تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     21-06-2016

کچھ لوہارا ترکھانا

رسائل میں جو شاعری شائع ہوتی ہے‘ اس میں کہیں کہیں کچھ غلطیاں ٹائپ کی ہوتی ہیں تو کچھ پروف ریڈنگ کی اور کچھ فنی اغلاط۔ حق تو یہ ہے کہ اگلے شمارہ میں ان کی اصلاح اور درستی بھی چھاپ دی جائے لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے اور اس طرح تخلیق کار اپنی جگہ مضطرب رہتا ہے‘ تو قاری اپنی جگہ۔ ہے تو یہ کارِ لاحاصل‘ لیکن میں نے اپنی بساط کے مطابق ان کی نشاندہی کا سلسلہ شروع کیا ہے‘ جہاں جہاں میں غلط ہوں گا وہاں سے بات آگے چل سکتی ہے۔ انہی دنوں جو رسائل موصول ہوئے ہیں‘ ان میں سے ماہنامہ ''فانوس‘‘ پیش نظر ہے جسے لاہور سے محمد شکور طفیل‘ خالد علیم اور دیگر دوست نکالتے ہیں‘ اس کی ورق گردانی سے کچھ چیزوں پر تامل ہوا جو پیش خدمت ہیں۔
صفحہ نمبر7 پر قاضی حبیب الرحمن کی نعت ہے اس کے تیسرے شعر کا دوسرا مصرعہ ہے ع
وہ سکھیاں جو پی کر نگریا کو چلیاں
اس میں ٹائپ کی غلطی ہے یعنی ''پی کر‘‘ کی بجائے ''پی کی‘‘ ہونا چاہیے تھا۔اسی صفحے پر صفدر صدیق رضی کی نعت کے پانچویں شعر کا دوسرا مصرعہ ہے ع
اور اس کی اک نفی پہ قرباں لامحدود اثبات
یہاں نفی درست وزن میں نہیں باندھا گیا جو ''شمع‘‘ کے وزن پر مثلاً غالب کا مصرعہ ہے ع
نفی سے کرتی ہے اثباتِ تراوش گویا
یہ مصرعہ اس طرح سے بھی ہو سکتا تھا‘ ع
اور اک نفی پہ اس کی قرباں لامحدود اثبات
صفحہ نمبر32 پر جلیل عالی کی نظم قلبیہ کے ایک مصرعہ میں بھی نفی کو اسی طرح باندھ گیا ہے ع
نفی کرتی ہوئی بیمار ذہنیت
صفحہ نمبر50 پر سلیم کوثر کی غزل کا تیسرا شعر ہے ؎
ہوا کو راستہ کب تک ملے گا
گھٹن کا یہ سماں کب تک رہے گا
ایک تو لفظ راستہ کے صحیح ہجے میں راستا اور دوسرے شعر میں اجتماعِ ردیفین ہے اور جس کا مطلب ہے کہ شعر کے دونوں مصرعے اس طرح لکھے جائیں کہ اگر انہیں الگ سے پڑھا جائے تو وہ مطلع لگے جبکہ حقیقت میں وہ مطلع نہ ہو۔ اسے معائب سخن میں شمار کیا گیا ہے۔ صفحہ نمبر 54 پر احمد فاروق کی غزل کا پہلا شعر ہے ؎
یک افسانہ حقیقت آمیز
درد سے دوا سے پرہیز
اس سے پہلا لفظ ''یک‘‘ نہیں ''ایک‘‘ ہے جو ٹائپ کی غلطی ہے۔
صفحہ نمبر 73 سے ہمارے دیرینہ دوست حامد یزدانی کی رُباعیات شروع ہوتی ہیں۔ پہلی رباعی کا پہلا مصرعہ ہے ع
رستہ رستہ چمکے منزل کا چاند
اس مصرعے میں غالباً ٹائپ کی غلطی سے لفظ ''گا‘‘ چھوٹ گیا ہے‘ یعنی ''چمکے گا‘‘ ہونا چاہیے تھا۔
چوتھے مصرعے میں بھی ایسی ہی گڑ بڑ ہے ع
حیراں ہے ساحل پر‘ ساحل کا چاند
یہ اس طرح ہوتا تو ٹھیک تھا کہ ''حیراں ہے ساحل پر جو ساحل کا چاند‘‘
چوتھی رباعی کا دوسرا مصرعہ ہے ع
بستی گویا اک بنجر صحرا ہے
یہ اس طرح ہوتا تو وزن پورا ہو جاتا ع
بستی گویا بنجر کوئی صحرا ہے
صفحہ نمبر 75 کی رباعی کا تیسرا مصرعہ ہے ع
آنکھوں میں مروّت ہے‘ دل میں دھوکہ
دھوکہ کے صحیح ہجے دھوکا ہیں‘ صحیح اور بروزن مصرعہ اس طرح ہوتا ع
آنکھوں میں مروّت ہے تو دل میں دھوکا
اسی صفحے پر ایک رباعی کا پہلا مصرعہ ہے ع
پھر ضبط کا ہر پُشتہ ٹوٹا جائے
صحیح مصرعہ اس طرح ہوتا ع
پھر ضبط کا ہر ایک پُشتہ ٹوٹا جائے
اسی رباعی کا چوتھا مصرعہ اس طرح سے ہے ع
طوفان کو اب کیسے روکا جائے
صحیح مصرعہ اس طرح ہوتا ع
طوفان کو آج کیسے روکا جائے
صفحہ نمبر76 پر درج رباعی کا تیسرا مصرعہ ہے ع
کیسے باہمت دیوانے ہیں ہم
یہ اس طرح سے ہوتا تو وزن کی کمی پوری ہو جاتی ع
باہمت کیسے دیوانے ہیں ہم
اسی صفحے پر ایک رباعی کا تیسرا مصرعہ ہے ع
ہر زخم نہیں کہلاتا زخم گلاب
ایک تو لفظ ''گلاب‘‘ کو جب اضافت کے ساتھ باندھا جائے تو اس کے معنی گلاب کا عرق ہو جاتے ہیں۔ صحیح مصرعہ اس طرح سے ہوتا ع
زخمِ گُل کہلا نہیں سکتا ہر گُل
اسی صفحے پر ایک رباعی کا تیسرا مصرعہ ہے ع
سینے میں نہیں ٹکتا لمحہ بھر کو
درست مصرعہ یوں ہوتا ع
سینے میں نہیں ٹکتا ہے لمحہ بھر کو
اسی صفحے پر درج رباعی کا تیسرا مصرعہ ہے ع
پھر دور سمندر میں لہریں جاگیں
درست مصرعہ یوں ہوتا:
پھر دور سمندر میں وہ لہریں جاگیں
کچھ اور مصرعے اسی طرح سے درست ہوتے‘ آنکھیں بادل ہوائیں پیڑ اور جگنو‘ کس طاق میں جلتا ہے یہ سورج کا چراغ‘ آنکھوں نے بس دیکھے ہیں تیرے ہی خواب‘ پڑھ لی تاریخ ہستی تو کھلا پھر دشت تمنا کی یہ پہنائی ہے‘ پھر دل میں ہے اک کسک سی حامد‘ اس دل میں پھر عزمِ سفر کرنا ہے‘ آئو تو کبھی مل کے کچھ خواب بنیں‘ میں یاد کروں گا جب وہ بیتی باتیں‘ چمکے گا آنکھ میں جو خوابوں کا خمار‘ اترے گی سانس میں وہ جذبوں کی بہار (جاری ہے)
آج کا مقطع
سادگی اپنی کہوں یا اُس کی مکاری‘ ظفرؔ
کس لیے آیا تھا اور کس شے پہ راضی کر گیا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved