چیمہ خاندان پر ہونے والی ظلم کی پوری کہانی سن کر میں نے بعد میں اپنے ایک دوست پولیس افسر کو فون کیا ۔ اسے کہا میں ڈی پی او سیالکوٹ ڈاکٹر عابد کو نہیں جانتا ۔ آپ اس سے پوچھیں سب کیا معاملہ ہے۔ تاکہ مجھے پوری صورت حال کا اندازہ ہو۔ ایک دفعہ پھر میں کسی غلط پارٹی کی حمایت نہ کر بیٹھوں جیسے ماضی میں ہوا تھا۔ ماضی کی غلطی میرے ذہن پر سوار تھی اور اس دفعہ میںکوئی رسک لینے کو ہرگز تیار نہیں تھا ۔ میں نے اپنے دوست پولیس افسر کو بتایا کہ میرے خیال میں سیالکوٹ کے ڈی پی او ڈاکٹر عابد بھٹی نے بہت بڑی زیادتی کر دی ہے۔ اس نے بے گناہ نوجوانوں پر مقدمہ درج کرا دیا ہے۔ ڈاکٹر عابد جیسے پڑھے لکھے پولیس افسر سے ایسی توقع نہ تھی۔ بہرحال آپ اپنے تئیں معاملہ چیک کر کے مجھے پلیز بتائیں۔ تھوڑی دیر بعد میرے پولیس افسر دوست نے فون کر کے بتایا کہ آپ درست کہتے ہیں ڈی پی او خود مان رہا ہے کہ سیالکوٹ پولیس سے بہت بڑی زیادتی ہوگئی ہے۔ نوجوان بے قصور ہیں۔ وہ کہہ رہا ہے دو دن بعد وہ ان کو ڈسچارج کر دے گا۔ میرے پولیس افسر دوست نے بھی اس پر افسوس کا اظہار کیا کہ ڈی پی او سیالکوٹ ڈاکٹر عابد کو چاہیے تھا اس مقدمے میں وہ ہمت دکھاتا اور بے قصور نوجوانوں پر تو مقدمہ بنتا ہی نہیں تھا ۔ دو دن بعد پتہ چلا وہی ڈی پی او ڈاکٹر عابد جو یہ کہہ رہا تھا کہ اس کی پولیس سے زیادتی ہوئی تھی اور بے قصور نوجوانوں کو گرفتار کر لیا گیا تھا اس کے ایس ایچ او نے عدالت جا کر مزید ریمانڈ مانگ لیا اور عدالت کے سامنے بھی جھوٹ بولے گئے اور یوں ان تین نوجوانوں کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا ۔ میں نے کہا یہ کھیل کچھ اور ہی کھیلا جارہا ہے۔ مجھے اس مقدمے کے پس منظر کا کچھ علم تھا ۔ مجھے اندازہ ہوا ڈاکٹر عابد بھی ایک روایتی پولیس افسروں کی طرح اپنی جان بچانے کے لیے اب جھوٹ بول رہا ہے۔ ایک طرف وہ تسلیم کر رہا ہے کہ نوجوان بے گناہ ہیں اور ان کے ساتھ ایس ایچ او نے زیادتی کر دی ہے اور دوسری طرف اس کی پولیس خود ریمانڈ مانگ رہی ہے۔ بعد میں پتہ چلا انکوائری کے بعد شہباز شریف ڈی پی او ڈاکٹر عابد کو فارغ کرنے لگے تھے لیکن اس نے تگڑی سفارشیں کرا کے اپنی نوکری بچا لی ۔جب مجھے پتہ چلا یہ سب لڑکے بے قصور ہیں تو میں نے اس خاندان کی مدد کے لیے وہ کام کیا جو شاید پہلے کبھی نہ کیا ہو۔ میں نے وزیراعلیٰ کے برخوردار سلمان شہباز شریف کو ٹیکسٹ پیغام بھیجا آپ کی پنجاب پولیس اور سیالکوٹ کے ڈی پی او یہ ہاتھ دکھا رہے ہیں ۔ کچھ خدا کا خوف کریں اور سیالکوٹ پولیس اور ڈی پی او کے ظلم و ستم سے تین معصوم خاندانوں کو بچائیں۔سلمان شہباز شریف کی مہربانی، اس نے نے فوراً جواب دیا کہ وہ یہ پورا واقعہ اپنے والد صاحب کے نوٹس میں لا رہے ہیں اور اس کی انکوائری کرائی جائے گی اور انصاف ہوگا ۔ دو دن بعد مجھے سلمان شہباز شریف کا پیغام ملا کہ انکوائری ہوگئی ہے۔ انکوائری کے لیے ڈی آئی جی ابوبکر خدابخش کو بھیجا گیا جس نے پچیس صفحات کی رپورٹ بناکر پیش کی جس میں سیالکوٹ پولیس اور اس کے اعلیٰ افسران کی نالائقیوں اور مظلوموں کے ساتھ کیے گئے ہوشربا انکشافات کیے گئے تھے۔
سلمان شہباز نے کہا آپ درست کہتے ہیں خالد ضیاء چیمہ سمیت جن تین لڑکوں کو سیالکوٹ کے تھانے میں میں بند کر رکھا ہے وہ بے گناہ ہیں۔ دو دن بعد وہ رپورٹ عدالت میں جمع کرادی جائے گی اور وہ دو دن بعد ہی چھوٹ جائیں گے۔ سلمان شہباز نے میرا شکریہ ادا کیا آپ نے مظلوم خاندان کی کہانی ان تک پہنچائی جس سے شاید ان کا کچھ بھلا ہوجائے۔ سلمان شہباز نے اس پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ پولیس اس طرح بھی مظلوم خاندانوں سے ظلم کرتی ہے اورپوری پولیس کو اس وقت بہت بڑے پیمانے پر تبدیلیوں اور اصلاحات کی بھی ضرورت ہے۔ میرا خیال تھا اس رپورٹ کے بعد سلمان شہباز نالائق ڈی پی او کے خلاف بھی کاروائی کرائیں گے تاکہ مظلوموں کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا کچھ ازالہ ہو ۔ خیر یہ میری غلط فہمی نکلی اور ڈاکٹر عابد نے سفارشیں کرا کے اپنی نوکری اور سیٹ بچا لی ۔ ویسے بتا دوں ڈی پی او سیالکوٹ کے سفارشی بھی میرے کچھ صحافی دوست ہی تھے۔ میری خود بھی ڈی پی او ڈاکٹر عابد سے بات ہوئی ۔ وہ بتانے لگے ہم لندن میں ملے تھے جب دونوں پڑھنے وہاں گئے ہوئے تھے۔
ڈاکٹر عابد نے بھی مان لیا ان تین نوجوانوں کے ساتھ ان کی پولیس نے زیادتی کی تھی۔ لیکن وہ کیا کرتے اگر وہ یہ کام نہ کرتے تو بھی مصیبت میں پڑجاتے۔ کہنے لگے یہ ایک لڑکی کے ساتھ زیادتی کا کیس تھا ۔ بولے آپ کو پتہ ہے کہ میڈیا ایسے معاملے کو فوراً اٹھا لیتا ہے اوروزیراعلیٰ خود نوٹس لے لیتے ہیں۔ لہذا انہوںنے کہا اگر مقدمہ درج نہ ہوا تو ان کی نوکریاں خطرے میں پڑ جائیں گی۔ بولے انہیں علم ہے کہ یہ جھوٹا مقدمہ تھا لیکن وہ مجبور تھے۔ مجھے ایک ڈی پی او کے منہ سے یہ سب کچھ سن کر بہت دکھ ہوا۔ میں نے کہا آپ دعوی کرتے ہیں آپ برطانیہ سے اعلی تعلیم لے کر پاکستان لوٹے ہیں اور آپ کے انصاف اور ضمیر کا یہ معیار ہے کہ اپنی نوکری بچائو چاہے کسی مظلوم کو آپ کی وجہ سے تکلیف ہو ۔ بے گناہ لوگ جیل چلے جائیں ۔ خیر ڈاکٹر عابد بھی بولے کہ دو دن بعد ملزمان چھوٹ جائیں گے۔
یہ ڈیڑھ ماہ پہلے کی بات ہے جب سلمان شہباز شریف نے انکوائری کرا کے مجھے پیغام بھیجا تھا کہ لڑکے بے گناہ ہیں اور دو دن بعد چھوٹ جائیں گے۔ ڈی پی او ڈاکٹر عابد نے بھی ڈیڑھ ماہ پہلے مجھے یہی بتایا کہ لڑکے بے گناہ ہیں اور وہ دو دن بعد چھوٹ جائیں گے۔۔ تاہم مجھے علم نہ تھا کہ دراصل ڈاکٹر عابد بھی ایک روایتی پولیس افسر ہے
جسے انصاف سے زیادہ اپنی نوکری عزیز ہے اور پتہ چلا کہ نواز لیگ کا ایم این اے عبدالستار بھی اس معاملے روایتی منفی کردار ادا کر رہا تھا اور لندن پلٹ ڈی پی او اس کے سامنے بے بس تھا ۔ آج اس بات کو ڈیڑھ ماہ گزر گیا ہے وہ تینوں لڑکے بے گناہ ہونے کے باوجود سیالکوٹ جیل میں ہیں۔ اور ان کے والدین در بدر ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور اپنا سب کچھ بیچ کر بچوں کی ضمانتیں کرانے کی کوششیں کر رہے ہیں اور کسی طرف سے بھی انہیں کوئی مدد نہیں مل رہی۔ آج بائیس جون کو بدھ کے روز لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس محمد قاسم خان کے سامنے ان کی ضمانت کی پیشی ہے۔ ایک ماہ سے وہ ایک عدالت سے دوسری عدالت ذلیل ہورہے ہیں ۔ ضمانت نہیں ہوپارہی۔ سب کہتے ہیں کہ وہ بے گناہ ہیں‘پولیس خود مانتی ہے‘شہباز شریف کی انکوائری مانتی ہے‘ڈی پی او ڈاکٹر عابد مانتا ہے‘ضمانت پھر بھی نہ ہوسکی۔جٹ خاندان پر دبائو ہے کہ صلح کرلو تاکہ ان کے پانچ لوگ جو عمر قید بھگت رہے ہیں وہ جیل سے باہر آ جائیں پھر وہ بھی لڑکی کے اغواء کا مقدمہ واپس لے لیں گے۔ آخر کہانی کیا ہے۔ کیوں عدالتوںپر بھی اتنا دبائو ہے سب کہتے ہیں بے گناہ ہیں۔ پولیس کی دو انکوائریاں کہتی ہیں کہ وہ بے گناہ ہیں لیکن عدالت ٹال مٹول سے کام لے رہی ہیں ۔
کہانی کچھ اور ہے...!
یہ دراصل سیالکوٹ کے علاقے بیگووالا میں واں گائوں کے علاقے میں جٹ اور رانا برادریوں کے درمیان برسوں سے جاری ایک لڑائی کا نتیجہ ہے۔ چھ برس قبل جب جٹ خاندان کے خالد ضیاء چیمہ کو اغوا کر کے تاوان مانگا گیا تھا تو وہ رانا برادری کے لوگ تھے۔ وہ سب گرفتار ہوئے اور عدالتوں سے پانچ ملزمان کو ثبوتوں کی موجودگی میں پچاس پچاس سال سزا ہوگئی تھی۔ کچھ عرصے سے رانا برادری، چیمہ خاندان پر دبائو ڈال رہی تھی کہ وہ ان کے ساتھ صلح کر لیں اور مقدمہ واپس لے کر ان کے پانچ لوگوں کی عمر قید سے جان چھڑائیں ۔ تاہم چیمہ خاندان نے صلح کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس دوران چیمہ خاندان نے اپنے لڑکے خالد کو دوبئی بھیج دیا تاکہ وہ اس دبائو سے نکل جائے اور کل کلاں اور پنگا نہ ہوجائے۔ تاہم جو ہونا ہوتا ہے وہ ہوکر ہی رہتا ہے۔ اس دوران چیمہ خاندان نے خالد ضیاء چیمہ کو دوبئی سے بلوا کر اس کی شادی طے کر دی ۔ خالد چیمہ اس سال فروری کے دوسرے ہفتے دوبئی سے چھٹی لے کر پاکستان آگیا ۔ سب گھر والے خوش ہوگئے۔ لڑکی پہلے ہی تلاش کی جاچکی تھی ۔ پورے گائوں میں ایک خوشی کا سماں پیدا ہوگیا۔ پورا خاندان ماضی کے دکھوں کو بھول گیا تھا ۔انہیں اس بات کی تسلی تھی کہ جن پانچ رانا خاندان کے لوگوں نے انہیں اغوا کر کے تشدد کا نشانہ بنایا تھا وہ نہ صرف سزا پاچکے تھے بلکہ جیل میں پڑے تھے۔
خالد ضیاء چیمہ دوبئی سے طویل چھٹی لے کر آیا تھا تاکہ وہ شادی کے بعد بھی کچھ دن گھر رہ سکے۔ شادی ہوچکی تھی۔ خالد کی نئی زندگی شروع ہوچکی تھی کہ ایک دن گھر پر تھانے سے فون آیا ۔ پولیس نے کہا چیمہ صاحب آپ تھانے پیش ہو کر گرفتاری دیں ۔حیران پریشان خالد چیمہ نے پوچھا میں نے کیا جرم کیا ہے۔تھانہ بیگووالا کی پولیس نے جواب دیا گائوں واں کے رانا خاندان نے تھانے میں درخواست دی ہے آپ نے ان کی ایک لڑکی کو اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر اغوا کیا اور سب مل کر اس کا گینگ ریپ کرتے رہے ہیں ۔ خالد ضیاء چیمہ کو یوں لگا جیسے اس پر ایک ایٹم بم گرا ہو!اپنی شادی کے کچھ دن بعد خالد چیمہ جو ابھی ہنی مون منانے کا سوچ رہا تھا اب تھانے میں بیٹھا سلاخیں تک رہا تھا ۔ خالد چیمہ حیران بیٹھے بٹھائے کیا ہوگیا تھا۔تقدیر کیسے پلٹا کھا جاتی ہے۔کبھی وہ خود رانا برادری کے پانچ لوگوں کے ہاتھوں اغوا ہوگیا تھا اور وہ سب عمر قید بھگت رہے تھے، آج اس پر وہی الزام لگ گیا تھا کہ اس نے دو دوستوں کے ساتھ مل کر رانا خاندان کی ہی لڑٖکی اغوا کر لی تھی!خالد کو کچھ علم نہ تھا یہ سب کیا کہانی تھی۔ آخر رانا برادری نے جٹ برادری کو پھانس ہی لیا تھا۔کچھ عرصہ پہلے بنائی گئی خفیہ سازش آخر اپنا رنگ دکھا گئی تھی۔ اس سازش کا پورا پتہ چند دن بعد چلا۔ گائوں کی روایتی دشمنی میں بھی انسان کیسے ایک دوسرے پر وار کرتے ہیں۔ ہندوستان کی دو قدیم جنگجوں قوموں جٹ اور رانا کی آج کے دورمیں بھی جاری دشمنی نے اپنا رنگ دکھا دیا تھا ۔(جاری)