گزشتہ دنوں طور خم پر جو افسوسناک واقعہ ہوا ، اس سے یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ افغان حکومت امریکہ اور بھارت کی ملی بھگت سے پاکستان کی مغربی سرحدوں کو غیر محفوظ بناکرپاکستان کے لئے غیر معمولی مسائل پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ طور خم بارڈر سے چند گز دور پاکستان اپنی سرحدکے اندر ایک بڑا گیٹ تعمیر کررہا ہے، تاکہ سرحدپر آنے جانے والوں پر کڑی نگاہ رکھی جائے کیونکہ اس راستے سے ہرروز سینکڑوں لوگ تجارت اور خریدوفروخت کے لئے پاکستان آتے اور واپس جاتے ہیں۔ آنے والوں میں سبھی نیک یا معصوم لوگ نہیںہوتے، ان میں بعض اوقات تاجروں اور سیاحوں کے لبادے میں دہشت گرد ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے یہاں پرگیٹ کی تعمیر ضروری سمجھی ہے۔ ظاہر ہے اس مشکل اور حساس کام کو صرف فوج ہی انجام دے سکتی تھی؛ چنانچہ جونہی پاکستان کے فوجی جوانوں اور مزدوروںنے مل کر کام شروع کیا ، افغانستان کی جانب سے فائرنگ شروع ہوگئی۔ جس کے نتیجہ میں میجر علی جواد شہید اور نو سپاہی زخمی ہوگئے۔ علاوہ ازیں آٹھ مزدور بھی مجروح ہوئے۔ افغانستان کی جانب سے یہ حملہ تھا، اس کا مقصد پاکستان کو گیٹ کی تعمیر سے روکنا تھا تاکہ پہلے کی طرح طور خم بارڈر کو کھلا رکھا جائے، لیکن حساس اداروں نے حال ہی میں اپنی تحقیقات کی روشنی مین یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اس راستے سے تاجروں کے بھیس میں افغانی دہشت گرد اور ''را‘‘ کے ایجنٹ داخل ہوکر پاکستان کے اندر دہشت گردانہ کاروائیاں کررہے ہیں، اس لئے اس جگہ ایک مرکزی گیٹ کی تعمیر ازحد ضروری ہے۔ پاکستان کے عوام اور فوج کے لئے میجر علی جواد کی شہادت یقینا عظیم سانحہ ہے، لیکن اس کے باوجود پاک فوج نے انتہائی صبرکا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف اپنے دفاع میںگولیاں چلائیں۔ تین کروڑ کی آبادی کا یہ قبائلی ملک افغانستان‘ جس کی معیشت اور معاشرت کا انحصار امریکی امداد پر ہے‘ پاکستان کے لئے مسائل پیدا کررہا ہے، بھارت تو یہ چاہتا ہے کہ یہ دونوں مسلمان ملک لڑ کر اپنی توانائیاں ضائع کرتے رہیں تاکہ بھارت کو اپنا سیاسی اور معاشی تسلط قائم کرنے کا موقعہ مل جائے۔ اشرف غنی ایک کمزور صدر ہیں ان کو مزید کمزور کرنے اور غیر فعال بنانے میں تاجک لیڈر عبداللہ عبداللہ کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے، جو کسی نہ کسی طریقے سے ان کو زچ کرتے رہتے ہیں تاکہ وہ پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ نہ بڑھا سکیں۔ ماضی میں اشرف غنی نے پاکستان کے ساتھ دوستی اور مفاہمت کا عزم ظاہر کیا تھا، لیکن اندرون خانہ انہیںکسی قسم کی مدد یا تعاون نہیں مل سکا تھا۔ اشرف غنی کو پاکستان کے خلاف بھڑکانے اور اکسانے میں عبداللہ عبداللہ کے علاوہ حامد کرزئی کا بہت بڑا کردار ہے۔ موصوف نے حال ہی میں صدر اشرف غنی کو مشورہ دیا ہے کہ وہ پاکستان کو دشمن ملک قرار دے دے۔ ماضی میں بھی حامد کرزئی نے امریکہ اور بھارت کے مشوروں سے پاکستان کے اندر بے پناہ دہشت گردی کرائی تھی۔ اس دہشت گردی کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کو 110ارب ڈالر کا نقصان ہوا، جبکہ 60ہزار فوجی جوانوں اور افسروں نے جام شہادت نوش کیا۔ حامد کرزئی کے بارے میں خطے کے عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ موصوف سی آئی اے کے خاص آدمی ہیں۔ سابق صدر کرزئی نے نو سال پاکستان میں قیام کیا تھا۔ سی آئی اے‘ حامد کرزئی اور بھارت تینوں نے مل کر پاکستان دشمن تحریک طالبان کو جنم دیا اور بعد میں روپے پیسوں سے اسے پروان چڑھایا۔ حامد کرزئی اپنی سوچ کے لحاظ سے پاکستان اور مسلم دشمن شخص ہے۔ انہوں نے امریکی امداد کو افغان عوام کی فلاح کے لئے استعمال کرنے کی بجائے اپنے لئے اور اپنے خاندان اور اپنے دوستوں کے لئے استعمال کیا۔ اس کے ایک بھائی ولی کرزئی نے بھی بھائی کی طرح بڑی کرپشن کی‘ جسے قندھار میں اُس کے اپنے ہی جاننے والوں نے قتل کردیا۔ ہر چند کہ کرزئی اس وقت اقتدار میں نہیں ہے، لیکن وہ افغانستان کے بد نام زمانہ وار لارڈز کے ذریعہ اشرف غنی کو دبائو میں رکھ کر پاکستان کے خلاف دشمنی پر اکساتا رہتا ہے، طور خم پر پاکستان اور افغانستان کے درمیان جو چھوٹا ساتصادم ہوا ہے، اس کے پیچھے کرزئی ہی کی سوچ کارفرما ہے۔
فی الوقت طورخم بارڈر پر فائرنگ کا سلسلہ رک چکا ہے، بظاہر امن قائم ہوگیا ہے، جبکہ گیٹ کی تعمیر کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے، لیکن اب پاکستان کے عوام اور حکومت کو ادراک ہوجانا چاہئے کہ افغانستان آئندہ کسی بھی وقت پاکستان کی مغربی سرحدوں پر مسائل پیدا کرسکتا ہے، جیسا کہ اس نے طور خم پر بلا اشتعال کارروائی کرکے صورتحال کو خراب کرنے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان نے ہر چند صبر کا مظاہرہ کیا ہے، اور پاکستان نہیں چاہتا ہے کہ تعلقات میں اس حد تک خرابی پیدا ہوجائے کہ پاکستان کو قوت کا استعمال کرنا پڑے یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے طورخم پر مسلح تصادم کو بڑھنے نہیںدیا۔ بلکہ سیزفائر کرکے بھٹرکتی آگ کو ٹھنڈا کیا؛ حالانکہ پاکستان کے فوجیوں کو اپنے افسر میجر علی جواد کی شہادت کا بہت دکھ ہے، وہ بہ آسانی افغان فوج کو سبق سکھا سکتے تھے، لیکن انہوں نے صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملات کو سنبھالنے کی کوشش کی۔ دراصل افغانستان کی حکومت ایک کٹھ پتلی حکومت ہے جس کے اقتدار کا دائرہ کابل تک محدود ہے اگر امریکہ اس کی مالی امداد نہ کرے تو یہ حکومت قائم نہیں رہ سکتی ہے؛ تاہم شواہد بتارہے ہیں کہ امریکہ اب زیادہ عرصہ اس جگہ نہیں لڑسکے گا وہ یہاں سے نکل جانا چاہتا ہے، اور نکلنے سے پہلے افغان طالبان سے مذاکرات بھی کرنا چاہتا ہے، لیکن ملا اختر منصور کی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد اب یہ مذاکرات نہیں ہو سکیں گے۔ امریکہ اس ضمن میں پاکستان پر دبائو ڈالتا رہے گا، لیکن خود امریکی پالیسی میں اتناگہرا اور واضح تضاد ہے کہ پاکستان اس سلسلے میں اب کچھ نہیں کرسکتا ۔ افغان حکومت کو اپنے رویے کے بارے میں سوچنا چاہئے کہ کیا اس کا مفاد پاکستان کے ساتھ دوستی میں ہے یا دشمنی میں؟!