراسی کو پانی پلانے کو کہا۔ اپنی جگہ وہ خاموش بیٹھا رہا ، یاددہانی کے باوجود ٹس سے مس نہ ہوا۔ حیرت زدہ افسر نے استفسار کیاتو قدرے تلخ لہجے میں اس نے کہا : ایک سید زادے کو اس طرح کا حکم صادر کرتے ہوئے اسے شرم آنی چاہئیے ۔
یہ نہیں کہ تاریخ کے سب سے روشن اور سب سے بلند سلسلہ ء نسب کو ملحوظ نہ رکھا جائے ۔ کیوں نہیں ؟ جب ہم ایک سید زادے کو '' شاہ جی ‘‘ کہتے ہیں تو وہ عظمت ہی ہمارے لاشعور میں دمکتی ہے ، بنی نوعِ انسان کی تمام نسلوں پر جس کے احسانات کا کبھی نہ ختم ہونے والا بوجھ ہے ۔ مگر کیا اصحابِ رسولؓ عالی مرتبتؐ کے گھٹنوں کو چھوا کرتے ؟ کیا مدینہ کے مکین سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہ،امام حسنؓ ؓاور حسینؓ کے قدم لیا کرتے تھے ؟ احترام بجا اور وہ فطری تھا۔ تصنع او ردکھاوے سے پاک مگر وہ بے تکلف لوگ تھے ۔ اگر اس دور کے واقعات کا حوالہ دیا جائے تو ممکن ہے کہ بعض لوگ تاب ہی نہ لا سکیں ۔ زمانہ نازک ہے اور طبائع کی حساسیت حد سے بڑھ چکی ۔ 
زندگی کی رہ میں چل لیکن ذرا بچ بچ کے چل
یوں سمجھ لے کوئی مینا خانہ بارِ دوش ہے 
کہا جاتاہے کہ پاکستانی قوم پر 1971ء کے سانحے کا گہرا اثر ہے ۔ یقینا ہوگا ۔ واقعہ مگر یہ ہے کہ عدم تحفظ ہمیشہ سے برصغیر کا چلن ہے ۔ آریا، مغل ، ترک اور پشتون ، موج در موج وسطی ایشیا سے لشکروں کی آمد ، اقتدار کی خونیں جنگیں ۔ ظلِ الٰہی اور ان کے سائے تلے پھلتے پھولتے جاگیردار۔ ان جاگیرداروں کے اہلکار او رسرکاری حکّام۔ برصغیر کی نفسیات میں یہ تصور بہت گہرا ہے کہ کچھ لوگ زیادہ اہل اور لائق ہوتے ہیں بلکہ مافوق الفطرت ۔ محمد حسین آزاد کی ''دربارِ اکبری‘‘ حیرت زدہ کرتی ہے کہ ''دینِ الٰہی ‘‘ تک کا جواز نثر نگار نے ڈھونڈ نکالا۔ محمد حسین آزاد کا تو کیا ذکر کہ دربارکے سائے میں آنکھ کھولی،سر سید احمد خاں نے آئینِ اکبری کے ترجمے کی زحمت اٹھائی ۔دیباچے کی درخواست کے ساتھ غالبؔ کے ہاں پہنچے ۔ وہ دنگ رہ گئے اور انہیں ٹوکا ۔ بعض کا خیال یہ ہے کہ اس واقعے نے سر سید کے اندازِ فکر پہ گہرے اثرات مرتب کیے ۔شاعر نے انہیں مغرب سے اٹھتے انقلاب کی طرف متوجہ کیا۔ اپنے جلو میں جو نئی ایجادات اور حکمرانی کے نئے تصورات لے کر آیا تھا۔ غالبؔ کے اظہارِ خیال کا خلاصہ شاید یہ ہوگا: آدمی اپنے زمانے میں جیتا ہے ، ماضی میں نہیں ۔ ماضی میں زندہ رہنے والوں کی زندگی ادھوری ہوا کرتی ہے ۔ 
طبّاع اور مقلد ، رسم و رواج کے مارے اور ان سے آزاد ۔ معمولی اور غیر معمولی آدمیوں کا فرق فقط یہ نہیں کہ کامران لوگ زیادہ ریاضت کیش ہوتے ہیں بلکہ لگے بندھے رواجوں سے اوپر اٹھ کر سوچنے والے بھی ۔ درسگاہوں کے ممتاز ترین طالبِ علم زندگی کی بساط پر اتنے ہی نمایاں کیوں نہیں ہوتے ؟ تقلیدی اندازِ فکر زیادہ سے زیادہ ساحر لدھیانوی اور احمد فراز کو جنم دیتاہے ۔ تخلیقی طرزِ احساس فیض احمد فیض ؔ اور غالبؔ ۔ اس سے اوپر بھی ایک دنیا ہے ۔ لافانی اقبالؔ جو پوری انسانی تاریخ کے تناظر میں بات کرتاہے ۔ زندگی اور زمانے کو زمین نہیں ، آسمان سے دیکھتا ہے ۔ 
موضوع دوسرا تھا ۔ ان مرعوب دانشوروں کا اندازِ فکر جو بھارتی غلبے اور امریکی ناراضی کے تصور سے سہمے جاتے ہیں ۔ خیال کاطائر دوسری سرزمین میں جا اترا ۔ خیر اس پر پھر کبھی ۔ یار زندہ صحبت باقی ۔ 
آدمی اتناہی پست یا بلند ہوتاہے ، جتنا کہ اس کی فکر اور اس کا علم و ادراک ۔ اتنا ہی کامیاب یا ناکام ، جتنی اس کے خیال کی قوّتِ پرواز۔جس قدر امید، جتنی کہ مایوسی۔ ع
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved