اسے کہتے ہیں بلی کا تھیلے سے باہر آنا۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہہ دیا کہ عمران اور قادری کے نعرے سکرپٹڈ تھے۔ اور یہ کہ دھرنوں سے جمہوریت اور ملک کو نقصان پہنچا۔ یہی باتیں حکومت بھی اب تک کہتی چلی آئی ہے۔ یاد رہے کہ کئی دیگر جماعتوں کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی بھی باضابطہ طور پر طاہر القادری کے دھرنے میں شامل تھی جس میں اس کے کئی لیڈر بھی موجود تھے' مثلاً لطیف خان کھوسہ اور منظور وٹو وغیرہ۔ ع
جناب شیخ کا نقش قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی
نہایت عاجزی کے ساتھ انہی کالموں میں یہ بات بہ تکرار کہی جاتی رہی ہے کہ دونوں بڑی پارٹیاں کبھی ایک دوسرے کے خلاف نہیں جائیں گی اورایک دوسری کے خلاف بیانات ہی تک محدود رہیں گی۔ ظاہر ہے دھرنے میں ان کی یہ شرکت پارٹی کا متفقہ فیصلہ تھا جو پارٹی کے اصولی بلکہ سیاسی موقف کے مطابق تھا کہ گونگلوئوں پر سے مٹی جھاڑتے ہوئے اپوزیشن کا ساتھ اسی حد تک دینا ہے کہ پبلک میں امیج کو بھی نقصان نہ پہنچے اور حکومت بھی باقی رہے کیونکہ تحریک کے نتیجے میں اگر الیکشن آ جاتے ہیں تواس کے لیے پارٹی تیار نہیں ہے اور سارا میلہ عمران خان لوٹ لے جائے گا چنانچہ یہی طریقہ اختیار کیا گیا کہ ع
باغباں بھی خوش رہے‘ راضی رہے صیاد بھی
پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ فائلیں اگر کھلی ہوئی ہیں تو شاہ صاحب سمیت‘ پیپلز پارٹی والوں ہی کی ہیں بلکہ موصوف کے خلاف تو کارروائی چل بھی رہی ہے۔ جبکہ پی ٹی آئی کے ہاں بھی آف شور ہی بھرا پڑا ہے‘ اس لیے اگر کہا جائے کہ یہ ایک اجتماعی اشک شوئی ہے تو غلط نہ ہو گا البتہ ساتھ ساتھ ایک گنجائش اور بھی رکھی جا رہی ہے اور پارٹی کی طرف سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ بھی ممکن ہے کہ اگلے دھرنے میں عمران خاں کے ایک طرف بلاول کا کنٹینر بھی موجود ہو۔ اور‘ جہاں تک حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا تعلق ہے تو اس کا حکومت کی صحت پر کوئی اثر بھی نہیں پڑنے والا‘ اور یہ بھی طے ہے کہ اگر ایسا وقت آیا بھی تو عمران خان بلاول کے کنٹینر کو اپنے قریب بھی پھٹکنے نہیں دے گا۔ اس لیے اگر ٹی او آرز پر اتفاق رائے نہیں ہوتا تو یہ سکرپٹ بھی ساری اپوزیشن کا مشترکہ ہو گا کیونکہ یہ سب کچھ کرپشن کے خلاف نہیں بلکہ اپنی اپنی سیاست کاری ہے کہ اگر ماشاء اللہ سبھی ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں توکہاں کے ٹی او آرز اور کہاں کا جوڈیشل
کمیشن۔ اس لیے وہ طبقے جو ٹی او آرز کے کسی منطقی انجام تک پہنچنے کی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں وہ کوئی اچھی سی چھائوں تلاش کریں اور اپنا ٹٹّو وہاں باندھیں!
خدا لگتی بات تو یہ ہے کہ حکومت اگر بری ہے تو اس لیے کہ ہم خود بُرے ہیں۔ حُکم بھی یہی ہے کہ جس طرح کے لوگ ہوں گے ان پر حکمران بھی ویسے ہی مسلط کر دیئے جاتے ہیں۔ سو ‘ یہ ہماری اپنی ہی شامت اعمال ہے۔ ہم اگر خود چور ہیں تو ہمارے لیے سادھ حکومت کہاں سے آ جائے گی یعنی جیسی روح ویسے فرشتے۔ البتہ یہ سکرپٹ اگر کہیں اور بھی لکھا چکا ہو تو الگ بات ہے یا عدلیہ ہی اگر متحرک ہو جائے تو بہت فرق پڑ سکتا ہے‘ یا نیب ہی کوئی گل کھلا دے اور کوئی خوفناک قسم کی شروعات ہونے لگ جائیں اور جس کے نتیجے میں حکومت کے لیے قائم رہنا ناممکن ہو جائے۔
اڑتی سی اک خبر ہے زبانی طیور کی‘ کہ جو سکرپٹ الگ سے لکھا جا چکا ہے وہ وزیر اعظم کو بھی پڑھا دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں صاحب موصوف نے اپنے بھارتی دوست سے مدد بھی مانگ لی ہے کہ آں حضرت سے بات کر کے انہیں سمجھایا جائے۔ وہاں سے جواب ملا کہ موجودہ حالات میں ان کی بات کیسے مانی جائے گی بلکہ وہ تو چڑ جائیں گے؛ البتہ انہوں نے اوباما سے بات کرنے کا وعدہ کیا کہ کچھ کریں لیکن وہاں سے بھی سنا ہے کہ کورا جواب ملا ہے‘ سو‘ وزیر اعظم کی بیماری ڈیپریشن بھی ہے جس کا انہیں کوئی علاج نہیں سوجھ رہا۔ ع
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
اپنا ہی ایک شعر یاد آ رہا ہے جو کہا تو کسی اور موقع کے لیے تھا۔ لیکن یہاں بھی فٹ کر کے دیکھتے ہیں ؎
بہت کچھ ہو تو سکتا ہے‘ مگر کچھ بھی نہیں ہو گا
مجھے معلوم ہے کہ اس پر اثر کچھ بھی نہیں ہو گا
اور‘اب آخر میں اوکاڑہ سے موصول ہونے والی ہمارے برخوردار اور دوست‘ مسعود احمد کی شاعری کے کچھ نمونے:
یہ پختگی جو ابھی خام ہونے والی ہے
کئی دنوں سے مرے نام ہونے والی ہے
ذرا سی دیر کو سورج نے پرنکالے تھے
ذرا سی دیر کو کیا شام ہونے والی ہے
وہ بے کلی جو مرے بام و در کی رونق تھی
وہ آج کل میں بڑی عام ہونے و الی ہے
یہ دن دکھائے ہیں کیا قدرومنزلت نے ہمیں
ہماری خاک بھی نیلام ہونے والی ہے
چراغ خود بھی ہوائوں کو چھیڑنے لگا ہے
وہ اس فساد کو جڑ سے اکھیڑنے لگا ہے
رفو گری کا ہُنر سیکھنے کے بعد بھی وہ
ہماری ذات کے بخیے ادھیڑنے لگا ہے
کسی کا ہاتھ بٹانا تو کوئی عیب نہیں
قضا کے کام وہ خود ہی نبیڑنے لگا ہے
آج کا مقطع
مزے جدائی کے لیتا ہوں اور خوش ہوںظفر
کہ وصل اپنے حساب و کتاب ہی میں نہیں