تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     25-06-2016

نوجوان نسل کو سیکھنے دیجیے

سرتاج عزیز نے جب یہ کہا کہ امریکہ میں سابق پاکستانی سفیر پاکستان مخالف لابنگ میں مصروف ہیں تو حقانی صاحب کا جواب یہ تھا: میں لابسٹ نہیں ، سکالر ہوں ۔ امریکی اخبارات میں وہ پاکستان مخالف مضامین تحریر فرماتے رہے ہیں ، اس کے باوجود پاکستانی میڈیا میں ان کا دفاع کرنے والے موجود ہیں۔ محترمہ مریم نواز نے ایک مرتبہ اس مفہوم کے جملے ارشاد کیے تھے : زندگی میں جن دشواریوں سے میاں محمد نواز شریف کو گزرنا پڑا، ان پر مسلسل غور و فکر کے نتیجے میں وہ ایک مدبر بن چکے ہیں ۔ 2013ء کا الیکشن جیتنے کے بعد میاں صاحب اگر اپنی دولت پاکستان لانے کا اعلان کردیتے تو قوم اس وقت ان کے قدموں میں بیٹھی ہوتی۔ بجائے اس کے، مدبّر صاحب اب پانامہ لیکس کے عذا ب میں مبتلا ہیں۔ ایک صاحب ہیں، سرخ ٹوپی جن کی شناختی علامت ہے۔ فرمایا وہ یہ کرتے کہ میں ایک دفاعی تجزیہ کار، ایک ایسا تھنک ٹینک ہوں، دنیا بھر کی خفیہ ایجنسیاں جس کی خدمات سے استفادہ کرتی ہیں ۔ اپنا یہ حال ہے کہ سعودی عرب جا کر شاہ مخالف تقریر کی، گرفتار ہوئے ، کوڑے کھائے اور بمشکل تمام جان چھوٹی۔ ایسے ایسے سکالر، مدبّر اور دفاعی تجزیہ کار ہمارے رہنما ہیں ، جن سے اپنا آپ سنبھالا نہیں جاتا۔ یاد آیا، پانامہ لیکس میں رحمن ملک کا نام آیاتو ان کا کہنا یہ تھا : بھارتی خفیہ
ایجنسی ''را‘‘ نے میرے خلاف سازش کی ہے ۔ملک صاحب کبھی بور نہیں ہونے دیتے ۔ یہ تو خیر وہ لوگ ہیں ، دولت ، اقتدار اور اختیار کی غیر معمولی طاقتور خواہشات نے جنہیں یہاں لا کھڑا کیا ہے ۔ بحیثیتِ مجموعی معاشرہ ہی بیمار ہے ۔ ایسا بیمار کہ عقل کی بات کرنے والا کوئی نہیں ۔ اسے علاج درکار ہے ۔
پاکستانی معاشرے کو اگر پھلنا پھولنا،استحکام حاصل کرنا اور عروج تک پہنچنا ہے تو یہ کام کون کرے گا؟ ظاہر ہے کہ جسمانی اور ذہنی طور پر صحت مند افراد۔ اقبال ؔ نے کہا تھا: ہر فرد ہے ملّت کے مقدر کا ستارا۔ میں پورے دعوے سے کہتا ہوں کہ وہ نوجوان نسل، جسے مستقبل میں ریاست سنبھالنا ہوتی ہے ، وہ اپنے ہی والدین اور اساتذہ کی کم علمی بلکہ جہالت کے باعث خود بیما ر ہو جاتی ہے ۔ زندگی کا ایک بڑا حصہ وہ احساسِ جرم ، بیمار ی کے احساس اور گہری مایوسی میں بسر کرتی ہے ۔ 12، 13برس کی عمر میں بچّے ، خصوصاً لڑکے جب بلوغت کی عمر میں پہنچتے ہیں توبرائی سے روکنے کی خواہش میں، انہیں بتایا یہ جاتاہے : اگر ایسا کیا تو ہـڈیاں کھوکھلی ہو جائیں گی، ان میں ہو ابھر جائے گی ، وغیرہ وغیرہ۔ایسی بے شمار لغویات اس کے اپنے ہی خیر خواہ اسے سکھا پڑھا دیتے ہیں، طبّی طور پر جو سو فیصد غلط ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتاہے کہ وہ مہ و سال ، جو اسے پرجوش انداز میں لکھنے پڑھنے اور مختلف ہنر سیکھنے میں بسر کرنا ہوتے ہیں، ان میں وہ خود کو بیمار سمجھتا رہتاہے ۔ قد بڑھنے کی عمر میں یوں بھی بچّوں کی اکثریت دبلی پتلی اور بظاہر کمزور ہوتی ہے ۔ یوں اس پر تصدیقِ مہر ثبت ہو جاتی ہے ۔ وہ یہ سمجھتا رہتا ہے کہ اندرونی طور پر وہ کھوکھلا ہو چکا ہے اور جو خود کو بیمار سمجھتا ہو، وہ بھلا کیا کرے گا؟
ہر سکول ، کالج او ریونیورسٹی کے لیے یہ لازم ہونا چاہئیے کہ وہ کم از کم ایک نفسیات دان کی خدمات مستقل طور پر حاصل کرے ۔ ہر بچّے کا نفسیاتی معائنہ ہونا چاہئے۔ انسانی دماغ میں خدا نے غیر معمولی وسعت، غیر معمولی توانائی اور غیر معمولی احساس رکھا ہے۔ وہ مستقبل کا سوچتا ہے اور اس پر خوف غالب آنے لگتا ہے۔ وہ ماضی میں گم رہتا ہے اور اس کے زخم ہرے رہتے ہیں۔ بعض اوقات کوئی حادثہ اس قدر شدّت سے اس پر اثر انداز ہوتاہے کہ اسے نارمل حدود میں واپس لوٹنے کے لیے ادویات اور تحلیلِ نفسی کی ضرورت ہوتی ہے ۔
خدا نے اپنے بندوں کو کبھی نہ ختم ہونے والی یہ سہولت دے رکھی ہے کہ اگر ان کے گناہ آسمان تک بلند ہو جائیں اور خواہ وہ بڑھاپے تک پہنچ جائیں، اگر وہ پلٹنا چاہیں تو پلٹ سکتے ہیں۔ صرف یہ نہیں کہ انہیں معاف کیا جائے گا بلکہ ان سے محبت کی جائے گی اور ہو سکتا ہے کہ ان کے گناہ نیکیوں سے بدل دئیے جائیں۔ عذاب سے ڈراتے ہوئے تو ہم اپنے بچّوں کو خوب ڈرا تے ہیں لیکن جہاں مغفرت کا موضوع آتاہے ، ہماری زبان گنگ ہو جاتی ہے ۔ یہ بتاتے ہوئے موت سی آنے لگتی ہے کہ ہر قسم کے کبیرہ گناہ خدا آنِ واحد میں معاف کر ڈالتا ہے۔ یوں نوجوان نسل ایک مسلسل احساسِ جرم تلے زندگی گزارتی ہے ۔ اسے تلافی کا کوئی طریقہ نہیں بتایاجاتاہے ، جہاں سے وہ واپس پلٹ سکے ۔
اپنی اولادکو ہم دماغ استعمال کرنا نہیں سکھاتے ۔ خام حالت میں ان میں ہنر چھپے ہوتے ہیں اور بعض اوقات ساری زندگی وہ
خام ہی رہ جاتے ہیں ۔وہ تعلیمی نظام جو صرف یادداشت کے امتحان پر مشتمل ہے، وہ اسے لکیر کا فقیر بناتا ہے تو کم از کم مختلف ذمہ داریوں (Tasks) سے گزار کر، حوصلہ افزائی اور تادیب سے گزار کر آپ اسے سکھا سکتے ہیں ۔ دماغ میں سیکھنے کی غیر معمولی صلاحیت اللہ نے رکھی ہے ۔ یہ سیکھ جاتا ہے ، بشرطیکہ مختلف چھوٹی بڑی آزمائشوں سے گزرتا رہے۔ اگر آپ دو لاکھ روپے ماہانہ کماتے ہیں اور اگر آپ کا لختِ جگر کاروبار کے لیے پچاس ہزار روپے مانگ رہا ہے تو اسے دے دیجیے، خواہ آپ اس کاروبار کی نگرانی کرتے رہیے۔ اگر پہلی، دوسری بار میں وہ ناکام رہتا ہے تو اسے طعنہ نہ دیجیے ۔ اصل چیز سیکھنا (learning)ہے ۔ پچاس ہزار روپے کے نقصان سے وہ جو چیز سیکھ رہا ہے ، وہ ساری زندگی اس کے ساتھ جائے گی ۔ یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد میں نے بکرے پالے، ناکام ہوا۔ ٹرانسپورٹ کا کام کیا ، ناکام ہوا۔ اب میں کامیابی سے تعمیر(Construction) کا کام کر رہا ہوں لیکن اگر یہ پہلی دو ناکامیوں سے میں نہ گزرا ہوتا اور اگر والدین کی بھرپور پشت پناہی حاصل نہ ہوتی تو ہمیشہ میں مایوس ہی رہتا۔ اصل ناکامی یہ نہیں کہ آپ کا لختِ جگر ناکام ہے۔ اصل ناکامی یہ ہے کہ وہ اپنی ناکامی سے سیکھنے پر تیار نہیں یا یہ کہ اب مستقل طور پر ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھ گیا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved