تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     24-06-2016

پیار کا پیاسا

امن‘ سوز‘ درد‘ نغمگی اور میٹھے سروں کی آخری نشانی امجد صابری کو کراچی والو ں نے پُرسکون موت سے بھی ہمکنار نہ ہونے دیا۔ خدا جانے کس منحوس بلا کا سایہ اس خوبصورت اور صاف ستھرے شہر پر مسلط ہو گیا تھا کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا؟ امن اور محبت کے‘ دین کے نام پر ایسی ایسی نفرتیں پھیلائی گئیں کہ اب انسانیت کی تو جھلک بھی دیکھنے کو نہیں ملتی۔ نفرت کے وحشی سوداگروں نے کراچی میں پہلے ہی کیا چھوڑا تھا‘ جو اس آخری معصوم کو بھی اس کے خون میں نہلا کر رخصت کر دیا؟ کتنے مہذب‘ شائستہ اور محبت سے بھرے لوگ تھے کراچی کے رہنے والے اور اب وہاں نفرت کا زہر لے کر تیسری نسل جوان ہو رہی ہے۔ شاید مائیں ایسے بچے جننا ہی ترک کر چکی ہیں‘ جو اس دنیا میں شائستگی‘ ادب‘ فن‘ موسیقی‘ مصوری اور رقص و نغمہ کے پھول کھلانے آتے اور شہر کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کر دیتے۔ جس شخص نے پاکستان کی تہذیب اور کلچر کے باغ کو اجاڑا ہے‘ وہی تھا جس نے غلام فرید صابری اور مقبول صابری کی جوڑی کو سرکاری سرپرستی سے نوازا تھا۔ درویش بھائیوں کی یہ جوڑی‘ قوالی کی صوفیانہ روایت کی وارث تھی۔ جنرل ضیاالحق ان دونوں سے اتنا متاثر ہوئے کہ بیشتر سرکاری تقریبات میں انہیں اپنے فن کے مظاہرے کے مواقع دیا کرتے۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر ہر وقت ان کی قوالیاں گونجتیں‘ اور انہیں وی آئی پی کا درجہ حاصل ہو گیا تھا۔ لیکن یہ دونوں ہی درویش منش تھے۔ درویشی کی اسی روایت کو امجد صابری نے آگے بڑھایا۔ دولت غلام فرید اور مقبول صابری پر مہربان تھی‘ اور قسمت امجد پر بھی مہربان رہی۔ امجد زندگی سے بھرپور شخص تھا۔ محفلوں میں شرکت کا شوقین۔ شاید ہی کوئی چینل اس کے فنی مظاہروں سے محروم رہا ہو۔ وہی والدین والی بزرگی امجد کو ورثے میں ملی۔ اسے دنیا بھر میں قدر و محبت کی نظر سے دیکھا جاتا اور جہاں بھی جاتا‘ ڈالروں اور پونڈز سے لدا ہوا گھر لوٹتا۔ بارہ سال کی عمر میں اس نے قوالی شروع کی اور 45 سال کی جواں عمری میں ہی بے رحم درندوں نے زندگی کو امجد صابری سے محروم کر دیا۔ اس کے آخری الفاظ تھے ''مجھے کیوں مارتے ہو؟ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں‘‘ لیکن وحشیوں اور درندوں کا کوئی باپ نہیں ہوتا۔ ان کی مائیں 
بھی نہیں ہوتیں۔ ورنہ ماں کے پیٹ سے جنم لینے والے‘ دوسری مائوں کے بیٹوں کو ہلاک نہیں کیا کرتے۔ بہت سے کراچی والوں نے دو تین نسلیں ماں باپ کے بغیر پیدا کیں۔ مگر ان دو لاوارث نسلوں نے اس شہر کی ساری تہذیبی‘ علمی اور اخلاقی فصلوں کو اجاڑ کے رکھ دیا۔ اجڑے کھیتوں کی انسانی فصلیں‘ شہر کی خوبصورتی کو مسخ کرتے کرتے یہاں تک لے آئیں کہ معصوم اور نغمگی میں ڈوبا ہوا امجدصابری‘ جس نے انسانی روحوں کو موسیقی کی غذا مہیا کی‘ اس کی زندگی کے آخری لمحوں کو بدصورت اور بدنما کر کے سفر آخرت پر روانہ کیا۔ سب سے پہلے اس کی زندگی کے آخری چند ایام کو سیاسی تنازغات سے لاد کر‘ بوجھل کیا۔ امجد ایک مست ملنگ آدمی تھا۔ گروہ بندی‘ سیاست بازی‘ عیاریوں اور چالاکیوں سے ہمیشہ دور رہا۔ وہ تمام فرقوں‘ سیاسی جماعتوں اور متصادم گروہوں سے دور رہا۔ وہ سب کا پیارا تھا اور سب کو پیار کرتا تھا۔ اس کی بدنصیبی کہ ایک سیاسی گروہ نے اسے موت کے بعد متنازعہ بنا دیا۔ باہم متصادم گروہوں نے اسے اپنی سیاست کا فٹ بال بنا کر‘ پے در پے ٹھوکریں لگائیں۔ کسی نے کہا کہ اسے مخالف سیاسی گروپ نے ٹیلی فون کیا تھا کہ وہ اس میں شامل ہو جائے۔ مقصد محض یہ تھا کہ امجد کے قتل 
کی ذمہ داری مخالف گروہ پر ڈال دی جائے۔ اس کے ہر وقت ساتھ رہنے والے دوستوں نے متعدد تردیدیں کیں‘ لیکن بے رحم سیاست نے اس بیہودہ الزام کی تکرار جاری رکھی۔ آخر میں امجد کے بھائی نے پُرزور وضاحت کے ساتھ بیان دیا کہ میرے بھائی کو کسی سیاسی گروپ کا فون نہیں آیا تھا۔ کچھ لوگوں کو شک ہے کہ امجد کو قتل کرنے والا وہی سیاسی گروپ ہے‘ جس نے اسے اپنے ساتھ شامل ہونے کی دعوت دی اور امجد نے یہ دعوت قبول نہیں کی۔ جس پر مذکورہ سیاسی گروہ نے اسے قتل کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ امجد کے قتل میں کوئی سیاسی وجہ کارفرما نہیں۔ اگر اس کے قتل کی مناسب تفتیش ہو گئی‘ تو جلد ہی پتہ چل جائے گا کہ یہ قتل غیرسیاسی ہے‘ اور اگر کراچی کے عام جرائم کی طرح امجد کے قتل کو بھی وقت کے گرد و غبار میں اوجھل ہونے کے لئے چھوڑ دیا گیا‘ تو امجد کی موت کا حال بھی حکیم محمد سعید جیسی انسان دوست شخصیت کی طرح بھلا دیا جائے گا۔ نغمگی سے بھرپور قوالیاں گانے والے اس فنکار کو آخری صدمہ اس وقت پہنچا‘ جب جنازہ اٹھانے کے لئے خاندان والوں کے مابین جھگڑا کھڑا ہو گیا۔ یہ دنیا سے آخری بار رخصت ہوتے ہوئے امجد کے جس خاکی کے ساتھ ہونے والے ''حسن سلوک‘‘ کا ایک مظاہرہ تھا۔ وہ اوائل شباب میں ہی ایک آسودہ حال شخص بن گیا تھا۔ روایت یہ ہے کہ پیسہ ہاتھ آ جائے تو بندہ سب سے پہلے جدید کالونی میں نیا گھر بنا کر متوسط طبقے کی آبادی سے نکل جاتا ہے‘ لیکن محبت کا مارا امجد‘ سب کچھ مل جانے کے بعد بھی لیاقت آباد کو چھوڑ کر نہیں گیا۔ آخری سانس بھی اسی محلے میں لی۔ مگر جن اپنوں کی خاطر وہ پرانے گھر اور پرانے محلے سے نہیں نکلا‘ وہ اس کی میت پر بھی لڑنے سے باز نہ آئے۔ سروں کا جادو جگانے والے کو زندگی کے آخری لمحے بھی بے سُرے نصیب ہوئے۔ اس نے پیار بانٹا اور خود پیار کا پیاسا چلا گیا۔ موت گولیوں سے ملی اور تدفین تنازعے میں ہوئی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved