پاکستان کے وزیر دفاع و پانی و بجلی خواجہ محمد آصف نے قومی اسمبلی کے ایوان میں تحریک انصاف کی خاتون رکن شیریں مزاری صاحبہ کو ٹریکٹر ٹرالی کیا کہا کہ ایک طوفان مچ گیا،جس کا سلسلہ ابھی تک تھمنے میں نہیں آ رہا اور اب شیریں مزاری صاحبہ نے خواجہ آصف کو دس کروڑ روپے ہرجانے کا قانونی نوٹس یہ کہتے ہوئے بھجوایا ہے : ان الفاظ سے میری توہین ہوئی ہے، خواجہ آصف مجھ سے با قاعدہ معافی مانگیں، ورنہ توہین آمیز الفاظ کہنے پر قانونی کارروائی کا سامنا کرنا ہو گا۔ میرا خیال ہے کہ شیریں مزاری کا یہ نوٹس کسی طور بھی منا سب نہیں تھا کیونکہ اس سے یہ معاملہ بجائے رکنے کے اور آگے بڑھے گا، جس سے مزید جگ ہنسائی ہو سکتی ہے ۔ شیریں مزاری صاحبہ سے تو محترمہ ماروی میمن زیا دہ سمجھ دار نکلیں کہ جس دن خواجہ صاحب نے ٹریکٹر ٹرالی والا یہ فقرہ کسا تھا، اسی دن قومی اسمبلی کے ایوان سے ماروی میمن باہر نکل رہی تھیں تو نواز لیگ کی ہی ایک خاتون رکن اسمبلی، جو مشرف لیگ سے آنے کے باوجود ماروی میمن کو یک دم مرکزی وزیر کے برابر اہم ترین عہدہ ملنے پر سخت غصے میں ہیں، نے آوازہ کسا لیکن وہ طرح دے کر نکل گئیں۔ اگر ماروی اس پر احتجاج کرتیں تو معاملہ میڈیا میں آنے سے زیادہ خراب ہو جانا تھا۔۔۔اس سے یہ ہونا تھا کہ ٹریکٹر ٹرالی اور کھوتی ریڑھی کی گردان ہر طرف پھیل جانی تھی ا ورنتیجہ یہ نکلنا تھا کہ دونوں جانب کی خواتین ارکان اسمبلی، چاہے وہ مرکز کی ہوں یا صوبے کی، کو دونوں جانب سے ا سی قسم کے توہین آمیز فقرے سنناپڑتے ۔
جب پانی و بجلی کے وفاقی وزیر نے یہ فقرہ کسا تو بھلا ان کے چھوٹے وزیر عابد شیر علی کیسے پیچھے رہ سکتے تھے۔ عابد شیرعلی نے بھی فیصل آباد میں سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان، رئیسانی کی نقل کرتے ہوئے جلتی پر تیل ڈالتے ہوئے کہاــ: '' ٹریکٹر ٹریکٹر ہوتا ہے اور ٹرالی ٹرالی ہوتی ہے چاہے ایوان کے اند رہو یا باہر‘‘۔ کیا یہ کسی ملک کے وفاقی وزراء کی زبان ہو سکتی ہے؟بجلی کی چوری تو آپ سے رک نہیں رہی۔ ماہ مئی کے بجلی کے جو بل عوام کو جون میں موصول ہو رہے ہیں، انہوں نے میرے جیسے لوگوں کی چیخیں نکال کر رکھ دی ہیں۔۔۔۔غضب خدا کا33 ہزار روپے کا بل کس کھاتے میں میرے جیسے عام آدمی کو بھیج دیا گیا، اور ایک دیہاڑی دار مزدور کے ڈیڑھ کمرے کے گھر کا بل9 ہزار روپے کس طرح ہو گیا، جہاں صرف ایک پنکھا اور دو بلب ہیں۔ خواتین کی تضحیک کی بجائے مناسب ہو گا کہ خدا کا خوف کرتے ہوئے اپنا اور اپنے محکمے کا قبلہ درست کریں۔
دو سال ہوئے 24 جولائی2015 ء کی شام فیصل آباد میں مسلم لیگ نواز کی ایک بڑی ریلی نکالی گئی جس میں ہزاروں کارکنوں سمیت عورتوں، بچوں کی کثیر تعداد شریک تھی۔ اس ریلی سے خطاب میں مسلم لیگ کے قومی اور صوبائی وزراء سمیت ارکان قومی اسمبلی اپنی دھواں دھار تقریروں میں عمران خان کے ڈی چوک پر دیئے گئے دھرنے کا سخت ترین زبان میں جواب دے رہے تھے۔ رانا ثنا اﷲ وزیر قانون کی تقریر کے بعد جڑانوالہ سے نواز لیگ کے رکن پارلیمنٹ اور میڈیا سیل کے رکن طلال چوہدری نے عمران خان کی جانب سے وزیر اعظم کے استعفیٰ کی بات کرتے ہوئے ہاتھوں سے جو اشارے کیے گئے وہ اس ریلی میں شریک لیگی خواتین کے علا وہ مذکورہ رکن اسمبلی کے خاندان والوں سمیت ملک بھر میں ٹیلیویژن چینلز کے سامنے بیٹھے ہوئے مردو خواتین اوربچوں نے ضرور دیکھے ہوں گے۔
اخبارات اور ٹی وی پر جب بھی کسی پروگرام یا ڈرامہ میں سگریٹ پیتے ہوئے کوئی منظر یا اشتہار دکھایا جاتا ہے تو ساتھ ہی نیچے ایک وارننگ لکھی ہوئی دیکھنے کو ملتی ہے کہ سگریٹ نوشی صحت کیلئے انتہائی نقصان دہ ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا ٹیلی وژن سکرین پر اس قسم کی فحش اشارہ بازیاں اور گالی گلوچ معصوم ذہنوں کیلئے
خطرناک ثابت نہیں ہورہے؟ یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ ٹی وی چینلز کے پروگرام ملک کے ہر طبقہ فکر کی خواتین اور بچے اپنے گھروں میں بیٹھ کردیکھتے ہیں۔دو تین سال ہوئے ایک نجی چینل کے پروگرام میں پنجاب کی حکمران جماعت کے راولپنڈی سے سابق رکن قومی اسمبلی نے ایک سینئر صحافی کو الٹا لٹکانے کی دھمکی دیتے ہوئے اس کے گھر کی خواتین کے بارے میں بھی اسی طرح کی زبان استعمال کی جسے بلا شبہ لاکھوں لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور سنا ہو گا۔اس وقت پروگرام میں شریک سابق وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات صمصام بخاری نے پروگرام کے اینکر سے ہاتھ جوڑ کر درخواست کی تھی کہ اس طرح کے لب ولہجہ اختیار کرنے والوں کے ساتھ آئندہ انہیں پروگرام میں مدعو نہ کیا جائے ۔ اس سے نہ تو حکمران جماعت کے ان ارکان کا کچھ بگڑا نہ ان کے خاندان کے کسی فرد کا نام سامنے آیا بلکہ نشانہ سیا سی لیڈران کا خاندان ہی بنا۔ کیا کوئی ایسے لوگوں کی ذہنی پستی کو پسند کرے گا ؟ میاں نواز شریف، آصف زرداری، عمران خان، مولانا فضل الرحمان اور طاہر القادری سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان سے گزارش ہے کہ وہ اپنی اپنی عزت اس طرح کے حامیوںکے
ہاتھوں سر بازار رسوا ہونے سے بچائیں۔ نظر آ رہا ہے کہ ملک میں1988 ء کی طرز ِ سیا ست کا دوبارہ آغاز ہو نے جا رہا ہے اور یہ سلسلہ جلسوں اور ٹی وی کے ٹاک شوز کے بعد اب سوشل میڈیا پر ذہنی پستی کی اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ کسی کی عزت سلامت اور محفوظ نظر نہیں آ رہی۔ تمباکو اور سگریٹ کے دھویں کے مضمرات کے بارے میں اشتہارات کے ذریعے محکمہ صحت کی جانب سے کروڑ ہا روپے یہ بتاتے ہوئے خرچ کیے جا رہے ہیں کہ سگریٹ کا دھواں ساتھ بیٹھے ہوئے لوگوں کی صحت کیلئے بھی سخت نقصان دہ ہے بلکہ اسے دل کی بیماریوں اور کینسر جیسے موذی اور جان لیوا مرض کا باعث کہا جا تا ہے۔ اگر سگریٹ اور اس کا دھواں کینسر کا باعث بنتا ہے تو جب معصوم بچے اور خواتین گھروں میں ٹی وی کے سامنے بیٹھے ہوئے اس طرح کی باتیں اور فحش اشارے دیکھیں اور سنیں گے تو اندازہ کیجئے کہ معصوم ذہنوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ۔ سیاستدان اور قومی صوبائی اسمبلی کے اراکین ووٹ دینے والی غریب عوام کا بھلا کرنے کی بجائے غلیظ زبان استعمال کرتے ہوئے اس قوم کے بچوں کے مستقبل سے کھیل رہے ہیں یہ کیسے لوگ ہیں جو ٹی وی چینلز اور جلسوں، ریلوں اور میڈیا سے گفتگو کے دوران جو منہ میں آتا ہے بولے جاتے ہیں اور کوئی انہیں سمجھانے والا نہیں، کوئی انہیں روکنے والا نہیں۔ کیا ذہنی اور اخلاقی پستی میں گھرے ہوئے گمراہ قسم کے لوگ گلیوں، بازاروں اور تھڑوں کے بعدہر گھر میں ٹریکٹر ٹرالی اور کھوتی ریڑھی کی گردان پھیلانا چاہتے ہیں؟