جس طرح پاناما لیکس کے منظر عام آنے کے فوراً ہی بعد‘ وزیر اعظم نواز شریف نے دو مرتبہ قوم سے خطاب کرتے ہوئے اپنے آپ کو اور پورے خاندان کو احتساب کے لئے قانون کے سامنے پیش کرنے کا اعلان کیا تھا‘ اگر وہ اس پر قائم رہتے تو حضرت عمرؓ کے بعد دور جدید میں ایک نئی مثال قائم ہو جاتی۔ وہ آج بھی چاہیں تو یہ کر سکتے ہیں لیکن بھلا ہو ان خوشہ چینوں کا‘ جن کی روزی روزگار کا انحصار میاں صاحب کے منصب جلیلہ پر ہے۔ انہیں میاں صاحب کی نہیں اپنی فکر ہے اور ہر کسی کو خوف ہے کہ ''میرا کیا بنے گا کالیا‘‘؟ ورنہ خود وزیر اعظم کو غیر معمولی احتیاط اور نئے نئے تحفظات حاصل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ وہ موجودہ قوانین کے ہی تحت پوری طرح محفوظ ہیں۔ قومی اسمبلی میں انہیں دو تہائی اکثریت حاصل ہے۔ پاناما سکینڈل سامنے آنے کے بعد جو نئے مسائل پیدا ہوئے‘ انہیں قانون سازی کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ قانون سازی غیر متنازعہ طریقے سے ہو۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ قانون سازی کے عمل میں اپوزیشن کی تائید و حمایت بھی حاصل ہو۔ اپوزیشن کسی طرح کے تصادم کے موڈ میں نہیں ہے۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آئی کہ جب ہر دلیل وزیر اعظم کے حق میں تھی‘ تو پھر کیا ہوا؟ حالات کی ستم ظریفی تھی کہ عین انہی دنوں میں وزیر اعظم علیل ہو گئے۔ ان کی اس علالت پر پورا ملک دعا گو تھا کہ وزیر اعظم جلد صحت یاب ہو جائیں۔ اگر وزیر اعظم نئی قانون سازی کے لئے‘ قوم سے براہ راست خطاب کر کے وقت مانگ لیتے تو ایک بھی فرد ایسا نہ ہوتا جو انہیں صحت مندی کی مہلت نہ دیتا۔ صحت مند ہونے کے بعد وہ اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ آئینی اور قانونی تحفظات کو بروئے کار لاتے‘ اور اپوزیشن کو قائل کر کے یہ مسئلہ حل کر لیتے‘ مگر سوال صرف یہ تھا کہ ''تیرا کیا بنے گا کالیا‘‘؟
اگر آپ پاناما سکینڈل کے بعد‘ وزیر اعظم کی مصروفیت کا جائزہ لیں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ ان کے قریب رہنے والے سارے ''کالیے‘‘ غیر منتخب لوگ تھے ۔ اندازہ کر لیجئے کہ جن لوگوں کے اپنے عہدوں اور پوزیشن کا دارومدار صرف اور صرف وزیر اعظم کے منصب پر ہو وہ کب یہ چاہیں گے کہ انہیں کسی امتحان میں ڈالا جائے؟ یہ غیر منتخب لوگ سوچ ہی نہیں سکتے کہ عوامی حمایت سے وزیر اعظم بننے والے لیڈر کو ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں کا ڈر نہیں ہوتا۔ ایک عوامی لیڈر کی حیثیت سے وزیر اعظم کا پہلا فیصلہ سو فیصد درست تھا۔ انہوں نے اپنے آپ کو عوام کے سامنے پیش کر دیا تھا اور اگر ان کے مشیر‘ منتخب لوگ ہوتے تو ان کا مشورہ بھی یہی ہوتا کہ وزیر اعظم اپنی روایتی جرات مندی سے‘ اپنے آپ کو عوام کے سامنے پیش کر کے اپنا دفاع کریں۔ عوام کی طرف سے کیا جواب آتا؟ اس کا تجربہ وزیر اعظم نے اسی مسئلے پر ایوان کے اندر کرکے دیکھ لیا تھا۔ انہوں نے قومی اسمبلی میں ڈٹ کے تقریر کی۔ یہ درست ہے کہ انہوں نے اپنے حامی اراکین کو آزما کر نہیں دیکھا لیکن اگر وہ یہ کر گزرتے تو زیادہ سے زیادہ یہ ہونا تھا کہ اراکین کی اقلیت کا ووٹ‘ ان کے خلاف جاتا لیکن جس طرح وزیر اعظم کی تقریر کو رسیو کیا گیا‘ اس سے ظاہر تھا کہ وہ دو تہائی اکثریت کی حمایت حاصل کر لیتے۔ ایسا نہ بھی ہوتا تو اکثریت ان کے ساتھ تھی۔ مجھے ابھی تک سمجھ نہیں آئی کہ وزیر اعظم نے عوام پر بھروسہ کرنے کے بجائے ''کالیوں‘‘ سے امید کیوں لگائی؟ یہ کالیے ہی ہیں‘ جنہوں نے وزیر اعظم کی خود اعتمادی کو مجروح کیا‘ ورنہ ان کے ڈرنے کی وجہ کیا تھی؟ کاش وہ عوامی حمایت رکھنے والے چند منتخب نمائندوں پر بھروسہ کرتے اور اس بحران میں انہی سے مشورے لیتے‘ پارلیمنٹ میں اتنی بھاری اکثریت رکھنے والے وزیر اعظم کو خوف کس کا تھا؟ وزیر اعظم کو اس خوف میں مبتلا کس نے کیا؟ ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ ان دنوں میں وزیر اعظم کے مخصوص مشیروں میں سے کوئی بھی منتخب نمائندہ نہیں ہے‘ اور اگر کوئی تھا تو اس کا کیس الیکشن کمیشن میں ہوتا اور اس کا حال کم و بیش انہی لوگوں جیسا‘ جو اپنی نشستوں سے محروم ہونے کے بعد عدالتی سٹے آرڈر کے سہارے اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں۔ میاں صاحب‘ وضع دار اور حامیوں کا ساتھ دینے والے آدمی ہیں۔ انہوں نے اس پر توجہ نہیں دی کہ جو عوام کے منتخب نمائندے نہیں‘ وہ تو خود ان کی سرپرستی کے محتاج ہیں۔ وہ وزیر اعظم کو طاقت کہاں سے فراہم کر سکتے ہیں؟ ان کی ساری کوشش یہ ہے کہ وزیر اعظم قانون کا سامنا کر کے ان کی نوکریاں خطرے میں نہ ڈالیں‘ حالانکہ حقیقت میں وزیر اعظم کسی خطرے میں نہیں۔ وہ جب چاہیں‘ منتخب پارلیمنٹ میں بھاری اکثریت سے اعتماد کا ووٹ حاصل کر سکتے ہیں۔ موجودہ قوانین کے تحت‘ وہ کسی بھی طرح مالیاتی قوانین کی زد میں نہیں آتے۔ رہ گیا بچوں کا سوال تو ان کے پاس اپنے دفاع کے بے شمار طریقے موجود ہیں۔ وہ مالیاتی امور کے عالمی ماہرین سے قانون کی مدد لے کر اپنی پوزیشن صاف کر سکتے ہیں۔ اور زیادہ سے زیادہ کیا ہو گا؟ انہیں انتخابات میں حصہ لینے کے لئے نااہل قرار دے دیا جائے گا۔ وہ بطور پاکستانی شہری اپنا حق لینے کے لئے عدالتوں میں چلے جائیں گے۔ موجودہ بحران کے عروج پر وزیر اعظم نے سیاسی مشاورت کے لئے اپنے جن دو مشیروں کو لندن طلب کیا‘ ان میں سے ایک بھی براہ راست کسی انتخابی حلقے سے منتخب نہیں ہوا۔ دونوں کو وزیر اعظم نے خود نوکری دے کر‘ اپنے پاس رکھا ہوا ہے۔ یہ بیچارے ملازمت پیشہ‘ ایک منتخب وزیر اعظم کو سیاسی بحران میں کیسے مفید مشورے دے سکتے ہیں؟
ایسی ہی بے بسی حاصل بزنجو کو حکومت میں لے آئی تھی۔ ان کی تمام سیاسی طاقت وزیر اعظم کی سرپرستی کے رحم و کرم پر ہے۔ انہیں اپوزیشن سے مذاکرات میں شرکت کے لئے لاہور بلایا گیا۔ اس دوران وہ مختلف ٹاک شوز میں بھی نمودار ہوئے‘ مگر ان کی حالت دیدنی تھی۔ صاف نظر آرہا تھا کہ وہ ایک باشعور سیاسی کارکن کی حیثیت میں ایک غیر منطقی پوزیشن کا دفاع کرنے میں مشکل محسوس کر رہے ہیں۔ اگر وہ اپوزیشن کی نمائندگی کرتے تو ان کے دلائل سننے کے قابل ہوتے۔ بلوچستان کا ایک اور کردار‘ میاں صاحب کے دور اقتدار میں بری طرح سے ایکسپوز ہوا ہے۔ سرکاری ایجنسیاں اپوزیشن کے بہت سے افراد کو بھرتی کر لیتی ہیں‘ اور انہیں خصوصی آزادی ہوتی ہے کہ وہ بڑھ چڑھ کر حکومت پر تنقید کریں۔ اس سے ملتا جلتا کردار محمود خان اچکزئی ہے۔ بظاہر وہ ایوانوں کے اندر بہادر اور نڈر لیڈر کے طور پر بولتا ہے لیکن اندر سے گلے تک سرکاری نوکریوں میں دھنسا ہوا ہے۔ میں نے محمود اچکزئی کے رشتے داروں کی ایک فہرست سوشل میڈیا پر دیکھی ہے‘ جو سب کے سب اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ اس لسٹ میں اگر کوئی غلطی ہو تو میں فی الحال اس کی ذمہ داری لینے سے قاصر ہوں۔ ہاں اگر کوئی الزام غلط ہے تو نشاندہی پر اس کی معذرت کر لوں گا۔ فہرست کے مطابق محمود اچکزئی‘ وزیر اعظم کے خصوصی مشیر ہیں۔ان کے بھائی محمد خان اچکزئی بلوچستان کے گورنر ہیں۔ بھائی حمید خان اچکزئی‘ ایم پی اے ہیں۔ بھائی مجید خان اچکزئی بھی ایم پی اے ہیں۔ بیوی کی بھابھی‘ ایم پی اے ہیں۔ بیوی کی بہن‘ نسیمہ حفیظ ایم این اے ہیں۔ (ان تمام منتخب رشتے داروں میں شاید ہی کسی نے ایک ہزار سے زیادہ ووٹ لیے ہوں) برادر نسبتی‘ منیجر کوئٹہ ایئرپورٹ تعینات ہے۔ دوسرا برادر نسبتی‘ حسن منظور‘ ڈی آئی جی موٹر وے پولیس ہے۔ بیوی کا بھتیجا‘ سالار خان‘ بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن‘ انجینئرنگ اینڈ مینجمنٹ سائنسز میں لیکچرار ہے‘ اور اسی یونیورسٹی میں بیوی کا کزن‘ قاضی جلال‘ رجسٹرار کی سیٹ پر براجمان ہے۔ اتنی بڑی پلٹن کے ساتھ حکومت میں حصے دار بن کر بندہ وزیر اعظم کی حمایت نہ کرے تو کیا کرے؟ جس طرح ''دنیا نیوز‘‘ کے پروگرام ''مذاق رات‘‘ کا ایک کردار‘ سخاوت ناز اکثر کہتا ہے کہ ''چڑی وچاری کی کرے‘‘۔ اسی طرح مفادات کے مارے ہوئے ان گنت لوگ‘ وزیر اعظم کو کڑی آزمائش میں دھکیل رہے ہیں‘ جس کی وزیر اعظم کو قطعاً ضرورت نہیں۔