بھارتی دارالحکومت دہلی سے میں نے تقریباً ایک دہائی تک لاہور سے شائع ہونے والے ایک انگریزی روزنامے اور ایک انگریزی ہفتہ وار کیلئے رپورٹنگ کی ۔2007ء میں سمجھوتہ ٹرین دھماکوں کے بعدجب ہندو دہشت گردی کی بازگشت سنائی دینے لگی، تو میرے ایڈیٹر نے مجھے ہدایت دی کہ کسی ہندو انتہا پسند لیڈر کا انٹرویو کروں۔قرعہ بالآخر ویشیو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے شعلہ بیان لیڈر ڈاکٹر پراوین بائی توگڑیا کے نام نکلا۔یہ وہی لیڈر ہیں، جنہوں نے حال ہی میں ہندوئوں کو کہا کہ وہ اپنی مردانگی کی پوجا کرکے زیادہ سے زیادہ اولادیں پیدا کریں، تاکہ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کا توڑ ہو سکے۔ وی ایچ پی ہندو انتہا پسندوں کی مربی تنظیم راشتریہ سوئم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی ہی ایک شاخ ہے، جس کا کام ہندومت کا پرچار اور ہندو شعارات کا تحفظ کرنا ہے۔ بابری مسجد کی مسماری میں اسی تنظیم کا ہاتھ تھا۔ آر ایس ایس کی تقریباً 100سے زائد شاخیں ہیں، جوالگ الگ میدانوں میں سرگرم ہیں۔ جیسا کہ سیاسی میدان میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی، جوفی الوقت حکمران پارٹی ہے)، حفاظت یا سکیورٹی کیلئے (دیگر الفاظ میں غنڈہ گردی کیلئے) بجرنگ دل، مزدورں یا ورکروں کیلئے بھارتیہ مزدور سنگھ، دانشوروں کیلئے وچار منچ، غرض کہ سوسائٹی کے ہر طبقہ کی راہنمائی کیلئے کوئی نہ کوئی تنظیم ہے ۔ حتی ٰکہ پچھلے کچھ عرصہ سے آر ایس ایس نے مسلم راشٹریہ منچ اور جماعت علماٗنامی دو تنظیمیں قائم کرکے انہیں مسلمانوں میں کام کرنے کیلئے مختص کیا ہے۔پچھلے سال کشمیر میں انتخابات کے دوران یہ تنظیمیں خاصی سرگرم تھیں۔ان سبھی تنظیموں کیلئے آر ایس ایس کیڈر بنانے کا کام کرتی ہے، اور ان کے لئے سکولوں اور کالجوں سے ہی طالب علموں کی مقامی شاکھاوٗں کے ذریعے ذہن سازی کی جاتی ہے۔ آج کے دن اس کی کل شاکھاؤں کی تعداد کم وبیش 56859 ہیں جو ملک اور بیرون ملک کے مختلف مقامات پر ہندوؤں کو انتہاپسندانہ نظریاتی بنیاد پر جوڑنے کا کام کررہی ہیں۔ بھارت سے باہر ان کی کل39 ممالک میں شاکھائیں ہیں۔ یہ شاکھائیں ہندو سوئم سیوک سنگھ کے نام سے کام رہی ہیں ۔بھارت سے باہر آر ایس ایس کی سب سے زیادہ شاکھائیں نیپال میں ہیں۔ اس کے بعد امریکہ میں اس کی شاکھاؤں کی تعداد146 ہے۔ یوکے میں 84 شاکھائیں ہیں۔ آر ایس ایس کینیا کے اندر بھی کافی مضبوط حالت میں ہے۔ کینیا کی شاکھاؤں کا دائرہ کار پڑوسی ممالک تنزانیہ‘ یوگنڈا‘ موریشش اور جنوبی افریقہ تک پھیلا ہوا ہے اور وہ ان ممالک کے ہندوؤں پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ کہ ان کی پانچ شاکھائیں مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک میں بھی ہیں۔ چوں کہ عرب ممالک میں جماعتی اور گروہی سرگرمیوں کی کھلی اجازت نہیں ہے اس لئے وہاں کی شاکھائیں خفیہ طریقے سے گھروں تک محدود ہیں۔ بتایا جاتا ہے، کہ بابری مسجد کی مسماری اور رام مندر کی تعمیر کیلئے سب سے زیادہ چندہ ان ہی ممالک سے آیا تھا۔ فن لینڈ میں ایک الیکٹرونک شاکھا ہے جہاں ویڈیو کیمرے کے ذریعے بیس ممالک کے افراد جمع ہوتے ہیں۔ یہ ممالک وہ ہیں جہاں پر آر ایس ایس کی باضابطہ شاکھا موجود نہیں ہے۔ بیرون ملک آر ایس ایس کی سرگرمیوں کے انچارج رام مادھو ہیں، جو اس وقت بی جے پی کے قومی جنرل سیکریٹری ہیں۔کشمیر امور کو بھی دیکھتے ہیں، او ر وزیر اعظم مودی کے بیرونی دوروں کے دوران بیرون ملک مقیم بھارتیوں کی تقاریب منعقد کراتے ہیں۔
الغرض میں نے اعجاز صاحب کی ہدایت پر توگڑیا کے موبائل پر رابط کرنے کی کوشش کی۔ کئی بار ناکامی کے بعد میں نے انہیں مسیج بھیجا۔ فوراً ہی ان کا خود فون آیا۔ معذرت کی،کہ کسی تقریب کی وجہ سے فون رسیو نہیں کرسکے ۔ میں نے جب مدعا بیان کیا۔ تو انہوں نے کہا، کہ ہماری پالیسی ہے، کہ ہم کسی غیر ملکی میڈیا ادارے کو انٹرویو نہیں دیتے ہیں۔ اگرکوئی ادارہ خواہاں ہو، تو پبلک ریلیشنز ڈیپا رٹمنٹ میں باضابط درخواست دینی پڑتی ہے اور انٹرویو کے اغراض و مقاصد کی تفتیش کرنے کے بعد ہی اس پر غور ہوتا ہے، کیونکہ غیر ملکی ادارے ہندو لیڈروں کی منفی تصویر دکھانے کیلئے ہی اکثر انٹریوز لیتے ہیں۔ اور اُسے توڑ مروڑ کر استعمال کرتے ہیں۔ خیر میں اب ان کا شکریہ ادا کرکے فون رکھنے ہی والا تھا کہ انہوں نے خود ہی کہا، کہ ـــــــــ‘‘آپ انٹرویو کشمیر ٹائمز کیلئے کیوں نہیں لیتے ہو۔ــ‘‘ میں دہلی میں کشمیر ٹائمز کے بیورو سے بھی وابستہ تھا۔آخر چند روز کے بعد میں وقت مقررہ پر وی ایچ پی کے دہلی کے آر کے پورم علاقہ میں واقع ہیڈ کوارٹرجا پہنچا۔اور جلد ہی مجھے
توگڑیا جی کے کمرہ میں لے جایا گیا۔ وہ اس وقت تنظیم کے انٹرنیشنل جنرل سیکرٹری تھے۔ میں نے چھوٹتے ہی پہلا سوال کیا، کہ ‘‘آپ توایک ڈاکٹرہیں اور وہ بھی کینسر سپیشلسٹ۔ آپ انسانوں کے جسم سے کینسر دور تو کرتے ہیں، مگر سوسائٹی میں کیوں کینسر پھیلاتے ہیں۔‘‘ تو ان کا جواب تھا۔ ‘‘کہ ہم بھارتی سوسائٹی میں مدرسہ اور مارکسزم کو کینسر مانتے ہیں اور ان دونوں کو جڑ سے اکھاڑنے کیلئے وچن بند ھ (پُرعزم) ہیں۔ چاہے اس کے لئے سرجری کی ضرورت ہی کیوں نہ پڑے۔ــ‘‘ کئی اور سوالوں نے بعد میں نے موضوع مسلمانوں اور ان کے خلاف نفرت کی طرف موڑا۔ میں نے ان سے پوچھا، کہ بھارت میں تو اب تقریباً 15کروڑ مسلمان بستے ہیں اور ان سبھی کو تو آپ ختم نہیں کرسکتے۔ کیا کوئی شکل نہیں ، کہ ہندو اور مسلمان شانہ بہ شانہ پرامن زندگی گزارسکیں۔ ڈاکٹر توگڑیا نے مخصوص انداز میں میز پر مکہ مارتے ہوئے کہا،‘‘ ہاں ہاں کیوں نہیں،ہم مانتے ہیں کہ مسلمانوں نے بھارت کے کلچر اور تہذیب کو پروان چڑھانے میں اعانت کی ہے۔ مگر ہمیں شکایت مسلمانوں کے رویہ سے ہے۔ وہ اپنے مذہب کے معاملے میں احساس برتری کا شکار ہیں۔ وہ ہندوئو ں کو نیچ اور غلیظ سمجھتے ہیں اور ہمارے دیوی دیوتاوں کی عزت نہیں کرتے۔ ہمیں مسلمانوں سے کوئی شکایت نہیں ہے ، اگر وہ ہندو جذبات کا خیال رکھیں۔‘‘ میں نے ان سے پوچھا کہ ہندو جذبات سے ان کی کیا مراد ہے؟ توان کا کہنا تھا۔ ‘‘کہ ہندو کم و بیش 32کروڑدیو ی دیوتائوں پر یقین رکھتے ہیں، ہمارے لئے یہ کوئی ناک کا مسئلہ نہیں کہ ہم پیغمبر اسلام کی بھی اسی طرح عزت افزائی کریں ۔ مگر مسلمان اس کی اجازت نہیں دیتے ہیں، اور نہ ہی اپنے یہاں کسی ہندو دیوی دیوتا کی تصویر یا مورتی رکھتے ہیں‘‘ اپنے دفتر کی دیوار پربابا گورو نانک اور گورو گوبند سنگھ کی لٹکتی تصویر اور کونے میں مہاتما بدھ اور مہاویر کی مورتیوںکی طرف اشارہ کرتے ہوئے، توگڑیا نے کہا، کہ دیگر مذاہب یعنی سکھوں، بدھوں اور جینیوں نے ہندو ئوں کے ساتھ رہنے کا سلیقہ سیکھا ہے، جو مسلمانوں کو بھی سیکھنا پڑے گا۔اور تو اور مسلمان محمود غزنوی، اورنگ زیب، محمد علی جناح، اور دہلی کے امام احمد بخاری کو اپنا راہنما مانتے ہیں، یہ سبھی ہندو رسوم و رواج کے قاتل تھے۔ شاید ہی کوئی مسلمان عبدالرحیم خان خاناں، امیر خسرو یا اسی قبیل کے دانشورں کو قابل تقلید سمجھتا ہے۔ یہ سبھی شخصیتیں ہمارے لئے قابل احترام ہیں، مگر بخاری اور امام علی نہیں ہوسکتے۔ـ‘‘
چونکہ بی جے پی کے حکومت میں آنے کی وجہ سے آج کل آر ایس ایس اور اسکی ذیلی تنظیمیں خاصی سرگرم ہوگئی ہیں۔5 192ء میں آر ایس ایس قائم ہوئی۔ تب سے لے کر اس کے حوصلے کبھی بھی اتنے بلند نہیں رہے جتنے کہ آج ہیں۔ اس لئے اس پورے واقعہ کو رقم کرنے کا مقصد مسلمانوں کے تئیں ہندو انتہا پسند لیڈروںکی سوچ کو اجاگر کرنا تھا۔ اسی طرح غالباً گجرات فسادات کے بعد 2002 ء میں ایک مسلم وفد آر ایس ایس کے اُس وقت کے سربراہ کے سدرشن جی سے ملنے ان کے صدر فتر ناگ پور چلا گیا۔ جس میں اعلیٰ پایہ کے مسلم دانشور شامل تھے۔ ملاقات کا مقصد ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی کو کم کرنے کے لیے آرایس ایس جیسی شدت پسند تنظیم کی لیڈر شپ کو قائل کرنا تھا اور اُن کے سامنے اسلام اور مسلمانوں کے نظریہ کو رکھنا تھا۔معروف کالم نگار ایس اے پیرزادہ کا،جو اس وفد میں شامل تھے، کہنا ہے، کہ جب ہم نے سدرشن جی سے پوچھا کہ کیا مسلمانوں اور ہندوؤں میں مفاہمت نہیں ہوسکتی ہے؟ کیا رسہ کشی کے ماحول کو ختم کرکے دوستانہ ماحول میں نہیں رہا جاسکتا ہے؟اس کے جواب میں کے سدرشن نے مسلم وفد کو بتایا کہ ضرور آر ایس ایس جیسی شدت پسند تنظیم مسلمانوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرسکتی ہے، لیکن اس کے لیے شرط ہے۔ ''آپ لوگ(مسلمان)کہتے ہو کہ اسلام ہی برحق اور سچا دین ہے، آپ ایسا کہنا چھوڑ دیجئے اور کہیے کہ اسلام بھی برحق اور سچا دین ہے تو ہماری آپ کے ساتھ مفاہمت ہوسکتی ہے۔‘‘ بقول پیر زادہ، ہم مطالبہ سن کرسکتے میں آگئے۔ مختلف جماعتوں کے اس وفد میں سے کسی ایک بھی فرد نے سدرشن کی اس بات پر اُنہیں یقین دلانے کی جرأت نہیں کی کہ وہ اس سمت کوششیں کریں گے کیونکہ وفد میں شامل سب لوگ جانتے تھے کہ جس بات کا مطالبہ کیا جارہا ہے وہ ہمارے بنیادی عقیدے کے خلاف ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کے سدرشن جن کا انتقال2012 ء میں ہوا، آر ایس ایس میں اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے کے بعد اسلام کی جانب مائل ہوچکے تھے۔ آخری وقت انہوں نے اپنی سیکورٹی اور سٹاف ممبران سے ضد کی تھی کہ وہ اُنہیں نماز عید کے موقع پر بھوپال کی تاج مسجد لے چلیں، جہاں وہ نماز عید اداکرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو عید کی مبارک بادی بھی دے دیں گے۔ البتہ اُن کی سیکورٹی اور سٹاف نے ٹریفک جام کا بہانہ بناکر ایسا نہیں کیا۔ بعد میںمدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ رہ چکے بابو لعل گور اُنہیں ایک مسلمان کے گھر لے گئے جہاں انہوں نے مسلم خاندان کے ساتھ مل کرعید منائی۔ ایک اور موقع پر کے سدرشن ایک دن اپنے گھر سے لاپتہ ہوگئے۔ اُن کے لواحقین، سیکورٹی اور دیگر آر ایس ایس ورکر اُن کی تلاش میں اِدھر اُدھر نکل پڑے۔ تبھی ایک مسلمان نے اطلاع دی کہ وہ نزدیکی مسلم بستی کی ایک مسجد میں گم سم بیٹھا ہوا ہے۔ آر ایس ایس کے اس سابق چیف کی موت بھی بعد میں پُراسرار حالت میں ہوئی تھی۔ ان کی تنظیم کے عہدہ دارں کے مطابق وہ آخر وقت ذہنی توازن کھو بیٹھے تھے۔مگر کیا وہ حقیقت کی تہہ تک پہنچ چکے تھا، یا واقعی ذہنی بیماری کا شکار ہوگئے تھا، یہ عقدہ شاید کبھی کھل نہیں سکے گا۔ 'اسلام ہی حق ہے‘کے بجائے اسلام بھی حق ہے، کا مطالبہ کرنا بظاہر ایک معمولی بات ہے او یہ مطالبہ اب فرقہ پرست ہی نہیں ، بلکہ لبرل مسلمانوں کی طرف سے بھی کیا جارہا ہے۔ آرایس ایس علمائو دانشوروں پر مبنی اُس وفد کواُس وقت قائل نہیں کرسکی کیونکہ وفد کے تمام لوگ دینی علوم سے مکمل طور پر واقفیت رکھتے تھے اور اُس مطالبے کو ماننے سے ایمان کا کیا حشر ہوجائے گا، اس بات کی بھی وہ بخوبی واقفیت رکھتے تھے۔ گو کہ انہوں نے خاموشی اختیار کی، مگر ایسی حکمت عملی اپنائی کہ کے سدرشن جیسا شدت پسند، ہندوتوا کے علمبردار کے دل میں بھی اسلام کے تئیں دلچسپی پیدا ہوئی اور شاید اسلام قبول کرنے کے قریب بھی جا پہنچا!