تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     24-06-2016

تعزیراتِ پاکستان اور پاکستان

تھامس بربنگٹن میکالے برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں لارڈ میکالے کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس شخص نے اٹھارہ سو چونتیس سے لے کر اٹھارہ سو اڑتیس تک برطانوی ہندوستان میں صرف چار سال گزارے اور اس مختصر سے عرصے میں اس عظیم ملک میں بنیادی نوعیت کے دو ایسے کارنامے سرانجام دیے جوآج تک اس کی یاد دلاتے ہیں۔ اس کا پہلا کارنامہ ہندوستان میں جدید نظام تعلیم کی ترویج تھا اور دوسرا مجموعۂ تعزیراتِ ہند کی تشکیل تھا۔ اس کے وضع کردہ نظام ِ تعلیم اور تشکیل کردہ مجموعۂ تعزیرات ہندکی جامعیت ملاحظہ ہو کہ ایک سو اٹھتر سال بعد بھی برصغیر پاک و ہند کے دانشوران دونوں نظاموں میں جزوی ترامیم تو کرتے رہے ہیں لیکن ان کا کوئی قابل قبول متبادل آج تک پیش نہیں کرسکے۔ اس نے پونے دو صدیاں قبل پہلی جماعت سے لے کر یونیورسٹی تک نصاب کی جو حدود متعین کی تھیں ، کراچی سے لے کر کولمبو تک اور پشاور سے لے کر ڈھاکہ تک کے کروڑوں طالب علم انہی کے پابند رہ کر نسل بعد نسل اپنی تعلیم مکمل کرکے عملی زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اسی طرح اس کی سربراہی میں مرتب کیے ہوئے مجموعۂ تعزیرات ِہند کو پاکستان و بھارت نے نہ قبول کرلیا اور آج تک ان دونوں ملکوں کی عدالتیں روزانہ کی بنیاد پر فوجداری مقدمات کا فیصلہ کرتے ہوئے مجرموں کو سزائیں سناتی ہیں۔یہ مجموعۂ تعزیرات لارڈ میکالے کی زندگی میں نافذ نہیں ہوسکا بلکہ اس کے مرنے کے دوسال بعد اٹھارہ سو ساٹھ میں ہندوستان بھر میں نافذ ہوا۔اس کے نفاذ سے صرف تین برس پہلے ہندوستان اٹھارہ سو ستاون کی جنگِ آزادی سے گزرچکا تھا اور ہر دل میں انگریزوں کے خلاف نفرت کے شعلے بھڑک رہے تھے مگر اس نظام کے آتے ہی نفرت قانون کے تابع ہوگئی۔ 
لارڈ میکالے کا تریب دیا ہوا یہ مجموعۂ تعزیرات پانچ سو گیارہ دفعات پر مشتمل ہے۔ اس نے ان پانچ سو گیارہ دفعات میں جرم کی ہر شکل کو کچھ اس انداز سے سمو دیا ہے کہ اس پر دنیا کے بڑے بڑے قانون دان بھی حیران ہوکر انگلیاں دانتوں میں دبا لیتے ہیں۔ برطانیہ کی سپریم کورٹ کے صدر لارڈ نکولس فلپس نے اس کے بارے میں کہا تھا، ''لارڈ میکالے کے عہد میں ٹیکنالوجی سے جنم لینے والے جرائم کا تصور بھی موجود نہیں تھا لیکن آج کے یہ جرائم بڑی سہولت سے اس کی دفعات کے تابع آجاتے ہیں‘‘۔ تعزیرات کا یہ نظام برصغیر پاک وہند کی سماجی زندگی میں بھی اس طرح رچ بس گیا ہے کہ ہم فراڈ کو چار سو بیسی کہتے ہیں کیونکہ اس مجموعے کی دفعہ چارسو بیس فراڈ کرنے والے کے لیے سزاتجویز کرتی ہے، اسی طرح ''چلتی پھرتی تین سو دو‘‘جیسے محاورے ہمارے روزمرہ کا حصہ بن چکے ہیں۔خود کشی کی کوشش سے لے کر قتل عمد تک، انفرادی لڑائی جھگڑے سے لے کر بلوے تک اورنفرت انگیز تقریر سے لے کر ریاست کے خلاف بغاوت تک کے ہر جرم کی اتنی معقول سزا اس مجموعے میں تحریر ہے کہ دنیا کا کوئی بڑے سے بڑا مقنن بھی اس میں کوئی اضافہ یا کمی کرنے سے پہلے سو بار سوچے گا اور بالآخر لارڈ میکالے کی طے کردہ سزا پر ہی رضامند ہوجائے گا۔ 
انیس سو سینتالیس میں جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو ہماری دستور ساز اسمبلی نے اس مجموعے کو ' مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان‘ قرار دے کر بعینیہ منظور کرلیا۔ بعد میں مختلف حکومتی شہ دماغوں نے خود کو لارڈ میکالے سے زیادہ ذہین ثابت کرنے کے لیے اس میں الٹی سیدھی تبدیلیاں کی مگرمسلسل بگڑتے ہوئے حالات پر قابو نہ پاسکے۔لارڈ میکالے نے اپنی تعزیرات کی دفعہ ایک سو اکیس میں ریاست کے خلاف لڑنے والوں کے لیے سزائے موت یا عمر قید کی سزاتجویز کی تھی لیکن ہمارے سیانے اسے نافذ کرنے کی بجائے ایسے شورہ پشتوں سے نمٹنے کے لیے الگ قوانین اور الگ عدالتیں لے آئے مگر ریاست کے خلاف لڑنے والوں پر قابو نہ پاسکے۔ اس نے اسی مجموعۂ تعزیرات کی دفعہ ایک سو چوبیس میں بتایا تھا کہ اگر کوئی شخص ریاست کے دستوری عہدیداروں کے کام میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش بھی کرے گا تو اسے سات سال کی سزا دی جائے گی۔ ہم جنرل ایوب خان اور جنرل یحییٰ خان پر تویہ دفعہ نافذ نہ کرسکے البتہ دستور میں آرٹیکل چھ ڈال کر طالع آزماؤں کو ڈرانے کی کوشش کی۔جو ریاست جمہوریت پر شبخون مارنے والے کو سات سال سزا نہ دے سکے وہ موت کی سزا دینے کا خواب ہی دیکھ سکتی ہے۔مبلغ تعبیر اس خواب کی یہ ہے کہ آج جنرل پرویز مشرف دوبار دستور توڑ کر بھی ریاستِ پاکستان کے سینے پر مونگ دلتے ہوئے دنیا بھرمیں ہمارے دستور و قانون کا مذاق اڑا رہا ہے۔ 
لارڈ میکالے کے مجموعۂ تعزیرات کا پندرہواں باب مذہبی منافرت کے بارے میں ہے۔ اس باب میں اس نے بتایا ہے کہ اگر کوئی شخص مذہب کی آڑ لے کر معاشرے کے کسی گروہ کو نشانہ بناتا ہے تو اس کے ساتھ کیا سلوک ہوگا۔ اس کی تجویز کردہ سزاؤں کے خوف سے اسی سال سے زائد عرصے تک برطانوی ہندوستان کا کثیرالمذہبی معاشرہ بڑی حد تک مذہبی رواداری کے ساتھ چلتا رہا لیکن جیسے ہی معاملات ہمارے ہاتھوں چڑھے ہم نے لاؤڈ سپیکر کے استعمال پر بھی طرح طرح کی سزائیں تجویز کردیں ، مذہبی موضوعات پر لکھی کتابوں کو افسرانہ تحقیق کی ٹکٹکی پر کس لیا ، مگرحالت یہ ہے کہ دستور میں اقلیتوں کو آزادی کی ضمانت دینے کے باوجود ہمارے ہاں اکثریت سے الگ عقائد رکھنے والے ڈرے سہمے رہتے ہیں۔کبھی گوجرہ کا واقعہ ہو جاتا ہے تو کبھی قصور میں آگ بھڑکنے لگتی ہے۔ 
لارڈ میکالے نے اپنے نظامِ تعزیرات میں انتخابات اور انتخابی دھاندلی کے امکانات کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا۔ غالباً اس کی وجہ یہ ہوگی کہ جب میکالے یہ کام کررہا تھا اس وقت ہندوستان پر حکومت کرنے والی ایسٹ انڈیا کمپنی کو ہندوستانیوں کی رائے جاننے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی ہوگی اور اس نے میکالے کو ان معاملات کو چھوڑ دینے کے لیے کہا ہو ورنہ اس جیسے عبقری شخص، جو خود برطانوی پارلیمنٹ کا الیکشن جیت چکا ہو، کی نگاہ سے اتنی اہم بات نظر انداز ہوجانا قرین قیاس نہیں لگتا۔ بہرحال جب ہندوستان میں الیکشنوں کا غلغلہ ہوا تو انگریزوں نے انتہائی مہارت سے اس کے نویں اور دسویں ابواب کے درمیان ایک نئے باب کا اضافہ کیا ۔ بعد میں پاکستان کی مقننہ نے بھی اس باب میں تھوڑی بہت ترمیم کرکے اسے اتنا جامع بنا دیا ہے کہ الیکشن سے متعلق شاید ہی کوئی غیر قانونی حرکت ایسی ہو جس کی شافی سزا اس حصے میں موجود نہ ہو۔ یہ ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ ہمارے ملک میں الیکشن دھاندلی پر ایک طویل مہم چلائی گئی، ایک عدالتی کمیشن نے دوہزار تیرہ کے الیکشن کا جائزہ لیا مگر کسی کی نظر پاکستان پینل کوڈ پر نہ پڑی ۔
لارڈ میکالے ایک نابغہ ہونے کے باوجود کئی جگہ ماربھی کھا گیا ۔ وہ ایسی حکومتوں کے لیے کوئی سزا تجویز نہ کرسکا جو قانون پر عمل نہیں کرتیں۔ اس نے ایسی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے لیے بھی کوئی سزا نہیں رکھی جو ماتحت عدلیہ کوقانون کی بجائے وکیلوں کے تابع رکھنے میں سرگرم رہتی ہے۔ ایسی پارلیمنٹ کے بارے میں بھی مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان خاموش ہے جو ملک میں لاقانونیت کے اسباب نہیں ڈھونڈتی مگردستور میں ترمیم کرکے فوجی عدالتیں قائم کر ڈالتی ہے۔ اسے یہ اندازہ ہی نہ ہوسکاکہ جس ہندوستان کے لیے وہ قانون بنا رہا ہے اس کا ایک حصہ کبھی پاکستان بنے گا اور اس کے ریاستی ادارے اس کے بنائے ہوئے قانون کا مذاق اڑایا کریں گے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved