تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     24-06-2016

فضا سے عرش تک کے نظارے

اللہ تعالیٰ نے سورۃ ''الذاریات‘‘ میں پہلے فضا کا ذکر فرمایا ہے اور پھر خلا کی بات کی ہے۔ زمین کے اردگرد ہوا کا غلاف ہے۔ اسی سے زمین پر زندگی رواں دواں ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ اڑانے والی ہوائوں کی قسم کھا کر سورت کا آغاز فرماتے ہیں۔ جی ہاں! یہ ہوائیں ہی ہیں جو پرندوں وغیرہ کو اڑائے پھرتی ہیں اور ہمارے دور میں جہازوں کو اڑائے پھرتی ہیں۔ اگلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان ہوائوں کی قسم کھائی ہے جو پانی سے بوجھل بادلوں کو اٹھائے پھرتی ہیں، فضا میں ان کو لئے پھرتی ہیں اور پھر جہاں جہاں بارش مقصود ہوتی ہے وہاں بارش کو برسانے کا سبب بنتی ہیں۔ یہ سارا کچھ ''ہوائی کرّے‘‘ میں ہوتا ہے، فضا میں ہوتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ خلاء کا رخ کرتے ہوئے ایک زبردست انکشاف فرماتے ہیں، ایسا انکشاف کہ جو آج کے دور میں ہوا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں!
موجودہ دور میں نظریاتی طبیعات کا سب سے بڑا سائنسدان ''سٹیفن ہاکنگ‘‘ ہے۔ انہیں آئن سٹائن کا جانشین تسلیم کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کچھ عرصہ پہلے ایک کتاب لکھی اس کا نام ہے "The Universe in a Nutshell" یعنی یہ کائنات ایک خول میں بند ہے۔ سٹیفن ہاکنگ نے اس کتاب کے صفحہ سات، اٹھارہ اور بیس پر خلاء کا تذکرہ کیا ہے۔ خلاء وہ مقام ہے جو ہوائی کرّے یا فضاء کے بعد ہے، یہاں ہوا موجود نہیں ہے۔ زمین کی کشش بھی ختم ہو جاتی ہے۔ سٹیفن ہاکنگ نے مندرجہ بالا صفحات پر جالیاں بنا کر سائنسی حقائق سے ثابت کیا ہے کہ خلائی آسمان جالی دار ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جو اب جدید سائنس میں تمام سائنسدانوں کے ہاں مسلمہ حقیقت ہے۔ جناب سٹیفن ہاکنگ اپنے اور کائنات کے خالق کو ماننے میں تذبذب کا شکار ہیں مگر یہ کیسا حسین اتفاق ہے کہ وہ اپنی کتاب کے آغاز ہی میں صفحہ سات پر خلاء کی پہلی جالی بناتے ہیں کہ سورج بھی خلاء کی اسی جالی پر اپنی منزل کو رواں دواں ہے اور اس کے گرد ہماری زمین بھی خلاء میں اسی جالی پر ہی سورج کے گرد گھوم رہی ہے جبکہ آج سے چودہ سو پچاس سال قبل نازل ہونے والے قرآن کی سورۃ ''الذاریات‘‘ کی آیت سات میں اللہ تعالیٰ نے ایک قسم کھائی، فرمایا! ''وَالسَّمَآئِ ذَاتِ الْحُبُکْ‘‘ قسم ہے مجھے مضبوطی سے بُنے ہوئے جالی دار آسمان کی۔ ''اَلْحُبُکْ‘‘ جمع ہے۔ اس کا واحد ''حَبِیْکَۃٌ‘‘ ہے۔ اس کے معنی ہیں، کسی چیز کو باندھنا، مضبوط بنانا، مضبوطی اور خوبصورتی کے ساتھ کپڑے کی بنائی کرنا یعنی یہ آسمان میں جس جالی کی بنتی کی گئی ہے وہ بڑی مضبوط ہے، باہم بندھی ہوئی ہے اور بُنتی انتہائی خوبصورت ہے۔ 
مکہ میں نازل ہونے والی اس سورت کی مندرجہ بالا آیت نمبر سات نے واضح کر دیا کہ یہ قرآن جس ہستی نے نازل فرمایا ہے وہ کائنات کا خالق ہے اور جس ہستی پر یعنی حضرت محمدکریمؐ کی پاک ذات پر یہ کتاب نازل ہوئی ہے وہ اللہ کے سچے اور آخری رسول گرامی ہیں۔ اگلی ہی آیت یعنی آیت نمبر آٹھ میں شک میں پڑے لوگوں کو اللہ تعالیٰ مخاطب کرتے ہیں! ''بے شک تم اختلاف والی بات میں مبتلا ہو‘‘ یعنی کبھی کہتے ہو کہ کائنات کے خالق کا امکان ہو سکتا ہے کبھی کہتے ہو، یہ کائنات خودبخود ہی چل رہی ہے۔ پھر کہتے ہو، قیامت ضرور آئے گی اور کبھی کہتے ہو کہ دنیا یونہی چلتی رہے گی یعنی تم اپنی بات کے اندر ہی شک میں پڑے ہوئے ہو۔ سٹیفن ہاکنگ جیسے سائنسدانوں کا یہی حال ہے اور آج بھی ان کی معروف کتاب "The Grand Design" میں اسی طرح کی متذبذب باتیں ہیں۔ میں کہتا ہوں جس اللہ نے ساڑھے چودہ سو سال قبل آسمان کے خلاء کی حقیقت بیان کرنے کے بعد سٹیفن ہاکنگ جیسے انسانوں کے دل کی کیفیت کو بیان فرمایا ہے۔ اس اللہ، اس کے قرآن اور اس کے رسولؐ کو مانے بغیر اب کیا چارہ رہ جاتا ہے؟ مگر بات قسمت کی ہے۔ قارئین کرام! اب آیئے! اس جالی دار خلائی آسمان کی کیفیت ملاحظہ کریں کہ جس کے بارے میں اس عظیم ہستی نے ہمیں آگاہ فرمایا ہے کہ جن کی زبان مبارک پر اللہ کی مرضی کے بغیر کوئی جملہ ادا ہوتا ہی نہیں۔ آپؐ فرماتے ہیں! میرے صحابیو! میں وہ کچھ دیکھتا ہوں جو تمہیں دکھائی نہیں دیتا۔ میں وہ کچھ سنتا ہوں جو تم لوگوں کو سنائی نہیں دیتا۔ ''سنو! آسمان چرچراتا ہے اور وہ چرچرائے نا تو کیا کرے؟ صورتحال یہ ہے کہ اس آسمان میں چار انگلیوں جتنی جگہ بھی خالی نہیں کہ جہاں کوئی فرشتہ اپنی پیشانی رکھے اللہ کے حضور سجدہ ریز نہ ہو۔‘‘ (ابن ماجہ: 4190 حسن)
قارئین کرام! ثابت ہوا اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے اور آخری رسولؐ کو جالی دار آسمان دکھا بھی دیا۔ اس پر فرشتوں کو سجدے کی حالت میں پڑے بھی دکھا دیا اور آسمان کے چرچرانے کی آواز کو بھی سنوا دیا۔ ہمارے مکانوں پر جب سادہ چھتیں ڈالی جاتی تھیں تو سرکنڈے کی بُنتی کر کے ان کو ڈالا جاتا تھا پھر اس کے اوپر بنتی کی ہوئی سرکیاںڈالی جاتی تھیں، اوپر مٹی ڈال کر لپائی کر دی جاتی تھی، اس چھت پر جب کوئی وزنی آدمی چڑھ جاتا تھا تو کمرے میں بیٹھا آدمی چھت کے چرچرانے کی آواز سنتا تھا۔ یہی آواز چرچرانے کی آواز ہے۔ اس جیسی آواز آسمان کے خلاء کی جالی دار چھت سے آتی ہے کیونکہ اس چھت کی کوئی جگہ خالی نہیں جہاں کوئی فرشتہ اپنے رب کے حضور سجدہ ریز نہیں ہے۔ طبرانی کبیر میں حسن سند کے ساتھ جو حدیث ہے اس میں آپﷺ واضح طور پر بتلاتے ہیں کہ میں آسمان کے چرچرانے کی آواز سن رہا ہوں۔ ''سورۃ الصّافات‘‘ میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کا قول نقل فرمایا ہے وہ کہتے ہیں ہم میں سے ہر ایک کی عبادت کا مقام متعین ہے۔ ہم سب صفیں بنائے ہوئے ہیں اور ہم سب سبحان اللہ کا ورد کر رہے ہیں۔‘‘ طبرانی ہی کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ ساتوں آسمانوں میں کوئی جگہ خالی نہیں جہاں فرشتے قیام، رکوع اور سجدے میں نہ پڑے ہوں۔ قارئین! آیئے، اب ساتوں آسمانوں کے اوپر کا نظارہ کرتے ہیں!ساتوں آسمانوں کے اوپر اللہ تعالیٰ کا عرش ہے۔ قرآن نے بتلایا ہے کہ اللہ کے عرش کو آٹھ فرشتوں نے اٹھا رکھا ہے۔ ان فرشتوں کو قرآنی اصطلاح میں ''حَمَلَۃُ الْعَرْش‘‘ کہا جاتا ہے۔ ان آٹھ میں سے دو فرشتوں کی عظمت کے بارے میں اللہ کے رسولﷺ نے بتلایا کہ ''ایک فرشتے کے کان کی کونپل سے لیکر کندھے تک کا جو رقبہ ہے وہ سات سو سال کی مسافت پر مبنی ہے۔‘‘ (ابودائود: صحیح)
دوسرے فرشتے کے بارے میں فرمایا ''اس کے دونوں پائوں ساتویں زمین پر ہیں جبکہ عرش اس کے کندھے پر ہے اور وہ (اللہ کی تسبیح) اس طرح کر رہا ہے: (اے اللہ!) آپ جہاں تھے اور جہاں (جس جلالتِ شان) میں ہوں گے پاک ہیں۔ (مسند ابی یعلیٰ:6588صحیح)جی ہاں! عرش تو اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے۔ اپنے اس عرش کے اوپر اللہ تعالیٰ کس جلالی شان میں ہیں اس بے چارے فرشتے کو بھی معلوم نہیں جس کی اپنی جسامت اتنی بڑی ہے کہ کان کی کونپل سے کندھے تک کا فاصلہ کھربوں نوری سال میں طے ہو۔
قارئین کرام! حضرت جبریل علیہ السلام ان سب فرشتوں کے سردار ہیں۔ اللہ کے رسولﷺ نے ان کو اصلی حالت میں دوبار دیکھا ہے۔ ایک بار مکہ میں کہ جب حضورﷺ نے آنکھ اٹھا کر آسمان کی جانب دیکھا تو سارا آسمان ان کے وجود سے بھرا پڑا تھا۔ دوسری بار ساتویں آسمان سے اوپر سدرۃ المنتہیٰ کے پاس کہ جب انہوں نے چھ سو پَر پھیلائے تو نور اور نورانی ہیرے، یاقوت اور موتی ان کے وجود سے جھڑ رہے تھے۔ وہیں آپﷺ کو ''بیت المعمور‘‘ دکھلایا گیا۔ آپﷺ نے فرمایا! اس میں روزانہ ستر ہزار فرشتے عبادت کر کے نکلتے ہیں۔ جو جماعت عبادت کر کے نکل گئی پھر اس کی باری نہیں آئے گی۔ (بخاری و مسلم) جی ہاں! ان سب کے سردار حضرت جبریل علیہ السلام ہیں، ان کی اہم ترین ڈیوٹی حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت محمد کریمﷺ تک رسالت کی پیغام رسانی تھا۔ ہمارے حضورﷺ کے اس دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد حضرت جبریلؑ کی آمد بھی موقوف ہو گئی تاہم سال میں ایک رات ان کی آمدِ مبارکہ ثابت ہے۔ یہ رات قدر والی رات ہے، اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرما دیا کہ یہ رات جو (عبادت کے اعتبار سے) ہزار مہینوں سے افضل رات ہے، اس رات میں فرشتے اور جبریلؑ نازل ہوتے ہیں۔ یہ رات حضورؐ کے فرمان کے مطابق رمضان کے آخری دس دنوں کی طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہے۔ چنانچہ اسے 21، 23،25، 27 اور 29ویں میں غروب آفتاب کے بعد طلوع فجر تک تلاش کرنا ہو گا۔ وہ کیا ہی خوش قسمت ہو گا جو اس رات کو پا لے اور حضرت جبریلؑ کے ساتھ اس رات کو گزارے۔قارئین کرام! پاکستان 27ویں شب کو معرض وجود میں آیا تھا۔ اللہ بہتر جانتے ہیں دل کہتا ہے کہ یہ ''لیلۃ القدر‘‘ ہو گی۔ آیئے! پھر اس رات کو پا کرمسلمانوں اور ساری انسانیت کے امن کے لئے دعا کریں۔ اپنے کردار کی اصلاح کریں۔ (وما علینا الا البلاغ)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved