تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     20-06-2016

نمونے کی خط وکتابت

محترمی/محترمہ‘ سلام مسنون اور مزاج شریف!
یہ عریضہ آپ کا بھرپور دلی شکریہ ادا کرنے کے لیے ہے جو آپ نے اپنے محبوب وزیر اعظم کی خیریت دریافت کرنے کے لیے اپنی دعائوں کے ساتھ یاد فرمایا ہے اور یقین کیجیے کہ یہ آپ کی دعائوں ہی کا نتیجہ تھا کہ وزیر اعظم خلافِ توقع یعنی وقت سے پہلے ہی چلنے پھرنے کے قابل ہو گئے ہیں ورنہ اگر کوئی عام آدمی ہوتا تو ابھی آئی سی یو ہی میں پڑا ہوتا۔ آپ نے دیکھا کہ اپنے کمرے کی طرف جاتے ہوئے نہ صرف یہ کہ وہ خود سیڑھیاں چڑھ رہے تھے بلکہ حسین نواز ان کے آگے آگے جا رہے تھے حالانکہ صورتِ حال کی نزاکت کے پیش نظر انہیں وزیر اعظم کے ساتھ ساتھ یا پیچھے پیچھے ہونا چاہیے تھا تاکہ اگر وزیر اعظم نقاہت کی وجہ سے گرنے لگیں تو انہیں سنبھال سکیں۔ بلکہ ایسا لگتا تھا کہ وزیر اعظم حسین نواز کا خیال رکھنے کے لیے پیچھے پیچھے چل رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ خود اعتمادی ان کے اندر آپ کی مسلسل دعائوں ہی کی وجہ سے اور بکروں کا جو صدقہ دیا تھا‘ اس کی وجہ سے آئی ہے بلکہ بہتر ہوتا کہ سارے بکرے شاہی باورچی خانہ میں بھجوا دیئے جاتے تاکہ عام آدمیوں کی نسبت وزیر اعظم کے کام و دہن سے سرفراز ہوتے۔
آپ کے وزیر اعظم پر یقینِ کامل کا یہ بھی ثبوت ہے کہ وزیر اعظم کی طرف سے جس علالت کے بارے میں بتایا گیا‘ آپ نے اس پر فوراً یقین کر لیا حالانکہ صاحبِ موصوف اوپن ہارٹ سرجری سے کہیں زیادہ تشویشناک تکلیف میں مبتلا تھے اور وہ تھی ڈپریشن‘ جس کے اسباب آپ کو اچھی طرح سے معلوم ہیں جو کہ ملکی صورتِ حال کن خطرناک لمحوں سے گزر رہی ہے‘ ٹی او آرز پر اتفاق رائے نہیں ہو پا رہا‘دھرنوں اور خلقت کے سڑکوں پر نکلنے میں اب تھوڑے ہی دن باقی ہیں جس کے لیے پیپلز پارٹی والوں نے بھی بھر پور ساتھ دینے کا اعلان کر دیا حالانکہ زرداری صاحب نے مولانا فضل الرحمن کو یقین دلایا تھا کہ وہ دھرنوں اور تحریک وغیرہ میں شامل نہیں ہوں گے اور اب معلوم ہوا کہ زرداری صاحب نے ایسی کوئی بات کہی ہی نہیں تھی اور مولانا صاحب نے اپنے نمبر ٹانگنے کے لیے یونہی بڑہانک دی تھی تاکہ حق الخدمت اچھی طرح سے ہضم کر سکیں۔ کیسا زمانہ آیا گیا ہے چونکہ وطن واپسی خاصی مشکوک ہو چکی ہے ورنہ وہ آ کر خود ان سے حساب کتاب کر لیتے۔
اس کے علاوہ جو اُتار چڑھائو ہر روز ہو رہے ہیں ایک شریف آدمی کو ہائی ڈپریشن میں مبتلا کرنے کے لیے وہی کافی ہیں‘ مثلاً خلاف معمول نیب اپنی چھریاں کلہاڑیاں تیز کر رہی ہے اور جناب شاہد خاقان عباسی‘ سیف الرحمن کے علاوہ ایک اور عزیز وزیر کے گرد بھی گھیرا اتنا تنگ ہو رہا ہے کہ کسی وقت بھی ان پر ہاتھ ڈال سکتی ہے۔ اور ایسا لگتا ہے کہ پاناما لیکس کی بجائے اب نیب ہی سب کچھ سرانجام دینے والی ہے۔
چنانچہ ان حالات میں ملک میں رہنا چونکہ خطرے سے ہرگز خالی نہیں تھا‘ اس لیے وزیر اعظم نے ان بلائوں سے دور ہی رہنے میں عافیت سمجھی بلکہ اب تو ہائی کورٹ میں درخواست بھی دائر کر دی گئی ہے کہ عدالتی احکامات کے باوجود نیب وزیر اعظم کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کر رہی۔ اوپر سے وزیر اعظم کے میڈیا سیل کے خلاف بھی عدالتی چارہ جوئی شروع کر دی گئی ہے کہ یہ کس قانون کے تحت قائم ہوا ہے اور اس کے لیے فنڈز کس خوشی میں بجٹ کے اندر رکھے گئے ہیں۔ اوپر سے کیپٹن صفدر کے خلاف اثاثے چھپانے پر بھی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔ حتیٰ کہ عبوری سیٹ اپ کی باتیں بھی ہونے لگی ہیں۔
آپ اچھی طرح سے سمجھ سکتے ہیں کہ ان کارروائیوں کا منطقی نتیجہ کیا نکلے گا اور وزیر اعظم اگر ملک کے اندر رہتے تو ان کے ساتھ حسبِ سابق کیا سلوک ہو سکتا تھا۔ وزیر اعظم جیل سے نہیں ڈرتے لیکن ان کے کمرے میں جو سانپ وغیرہ چھوڑ دیے جاتے ہیں آخر ان کا کیا علاج ہے جبکہ پچھلی بار بھی صاحبِ موصوف نے جنرل صاحب سے درخواست کی تھی کہ اگر وہاں سانپ چھوڑنے ضروری ہیں تو کم از کم ایک بِین کا ہی انتظام کر دیا جائے تاکہ سانپوں سے کوئی یگانگت پیدا کی جا سکے لیکن انکار کر دیا گیا۔
ان حالات میں اگر وزیر اعظم وطن واپس آ جاتے ہیں تو اس کا صاف مطلب یہ ہو گا کہ آ بیل مجھے مار‘ جبکہ بیل انہیں سینگوں پر اٹھا کر پٹخنے کے لیے تیار بیٹھا ہے‘ اس لیے زیادہ امکان یہی ہے کہ صاحبِ موصوف سعودیہ تشریف لے جائیں جہاں شاہی مہمان 
خانے کی صفائی ستھرائی احتیاطاً شروع کر دی گئی ہے۔ یہاں ان کی جگہ شہباز شریف سے کام نکالا جا سکتا ہے جبکہ وہ بھی کافی عرصے سے آس لگائے بیٹھے ہیں اور چوہدری نثار کے ہمراہ آرمی چیف کے ساتھ ملاقاتیں بھی کرتے رہتے ہیں، موصوف سے یہی امید تھی‘ لالچ بُری بلا ہے! چنانچہ احتیاطاً حسین نواز اور حسن نواز کو وہاں نہیں رہنے دیا گیا تاکہ وہ نہ دھر لیے جائیں‘ خواتین رہ جائیں گی، امید ہے انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔
سو‘ یہ تھے وہ حالات جنہیں بھانپتے ہوئے وزیر اعظم بیمار ہوئے اور اب الحمد للہ روبصحت ہیں۔ آپ کو یہ سارا کچھ تفصیل کے ساتھ اس لیے بتا دیا ہے کہ آپ جیسے خیر خواہوں سے آخر کیا پردہ ہے جن کی دعائیں کارگر ثابت ہوئیں اور اگر کسی مرحلے پر دوبارہ ان کی ضرورت پڑی تو آپ ایک بار پھر دل کی گہرائیوں سے دعا گوئی میں مصروف ہو جائیں گے‘ البتہ بکروں والی بات ضرور یاد رکھیں۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے!
منجانب: وزیر اعظم سیکرٹریٹ
آج کا مقطع
سوچا نہیں کرتے‘ ظفرؔ ڈوبنے والے
پانی اگر اتنا ہے تو گہرائی بھی ہو گی

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved