تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     23-06-2016

’’یہ ایک اور پاکستان بنانا چاہتا ہے‘‘!

تقسیم کے بعد ہندوستان کے مسلمان جس تجربے سے گزرے، اس کے نتیجے میں وہاں کے مسلمان دانشوروں میں، ''مسلمانوں کی اپنی سیاسی جماعت‘‘ کی ضرورت کا احساس پھر کروٹ لے رہا ہے۔ اس حوالے سے، گزشتہ سے پیوستہ کالم میں، دہلی کے ممتاز مسلمان دانشور ڈاکٹر بصیر احمد سے ملاقات کا مختصر احوال آپ کی نظر سے گزر چکا۔ 
جدہ میں بارہ سالہ قیام (اکتوبر 1998ء تا فروری 2010ء) متعدد حوالوں سے باعثِ خیر و برکت رہا۔ حرمین کی قربت ان میں سرفہرست تھی۔ مکہ مکرمہ، جدہ سے چالیس پینتالیس منٹ کی ڈرائیو پر تھا۔ مدینہ منورہ کو تین، ساڑھے تین گھنٹے کی مسافت پر کہہ لیں۔ جب جی مچلتا، بیقراری بڑھتی، روانہ ہو جاتے۔ اِن بارہ برسوں میں، میاں صاحب نے اپنی جلاوطنی کے پانچ سال یہاں بسر کئے۔ لاہور میں سیاسی رپورٹنگ کے باعث، ان سے یاد اللہ تو پہلے سے تھی۔ اب جدہ میں بھی ہم ایک اخباری ادارے سے وابستہ تھے۔ میاں صاحب سرور پیلس میں مقیم ہوئے تو جلد ہی اس کے دروازے ہم پر کھل گئے۔ اس کے صحافتی فوائد بھی تھے کہ کئی پس پردہ حقائق کو جاننے کا موقع ملتا۔ جدہ میں قیام کا ایک اور فائدہ یہ ہوا کہ ہندوستان سے آنے والے مسلمان زعما سے ملاقاتوں کے مواقع دستیاب ہو جاتے۔ ان سے اسلامیان ہند کے احوال جاننے کا موقع ملتا۔ کچھ باتیں آف دی ریکارڈ ہوتیں لیکن شائع کرنے کو بھی بہت کچھ بچا رہتا۔ انہی میں ایک ملاقات سید شہاب الدین سے بھی تھی۔
بہار سے تعلق رکھنے والے سید شہاب الدین نے فارن آفس میں ملازمت سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ انڈین سول سروس (آئی سی ایس) کے امتحان میں وہ پورے ہندوستان میں دوسرے نمبر پر تھے۔ اپنی ڈھب کے خاص آدمی نے سرکاری ملازمت بھی پورے دھڑلے سے کی۔ قواعد و ضوابط کی پابندی میں کسی بڑے سے بڑے سیاسی/ حکومتی دباؤ کو خاطر میں نہ لائے۔ 1975ء میں الجزائر میں سفیر تھے، 
جب وزیراعظم اندرا گاندھی نے ہندوستان میں ایمرجنسی نافذ کی۔ فارن آفس سے ہدایت آئی کہ ایمرجنسی کے جواز کے لیے اپنے ہاں رائے عامہ ہموار کرو۔ ایمرجنسی میں جماعت اسلامی ہند بھی کالعدم قرار پائی تھی۔ سید شہاب الدین نے جواب لکھا: ''میں یہاں مسلمان ملک میں ہوں۔ لوگ پوچھیں گے کہ جماعت کے خلاف یہ اقدام اس کے کسی جرم پر اٹھایا گیا؟ مجھے اس سلسلے میں حقائق ارسال کئے جائیں۔ ایمرجنسی کے ''جواز‘‘ میں جو یہ کہا گیا کہ جے پرکاش نارائن نے فوجیوں کو بغاوت پر اُکسانے کی کوشش کی، تو میں ان کے اصل الفاظ جاننا چاہوں گا‘‘۔ شہاب الدین کے اس خط کا کوئی جواب نہ آیا۔ دہلی میں یہ بات سب کے علم میں تھی کہ شہاب الدین اینٹی ایمرجنسی ہیں۔ اس سے قبل جب وہ وزارتِ خارجہ میں ڈپٹی سیکرٹری تھے‘ انتظامی معاملات میں وزیراعظم اندرا گاندھی کی حکم عدولی بھی کر چکے تھے۔ پرائم منسٹر آفس سے فارن آفس میں ایک پوسٹنگ/ ٹرانسفر کے حوالے سے ''ایڈوائس‘‘ آئی۔ انہوں نے جواب لکھ بھیجا: ''یہ میرا حق ہے، وزیراعظم کا نہیں۔ یہ اتنا چھوٹا معاملہ ہے جس میں وزیراعظم کو دخل اندازی نہیں کرنی چاہئے‘‘۔ پرائم منسٹر آفس کو احساس ہو گیا تھا کہ یہ ایسا آدمی نہیں، جو اصولوں کے خلاف سرنڈر کرے گا، بلکہ اس کے بجائے استعفے کو ترجیح دے گا۔ روز روز کی بک بک جھک جھک سے خود ان کا دل بھی سرکاری ملازمت سے بھر گیا تھا؛ چنانچہ ادھر بیس سال پورے ہوئے، ادھر ریٹائرمنٹ کی گنجائش کے نئے قانون سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ریٹائرمنٹ کے لیے لکھ بھیجا۔ کچھ عرصہ بعد جنتا پارٹی کے ٹکٹ پر راجیہ سبھا کے رکن منتخب ہوگئے۔ (یہ وزیراعظم مرار جی ڈیسائی، سردار چرن سنگھ اور چندر شیکھر کی جنتا پارٹی تھی) 1985ء میں لوک سبھا کے رکن منتخب ہوئے۔ اب وہ ہندوستان کی سیاست میں قدآور مسلمان رہنما تھے‘ جو پانچ سال تک جنتا پارٹی میں سیکرٹری جنرل کے عہدے پر فائز رہے۔ 
جدّے کی اس ملاقات میں انہوں نے ہمیں ''مسلم انڈیا‘‘ کے نام سے اپنا رسالہ بھی دیا جو وہ گزشتہ 18 سال سے نکال رہے تھے۔ ہم نے عرض کیا: انڈیا کے استحکام کے لیے سیکولرازم اور جمہوریت، دو بنیادی ستون ہیں اور وہاں کی اقلیتوں کا بھی یہی تقاضا ہے کہ انڈیا حقیقی معنوںمیں سیکولر ہو۔ اگر ''ہندو انڈیا‘‘، ''کرسچین انڈیا‘‘ وغیرہ نہیں تو ''مسلم انڈیا‘‘ کیوں؟ سید شہاب الدین کا جواب تھا: ''میں نے پہلے شمارے میں بھی یہ بات لکھی تھی کہ ہندوستان ایک برصغیر ہے۔ اس کا سماج بٹا ہوا ہے۔ میں نے اس کے لیے انگریزی کا لفظ استعمال کیا تھا Segmented، میں نے Fractured نہیں لکھا تھا۔ انڈیا ملٹی ریلیجس ہے، ملٹی لنگواسٹک ہے، ملٹی کاسٹ ہے، ملٹی ریشیل ہے۔ یہ سارے ہندوستان اپنے اپنے ''شیل‘‘ میں رہتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ باہم انٹرایکٹ بھی کرتے ہیں۔ یہاں ایک مسلم انڈیا ہے، سکھ انڈیا، کرسچین انڈیا، برہمن انڈیا، راجپوت انڈیا، شودر انڈیا۔ پھر ایک مدراسی انڈیا ہے، بنگالی انڈیا ہے، مراٹھی انڈیا ہے، تامل انڈیا ہے۔ ہندوستان کا استحکام اور ترقی اسی میں ہے کہ سب کے تشخص کو مانا جائے، سب کو ان کا حق دیا جائے‘‘۔ 
صاحب دانش مسلمان رہنما کہہ رہے تھے: ''جہاں تک ہمارا (مسلمانوں کا) تعلق ہے‘ 1947ء کے بعد 25 سال تک ہم سوئے رہے۔ 1971ء (سانحہ مشرقی پاکستان) میں ہم جاگے۔ یہ ہندوستانی مسلمانوں کے نفسیاتی ارتقا میں ایک سنگ میل تھا۔ اس کے بعد ہم نے خود کو منوانا (Assert کرنا) شروع کیا، جب ہم نے خود کو ''تقسیم‘‘ کے ''احساسِ جرم‘‘ (Guilt Complex) سے مبرا کر لیا۔ یہ ہم پر اس حد تک چھایا ہوا تھا کہ ہمارے سامنے سوائے درباداری کے، اور کوئی راستہ نہ تھا۔ ہم گھر میں روتے تھے اور باہر ''جے جے کار‘‘ کرتے تھے۔ اور یہ لگتا تھا کہ ہمیں جو مل رہا ہے، غنیمت ہے۔ یہ ہندو کا فیض ہے کہ ہمیں مل رہا ہے۔ ورنہ یہ ہمارا حق تھوڑی ہے۔ ہم نے تو جو مانگا (پاکستان)، وہ مل گیا‘‘۔ 
''مسلم انڈین‘‘ اس وقت کن مسائل کا شکار ہے؟
''بنیادی سوال اس وقت ہمارے سامنے، اپنے تشخص کے تحفظ کا ہے، اسلامی تشخص کے دفاع کا ہے۔ ہندوستان کی یہ خصوصیت رہی ہے کہ اس نے کئی مذاہب کو، کئی نظریات و افکار کو ضم کر لیا۔ ہندوازم کی بھی یہ خاصیت رہی ہے اور آج بھی ہمارے ہندو احباب یہ کہتے ہیں کہ بھئی! ہم میں اور تم میں فرق کیا ہے؟ تم بھی ہندو ہو۔ فرق صرف اتنا ہے کہ تم محمدی ہندو ہو، عیسائیت کو ماننے والا عیسائی ہندو ہے۔ سِکھ داڑھی والا ہندو ہے‘‘۔ شہاب الدین نے اپنی بات جاری رکھی: ''یہ سوچ ہمارے مسلم تشخص کے لیے ''موت کا بوسہ‘‘ ہے۔ میں ایک بنیادی بات کہتا ہوں۔ پاکستان پاکستانیوں نے نہیں بنایا۔ پاکستان ہم (ہندوستانی مسلمانوں) نے بنایا۔ صرف اس خطرے کو سامنے رکھ کر کہ ہماری تہذیب خطرے میں ہے۔ ہمارے رسوم و رواج اور ثقافت خطرے میں ہے۔ اسی سے اس تحریک میں حدت اور شدت، جوش اور خروش پیدا ہوا جس نے مسلم لیگ کو ہندوستانی مسلمانوں کی نمائندہ جماعت بنا دیا۔ 1945-46ء کے الیکشن میں مسلم لیگ کو مسلم اکثریتی صوبوں پنجاب اور بنگال میں کامیابی نہیں ملی تھی۔ اس کی 95 فیصد مسلم نشستیں یہاں سے تھیں، جو آج ہندوستان ہے۔ اس لیے میں ایک بار پھر یہ کہتا ہوں کہ آج ہندوستانی مسلمانوں کے سامنے سب سے بڑا سوال اپنے مذہبی تشخص کے تحفظ کا ہے۔ ہمارے اقتصاد کے مسائل، تعلیم اور ملازمتوں کے مسائل بھی اسی سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہم مطالبات کرتے ہیں۔ سیاسی پارٹیاں ہم سے وعدے وعید کرتی ہیں لیکن اگر اقتدار میں ہماری شرکت نہ ہو تو ظاہر ہے، سیاسی جماعتیں اقتدار میں آنے کے بعد سارے وعدے وعید بھول جاتی ہیں؛ چنانچہ مسائل کے حل کے لیے اقتدار میں شرکت بھی ضروری ہے۔ جس کے لیے لفظ ہے ''ایمپاورمنٹ‘‘۔ میں نے ایک کنونشن بلایا، ایک سکیم بنائی Movement for the Empowerment of Muslim Indians جس کا مخفف ہے ''مومن‘‘۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ہم جہاں جہاں محروم ہیں، اس میں ہماری ''ایمپاورمنٹ‘‘ ہونی چاہیے۔ پارلیمنٹ یا اسمبلیوں میں ہماری نمائندگی کم ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پارٹیاں مسلمانوں کو اتنی تعداد میں ٹکٹ نہیں دیتیں، جو ان کا حق ہے، اور اس لیے نہیں دیتیں کہ وہ مسلمان امیدوار کو ہندو ووٹ ڈلوانے میں کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ ہم مخلوط طریق انتخاب کے خلاف نہیں‘ لیکن جس طرح ہمارے شیڈولڈ کاسٹ کے لیے، شیڈولڈ ٹرائبس کے لیے جگہیں مخصوص ہیں، ویسے ہی مسلمانوں کے لیے بھی آبادی کے لحاظ سے جگہیں مخصوص کی جائیں، اس پر ہنگامہ ہو گیا کہ یہ تو ایک اور پاکستان بنانا چاہتا ہے‘‘۔
سید شہاب الدین کا کہنا تھا: آج میں کسی جماعت میں نہیں، لیکن یہ کوشش ضرور کرتا ہوں کہ مسلمانوں کی جو جماعتیں ہمارے ہاں کام کر رہی ہیں، مثلاً جمعیت علماء، جماعت اسلامی، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ، مجلس مشاورت، ملی کونسل، یہ ساری جماعتیں کسی موڑ پر، کسی مرحلے پر یک جا ہو جائیں اور مسلمانوں کے لیے متحدہ پیغام دیں۔ ہو سکتا ہے، اس سے پھر ایسی راہیں نکلیں کہ مسلمان کسی ایک سیاسی پلیٹ فارم پر جمع ہو جائیں۔ سید شہاب الدین لمحہ بھر کو رُکے، انہیں احساس تھا ''اگرچہ یہ کام ایسا آسان نہیں، لیکن اس کے بغیر کوئی اور چارہ کار بھی نہیں‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved