تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     21-06-2016

بابے‘ بیورو کریسی اور بیڈ گورننس

کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان میں دستوری عہدے کون کون سے ہیں اور کیا آپ کو علم ہے کہ عام دستوری عہدوں کی ریٹائرمنٹ عمر کتنی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان‘ چیئرمین نیب‘ آڈیٹر جنرل آف پاکستان‘ وفاقی محتسب (Ombudsman) دستوری عہدوں کی چند مثالیں ہیں۔ ان عہدوں کے حامل لوگوں کو دستوری ضمانت حاصل ہے کہ وہ اپنے عہدے کی مدت پوری کریں۔ ان میں سب کی ریٹائرمنٹ کی عمر پینسٹھ (65) سال ہے۔ ماسوائے وفاقی محتسب کے‘ موجودہ محتسب اعلیٰ ستتر (77) سال کے ہیں اور اکثر علاج کی غرض سے بیرون ملک جاتے رہتے ہیں۔ وفاقی محتسب کے ادارے میں مزید کئی بزرگ بھی اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں اس لئے اسے اولڈ ایج ہوم کہا جا سکتا ہے۔
سلمان فاروقی بہت دلچسپ شخصیت کے مالک ہیں۔ 1990ء کی دہائی میں اپنی کارکردگی کے لیے مشہور ہوئے جس وزارت میں جاتے تھے وہ فعال ہو جاتی تھی۔ لاہور‘ اسلام آباد موٹروے میں تو موصوف سیکرٹری مواصلات تھے اس منصوبے میں ان کا کلیدی رول تھا۔ آج بعض لوگ اسی منصوبے کے ڈانڈے میاں صاحب کی لندن کی جائیداد سے ملا رہے ہیں۔ خیر اس بات کا فیصلہ تو جوڈیشل کمیشن کرے گا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں پرائیویٹ سیکٹر کو پہلی مرتبہ انرجی فیلڈ میں لایا گیا تب سلمان فاروقی سیکرٹری پٹرولیم تھے ان کمپنیوں نے بجلی بنا کر حکومت کو بیچنا تھی۔ معاہدوں پر دستخط ہو گئے تو شور مچا کہ حکومت مہنگے داموں بجلی خرید رہی ہے۔ بنگلہ دیشی حکومت نے ایسے ہی معاہدے کم قیمت پر کئے تھے۔ میاں نوازشریف کے دوسرے دور میں سلمان فاروقی پر نیب کیس بنے۔ اسی وجہ سے وہ مشرف کے زمانے میں پاکستان سے باہر رہے۔ بدنام زمانہ این آر او ایشو ہوا۔ 2008ء میں پیپلز پارٹی کی حکومتی بنی تو فاروقی صاحب ملک واپس آئے اور صدر زرداری کے آفس کے سیکرٹری جنرل بنے۔ یوسف رضا گیلانی وزیراعظم تو تھے مگر اصل پاور صدر زرداری کے پاس تھی اور سلمان فاروقی ان کے دست راست تھے۔
دسمبر 2012ء میں راجہ پرویز اشرف نے انہیں دو ماہ کے لیے عارضی طور پر محتسب اعلیٰ بنا دیا عبوری حکومت آئی تو انہیں ریگولر کنٹریکٹ دیا گیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل پاکستان کے سید عادل گیلانی نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا کہ تعیناتی خلاف قانون ہوئی ہے۔ پوسٹ خالی ہونے کا اخبار میں کوئی اشتہار نہیں آیا اور عبوری حکومت کو ویسے بھی تعیناتی کا اختیار نہیں تھا۔ جسٹس افتخار چودھری نے کیس سننا شروع کیا۔ 2013ء میں سلمان فاروقی کئی ماہ علاج کی غرض سے امریکہ رہے۔ اکثر پیشی سے غیر حاضر ہوتے تھے۔ ایک دفعہ چیف جسٹس کے سامنے پیش ہوئے تو انہوں نے پوچھا کہ آپ عدالت آنے سے کیوں کتراتے ہیں‘ فاروقی صاحب گویا ہوئے کہ بلڈ کینسر کا مریض ہوں‘ مجھے علاج کے لیے اکثر بیرون ملک جانا پڑتا ہے۔ چیف جسٹس یہ سن کر خاموش ہو گئے۔ مسلم لیگ نون حکومت آ چکی تھی۔ اس حکومت کو بھی فاروقی صاحب کے محتسب اعلیٰ ہونے پر کوئی اعتراض نہ تھا۔ 
خیر محتسب اعلیٰ کے عہدے کی مدت تو چار سال مقرر ہے لیکن ان کے ایڈوائزر اور سینئر ایڈوائزر کی مدت ملازمت فکسڈ نہیں۔ ان لوگوں کی ایک فوج ظفر موج محتسب اعلیٰ کے دفتر میں موجود ہے۔ چوبیس افسر تو صرف اسلام آباد میں ہیں اور یہ تمام ریٹائرڈ شدہ ہیں ان میں سے کئی کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں۔ ان میں سے چند ایک بہت اچھے انسان ہیں لیکن اچھا اور ایماندار افسر بھی بوڑھا ہو کر ذہنی طور پر سست ہو جاتا ہے۔ ان افسروں کی اوسط عمر پینسٹھ سال ہے کچھ ستر سال کے ہونے والے ہیں۔ چند ایک کو دوپہر کو یہ یاد نہیں ہوتا کہ صبح ناشتہ کیا کیا تھا لیکن قوم کی خدمت کئے جا رہے ہیں۔ کسی کم عمر اور جوان افسر کو موقع ہی نہیں دیتے کیونکہ ان کے کنٹریکٹ کے ختم ہونے کی کوئی مدت نہیں‘ لہٰذا ان میں سے سب محتسب اعلیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ بڑے سے بڑے بابو کو قابو کرنا ہو تو اسے کنٹریکٹ پر ملازمت دے دیں۔ کنٹریکٹ میں یہ کلاز موجود ہے کہ بابو صاحب کو ایک ماہ کے نوٹس پر فارغ کیا جا سکتا ہے اور جب آپ کو یہ پتہ ہو کہ بڑے صاحب کو خوش رکھ کر دس بلکہ پندرہ سال کی دوسری اننگز کھیلی جا سکتی ہے تو کوئی بے وقوف احمق ہی ہو گا جو کوئی سٹینڈ لے کر بڑے صاحب کو ناراض کرے۔ اس طرح سے بڑے صاحب کی بادشاہت مکمل طور پر قائم ہو جاتی ہے۔
سلمان فاروقی کی تنخواہ انٹرنیٹ پر دی گئی معلومات کے مطابق 2013ء میں نو لاکھ روپے ماہانہ تھی اس وقت معلوم نہیں کتنی ہے۔ وزراء کالونی میں بنگلہ ملا ہوا ہے بلٹ پروف کار موصوف کے پاس ہے‘ بندوق بردار اسکارٹ ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ میں یہ بات یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ بیرون ملک علاج کے اخراجات وہ خود برداشت کرتے ہیں یا حکومت‘ لیکن ایک بات میں ذاتی تجربے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ جب وہ بیرون ملک ہوتے ہیں تو شاہراہ دستور پر واقع ان کا دفتر آدھا خالی ہوتا ہے۔
سلمان فاروقی سے پہلے جاوید صادق ملک محتسب اعلیٰ تھے۔ نہایت مستعد اور ذہین افسر جس کا ڈسپلن اور کارکردگی مثال تھی۔ کرپشن کا کوئی سکینڈل کبھی قریب سے بھی نہیں گزرا ساٹھ سال کی عمر میں محتسب اعلیٰ بنے اور چونسٹھ (64) کی عمر میں وہاں سے فارغ ہوئے اور جب فارغ ہوئے تب بھی ذہنی اور جسمانی طور پر چاق و چوبند تھے۔ سپورٹس کا شوق تھا۔ اس صاف ستھرے افسر نے 2010ء میں اپنی دوسری اننگز مکمل کی اور خاموشی سے گھر چلا گیا۔ جاوید صادق ملک کے زمانے میں محتسب اعلی کا دفتر چھوٹا تھا افسر کم تھے مگر کام بہت ہوتا تھا اور سب سے اچھی بات یہ کہ کارکردگی کا ڈھنڈورا نہیں پیٹا جاتا تھا۔ 
وفاقی محتسب سرکاری محکموں کی ناقص کارکردگی کے خلاف شکائتیں سنتا ہے۔ یہاں سائل کو سستے اور بروقت انصاف کی توقع ہوتی ہے کوئی وکیل نہیں کرنا پڑتا۔ 2010ء کے بعد یہ عہدہ دو سال عملاً خالی رکھا گیا۔ اس زمانے میں یہ رول تھا کہ فیصلہ پر جب تک محتسب اعلیٰ کے اپنے دستخط نہیں ہونگے وہ نافذ العمل نہیں ہو گا۔ فیصلے عام طور پر ایڈوائزر کرتے ہیں لیکن جاوید صادق ملک ہر فیصلے کو دستخط کرنے سے پہلے خود پڑھتے تھے۔ جب دو سال کے لیے کوئی محتسب اعلیٰ نہ تھا تو فیصلوں کے انبار لگ گئے۔ فیصلے ہو چکے تھے مگر دستخط نہ ہونے کے باعث نافذ العمل نہیں ہو سکتے تھے۔ دسمبر 2012ء میں سیکرٹری جنرل سلمان فاروقی نے محتسب اعلیٰ کا اضافی اور عارضی چارج لیا تو اخباروں میں سرخیاں لگ گئیں کہ صاحب بہادر نے چند ہفتوں میں 75 ہزار کیسوں کا فیصلہ کر دیا ہے بات صرف اتنی تھی کہ نئے محتسب اعلی نے پچھتر ہزار فیصلہ شدہ کیسوں پر گگھی بٹھا دی تھی۔ خوب پبلسٹی ہوئی۔ نئے محتسب اعلی کی شاندار کارکردگی کے ڈھول بجائے گئے لیکن یہ سب شعبدہ بازی تھی۔ 
اب آپ پوچھیں گے کہ گریڈ اکیس یا بائیس سے ریٹائر ہونے والے افسر کو کیا پڑی ہے کہ ریٹائر ہو کر سوا لاکھ یا ڈیڑھ لاکھ کی نوکری پھر سے کرے جبکہ ظاہر ہے کہ محتسب اعلیٰ کے دفتر میں اصل ٹوہر صرف بڑے صاحب کی ہے تو جواب یہ ہے کہ دوسری سرکاری اننگز کھیلنے سے بابو صاحب کو پرانی سرکاری رہائش گاہ رکھنے کی اجازت مل جاتی ہے۔ کار اور ڈرائیور بھی پاس رہتے ہیں۔ عمر عزیز کے اس حصے میں نصف بہتر کی بھی یہ خواہش ہوتی ہے کہ بزرگوار ہر وقت سر پر سوار نہ رہیں گھر کے اندرونی معاملات میں ضرورت سے زیادہ رائے زنی نہ کریں۔ ریٹائر منٹ کے ساتھ ہی بابو جی کا اپنا گھر تیار ہوتا ہے اور اسے کرایہ پر اٹھا کر سرکاری مکان میں رہائش جاری رہتی ہے۔ ایڈوائزر اور سینئر ایڈوائزر کو ملازمت دینے کے لیے جاوید صادق ملک کے دور تک طریق کار خاصا شفاف تھا۔ انٹرویو کے لیے محتسب اعلیٰ کے علاوہ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ اور سیکرٹری خزانہ بھی بیٹھتے تھے۔ مگر اب طریقہ کار خاصا تبدیل کر دیا گیا ہے اب ریکروٹمنٹ کمیٹی کے ہیڈ ٹیکس کے محتسب اعلیٰ عبدالرئوف چوہدری جبکہ محتسب اعلیٰ کے اپنے ایڈوائزر ممبر ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے یہ طریقہ خاصا غیر شفاف ہو گیا ہے یعنی من پسند بابے رکھنے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved