تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     21-06-2016

ڈبل روٹی، کیک، دال، مرغ اور انقلاب

آپ یقین کریں بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ سارے کا سارا کالم بڑا واضح ہوتا ہے کہ کیا کہنا ہے مگر سوئی شروع میں ہی پھنس جاتی ہے اوربالکل سمجھ نہیں آتا کہ کالم کہاں سے شروع کرنا ہے آج بھی ایسا ہی معاملہ ہے اسحاق ڈار صاحب نے گزشتہ سے پیوستہ روز دو باتیں کیں پہلی یہ کہ اگر دالیں مہنگی ہو گئی ہیں تو عوام چکن کیوں نہیں کھاتے؟ دوسری یہ کہ میری ایک پیسے کی جائیداد یا سرمایہ کاری پاکستان سے باہر سے نہیں ہے۔ اب یہ عاجز پریشان ہے کہ کالم ان کی کس بات سے شروع کروں؟
میرا بڑا پرانا تھیسس ہے کہ برصغیر پاک و ہند کے عوام میں انقلاب کا ''جین‘‘ (GENE) سرے سے ہی موجود نہیں ہے۔ جین ایسی خصوصیت ہے جو وراثت میں ملتی ہے‘ یعنی توارث کی اکائی۔ جین دراصل انسانی کروموسوم میں ایک ایسا فیکٹر ہے جو توارثی خصوصیات کے انتقال کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اس حساب سے برصغیر کے لوگوں میں ایسی کوئی خصوصیت نہیں پائی جاتی۔اگر ایسا ہوتا تو یہاں انقلاب کبھی ایک بار تو آیا ہوتا؟۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ برصغیر کی معاشرتی اور تمدنی تاریخ کم از کم چھ سات ہزار سال پرانی تو ہو گی۔ اس ساری تمدنی اور معاشرتی تاریخ میں کہیں کسی انقلاب کا ذکر نظر نہیں آتا۔
برصغیر میں ریاست کا تصور بھی صدیوں پرانا ہے اور اس دوران بھی بغاوتوں سے ہٹ کر کسی حقیقی انقلاب کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ لوگ اس حد تک روائیتی ذہنی غلامی کا شکار تھے کہ بادشاہ کے مرنے پر اس کے بیٹے، بھائی، بھانجے یا داماد وغیرہ کو بادشاہ بنا دیتے تھے۔ اگر قریبی عزیز موقعہ پر موجود نہ ہو تو اس کا انتظار کرتے تھے۔ اگر قریبی عزیز موجود نہ ہو تو دور دراز کے کسی رشتہ دار کو بادشاہ بنا لیتے تھے حتیٰ کہ اگر یہ صورت بھی میسر نہ ہو تو بادشاہ کے قریبی اور چہیتے غلام تک کو بادشاہ بنا لیتے تھے۔ خاندان غلاماں اس کی روشن مثال ہے۔ برصغیر سے کبھی بڑے سے بڑے بادشاہ کی بھی دوسرے ممالک پر لشکر کشی تک کا ذکر نہیں ملتا۔ دنیا بھر سے اقوام برصغیر پر حملہ آور رہیں۔ ایران، افغانستان، ترکستان اور عرب حتیٰ کہ یورپ تک سے حملہ آور لشکر اپنی تلواروں کی دھاریں یہاں تیز کرتے رہے ‘مگر حرام ہے جو یہاں سے کوئی حکمران اپنے لشکر کے ساتھ کہیں حملہ آور ہوا ہو اور اردگرد اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑے ہوں۔ دنیا بھر میں جس کا جی چاہا منہ اٹھا کر یہاں حملہ آور ہوا اور نہ صرف قتل و غارت کی بلکہ باقاعدہ حکومت کی اور یہاں کے لوگوں نے بڑی فرمانبرداری اورشرافت سے ان کی اطاعت بھی کی۔ یہاں کے لوگوں میں جارحیت اور اپنی سرزمین سے باہر نکل کر فتوحات کرنے کے تصور کا بڑا فقدان تھا۔
ایک دن اسی موضوع پر بحث ہو رہی تھی اور میں نے اپنے اسی تھیسس کا اعادہ کیا تو ایک دوست کہنے لگا جب راون سیتا کو اٹھا کر لے گیا تھا تو رام چندر جی نے لنکا پر حملہ کیا تھا اور راون کو شکست فاش دے کر سیتا کو واپس حاصل کیا تھا۔ میں نے کہا کہ عزیزم پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ تاریخ نہیں بلکہ ہندومت کی مذہبی کتاب میں موجود واقعہ ہے جو اساطیر کے درجے میں شمار ہوتا ہے یعنی یہ Mythology ہے تاریخ نہیں ہے۔ تا ہم یہ اساطیری قصہ بھی میرے تھیسس کی تائید کرتا ہے کہ پہلی بات تو یہ کہ لنکا بھی قدیم بھارت کا ہی حصہ تھا اور باقاعدہ ''پل آدم‘‘ کے ذریعے چھوٹی چھوٹی سمندری چٹانوں کے ذریعے بھارت سے جڑا ہوا ہے۔ اس لیے تم اس مہم کو بھارت سے باہر والی جارحیت یا لشکر کشی نہ سمجھو۔ دوسری بات یہ کہ میں نے کہا ہے کہ برصغیر کے لوگوں میں اس ''جین‘‘ کا فقدان ہے تو میں نے بات انسانوں کی ‘ کی ہے جبکہ رام چندر کے ساتھ سیتا کی بازیابی کے لیے جو فوج گئی تھی وہ انسانوں پر نہیں بندروں پر مشتمل تھی۔ ہندو مذہب میں اسی دن سے بندر کو ہنومان کا درجہ دے کر مقدس ٹھہرایا جاتا ہے۔ رام چندر جی کی یہ مہم بھی میرے تھیسس کی تائید کرتی ہے کہ یہاں کے لوگوں میں ایسا کوئی جین موجود نہیں تبھی وہ اپنے ساتھ بندروں کی فوج لے کر گیا تھا۔
ہم لوگ انقلاب کی صلاحیت سے محروم لوگ ہیں۔ اگر غربت، نا انصافی، عدم مساوات، عدم انصاف اور حکمرانوں کے جانب سے استحصال پر انقلاب لانے کی صلاحیت کے حامل ہوتے، ہم میں انقلاب کا ''جین‘‘ موجود ہوتا تو اب تک اس سرزمین پر سینکڑوں نہیں تو درجنوں انقلابات آ جانے چاہئیں تھے مگر کسی انقلاب کا دور دور تک کوئی نام و نشان نظر نہیں آتا۔ اگر حکمرانوں کی حرکتوں پر انقلاب آتا تو یہ سرزمین کئی بار انقلاب کی شکل دیکھ چکی ہوتی۔ اگر عوام اپنی تحقیر پر اٹھ کھڑے ہونے کی خو رکھتے تو اب تک یہ درجنوں متکبر حکمرانوں کو خاک میں ملا چکے ہوتے۔ اگر عوام میں عزت و آبرو اور انا نام کی کوئی چیز موجود ہوتی تو اب یہ سرزمین اپنی مسلسل تذلیل کرنے والے حکمرانوں کے خون سے رنگین ہو چکی ہوتی مگر یہ ہماری بدقسمتی اور ہمارے حکمرانوں کی خوش قسمتی ہے کہ ہم لوگ ایسی کسی خصوصیت سے یکسر عاری اور محروم لوگ ہیں۔
فرانس میں روٹی کی قیمت عوام کی قوت خرید سے بڑھ گئی تو لوگ لوئی شانزدہم کے محل کے باہر اکٹھے ہوئے اور روٹی کے لیے نعرے بازی کرنے لگے۔ غربت کے مفہوم سے نا آشنا اور روٹی کی قیمت سے لا علم ملکہ میری محل کی بالکونی سے بھوکے عوام کا جلوس دیکھ رہی تھی۔ اس نے ساتھ کھڑے اپنے ملازموں میں سے کسی سے پوچھا کہ یہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں؟۔ جواب ملا یہ روٹی مانگ رہے ہیں۔ پوچھا کہ روٹی کا کیا مسئلہ ہے؟ بتایا کہ روٹی میسر نہیں اور لوگ اسے خریدنے سے قاصر ہیں۔ قیمت خرید لوگوں کی استطاعت سے باہر ہو چکی ہے ملکہ نے اس مسئلے کا آسان حل پیش کرتے ہوئے کہا کہ اگر انہیں ڈبل روٹی میسر نہیں تو یہ لوگ کیک کیوں نہیں کھاتے؟۔
انقلاب فرانس کی درجنوں، بیسیوں وجوہات ہوں گی مگر تاریخ بتاتی ہے کہ یہ وہ جملہ تھا جس نے انقلاب مہمیز بخشی۔ جو کام مہینوں میں ہونا تھا و ہ دنوں میں ہوا۔ لوگوں تک جب حکمرانوں کی بے حسی اور ان کی حالت زار سے لا علمی کی خبر پہنچی تو ان میں اشتعال پھیل گیا۔ یہ اشتعال ایک ایسے غیظ و غضب کا باعث بنا کہ ہزاروں فرانسیسیوں نے بادشاہ کے محل پر دھاوا بول دیا۔ جس محل کی بالکونی سے ملکہ میری نے یہ تاریخی جملہ ادا کیا وہ محل آج بھی شانزے لیزے کے اختتام پر، جورڈن ڈی تولیرو کے ساتھ سڑک کے پار موجود ہے اور آج کل سٹیٹ گیسٹ ہاؤس ہے۔
غصے سے بپھرے عوام پیرس سے شاہی محل کی طرف دوڑ پڑے۔ لوئی شانزدہم کا محل ورسائی میں تھا جو پیرس سے بیس کلومیٹر کے لگ بھگ فاصلے پر ہے۔ مشتعل ہجوم چند گھنٹے میں ورسائی پہنچ گیا۔ بادشاہ اور ملکہ کو گھسیٹ کر محل سے باہر نکالا اور پیرس لے آئے۔ شاہی جوڑے کو ایک عقوبت خانے میں بند کر دیا گیا اور ان پر انقلابی عدالت میں کیس چلایا گیا۔ اسی دوران بادشاہ اور ملکہ کسی طرح قید خانے سے فرار ہو گئے مگر بدقسمتی سے فرانس کی سرحد کے قریب دوبارہ پکڑے گئے۔ انہیں واپس پیرس لایاگیا اور سمری کورٹ سے سزا دلوائی گئی۔ بادشاہ لوئی شانزدہم اور ملکہ میری کو سزائے موت سنائی گئی۔ سزائے موت کے اگلے روز ایک تحریک پیش ہوئی کہ بادشاہ اور ملکہ کو معاف کر دیا جائے۔ اس پر ووٹنگ ہوئی۔ رحم کے حق میں تین سو دس ووٹ آئے اور فوری سزائے موت کے حق میں تین سو اڑتیس ووٹ۔ اکیس جنوری 1793ء کو پیلس ڈی ریوولیوشن کے مقام پر لوئی شانزدہم اور ملکہ میری انٹوائنٹ کو گلوٹین کر دیا گیا۔ فرانس کے مطلق العنان بادشاہ لوئی اور آسٹریا کے شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والی ملکہ میری کی لاش کئی دن تک اسی محل کے عین سامنے جہاں اس نے ڈبل روٹی نہ ملنے پر عوام کو کیک کھانے کا مشورہ دیا تھا واقع ''جورڈن ڈی تولیرو‘‘ میں پڑی رہی ۔تین دن بعد ان کی تدفین کی گئی۔ انقلاب فرانس کو دنیا بھر میں ''انقلابات کی ماں‘‘ کہا جاتا ہے تا ہم اس اماں نے ہمارے ہاں کبھی پھیرا نہیں لگایا۔ 
ہمارے ہاں عجیب معاملہ ہے حکمران برسر عام ملکہ میری کے جملے کو مقامی حالات میں تبدیل کر کے عوام کو مشورہ دیتے ہیں کہ اگر وہ دال نہیں کھا سکتے تو مرغ کیوں نہیں کھاتے؟۔ اربوں روپے کی جائیداد کے مالک ہمارے وزیر خزانہ جو اپنا پاسپورٹ لاہور ائرپورٹ پر امیگریشن والوں کے پاس چھوڑ آئیں تو سرکاری خرچے پر گاڑی کرائے پر لے کر اسلام آباد منگواتے ہیں ان کو کیا پتہ کہ عوام کس طرح زندگی گزار رہے ہیں۔ ویسے بھی جب اکاؤنٹنٹ ٹائپ لوگ معیشت کو چلانے کے ذمہ دار بنا دیے جائیں تو اسی قسم کی صورتحال پیش آتی ہے لیکن حیرانی صرف اس بات پر ہے کہ ہم انقلاب فرانس کے سوا دو سو سال بعد بھی اس عوامی طاقت سے آگاہ نہیں جس سے اہل فرانس 1792ء میں آگاہی حاصل کر چکے تھے۔ اگر حکمرانوں کی حرکتوں سے انقلاب آتا تو ہمارے ہاں اب تک درجنوں انقلاب آچکے ہوتے مگر میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ ہم لوگ انقلاب کے ''جین‘‘ سے محروم قوم ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved