تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     26-06-2016

خدا کے لیے خان صاحب

ایک ہی طرح کی غلطی کے نتائج مختلف لوگوں کے لیے الگ الگ کیسے ہو سکتے ہیں ؟ ازل سے فطرت کے قوانین وہی ہیں اور تابہ ابد وہی رہیں گے ۔ ولن تجد لسنۃ اللہ تبدیلا ۔
دکھ کا اظہار ہوچکا ۔اب مضمرات پر بات ہو جائے ۔ مولانا سمیع الحق کے مدرسے کو ، جو طالبان کے باپ بنتے ہیں ، 30کروڑ روپے عطا کرنے سے کس کو کیا پیغام ملاہے اور کیا ہوگا۔ 
O۔ امریکہ اور یورپی یونین اسے طالبان کو کمک پہنچانے کی ایک دانستہ کوشش قرار دیں گے ۔ امریکی ترجمان نے کہا ہے کہ یہ مذہبی آزادی چھیننے کی کوشش ہے ۔ یہ ان فرقوں کی طرف اشارہ ہے ، جو اس مکتبِ فکر کے حریف ہیں ۔ یورپی یونین کے ممالک ایسے میں ہاں میں ہاں ملاتے ہیں ۔ 
O۔ حریف مکتبِ فکر کی ایرانی عملاً سرپرستی کرتے ہیں۔ وضاحت کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ کیا کریں گے۔ 
O۔بھارت میں اس واقعے کو اچھالا جائے گااور مسلسل۔عمران خان کبھی ایک کرکٹ ہیرو تھے ۔ بھارت کے پچھلے دور ے میں ، ان سے زیادہ تر سوالات طالبان پر کیے گئے ۔ کپتان وضاحتیں کرتا رہا۔ بھارتی ذرائع ابلاغ فوج اور سپہ سالار جنرل راحیل شریف کے خلاف نفرت پھیلاتے اور وزیرِ اعظم نواز شریف کی ڈٹ کر حمایت کرتے ہیں ۔ پاکستان کاہیرو بھارتیوں کا ولن ہوتاہے ۔ 
O۔افواجِ پاکستان میں ناپسندیدگی نہیں ، شدید ناپسندیدگی جنم لے گی ۔ افسروں اور جوانوں کے زخم ہرے ہو جائیں گے ۔ وہ پوچھیں گے ، پچاس ہزار شہریوں اور 6ہزار فوجیوں کو شہید کرنے والے طالبان کے سرپرست پر ایسی عنایت کا سبب کیا ہے ؟ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے میاں صاحب کو تین تجاویز پیش کی تھیں ۔ طالبان سے اگر بات چیت ہو تو مولوی صاحبان کو شریک نہ کیا جائے ۔ '' مذاکرات کو وہ Take Overکرلیں گے‘‘ ۔ میاں صاحب نے مولوی صاحبان ہی کو سونپا ۔ مولانا سمیع الحق نے ایک صاحب کو خود ہی مذاکراتی ٹیم کا حصہ بنا دیا۔ جنرل کیانی کی پیش گوئی حرف بہ حرف پوری ہوگئی ۔ دوسری دو تجاویز یہ تھیں کہ بات چیت آئین کے دائرے میں ہو اور ان کی مدّت مقرر کی جائے ۔ پہلی بات کا ذکر ہی نہ ہوا۔ دوسری تجویز کو میاں صاحب نے درخورِ اعتنا نہ سمجھا۔ میجر عامر ٹیم کے واحد ممبر تھے ، جو متوازن طرزِ عمل اختیار کرنے کی کوشش کرتے رہے۔
O۔ میڈیا نے مذاکرات کے انداز کی مخالفت کی ۔ ان کے سوا جو مولانا سمیع الحق ، مولانا فضل الرحمٰن اور سینیٹر سراج الحق کے ہم نفس تھے ۔ بتدریج انہیں معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنا پڑا۔ میڈیا میں اپنے لیے نرم گوشہ رکھنے والوں کو کپتان نے شدید رنج سے دوچار کیا ہے۔ اظہار الحق اور عمار مسعود جیسے لوگوں نے انہیں خدا حافظ کہہ دیا ہے ۔اظہار الحق کو اندیشہ ہے کہ کپتان کے فدائین اب ان کی کردار کشی کا ارتکاب کریں گے ۔ تحریکِ انصاف کے کارکن جذباتی ضرورہیں اور بدگمان بھی، اندھے بہرحال وہ نہیں ۔ 
O۔ داعش سے دکھی مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں پیغام یہ پہنچے گا کہ اپوزیشن لیڈر انتہا پسندوں کا حامی ہے ۔ پاکستان کے حوالے سے مشرقِ وسطیٰ میں کلیدی کردار سعودی عرب کا ہے ۔ الیکشن 2013ء سے قبل عمران خاں نے اپنی پارٹی کے لیڈروں جاوید ہاشمی ، جہانگیر ترین اور اسحٰق خاکوانی کی معیت میں سعودی سفیر سے ملاقات کی۔ اس نے کہا : میاں صاحب کی حمایت کا ہم نے فیصلہ کیاہے ، آپ کو بھی ان کی تائید کرنی چاہیے ۔ اب ان کا روّیہ کیا ہوگا؟ ابھی ابھی ایک پیغام مجھے ملاہے '' عمران خان کوقائدِ اعظمؒ پر کوئی اچھی کتاب پڑھنے کو دیجیے ‘‘ میں نے جواب دیا '' دس برس پہلے دی تھی ‘‘ ۔ جو بات لکھی نہیں ، وہ یہ تھی کہ درجنوں لیکچر اس کے سوا دیے مگر مکمل طور پر بے اثر رہے ۔ 
O۔ تحریکِ انصاف کے کارکن اس واقعے پر سخت صدمے کا شکار ہوں گے، ان جذباتی نوجوانوں اور خواتین کے سوا، جو کپتان کے اندھے مقلّد ہیں ، اکثریت کا تاثر وہی ہوگا، جو عام پاکستانیوں کا ۔ ایک سادہ سا طریق یہ ہے کہ کسی معتبر ادارے سے سروے کرا لیاجائے ۔ اندازہ یہ ہے کہ 90فیصد سے زیادہ ووٹ مخالفت میں پڑیں گے ۔مشکل یہ ہے کہ پارٹی کے ہزاروں کارکن جس عمل میں شریک ہوں گے، وہ موضوع اخبارکے پہلے صفحے پر جگہ پائے گا۔ ٹی وی مذاکروں میں بحث شروع ہو جائے گی ۔ پہلے سے منقسم جماعت میں ، اس طرح تقسیم در تقسیم کا عمل شروع ہو جائے گا۔ 
O۔ مولانا سمیع الحق ایسے آدمی ہرگز نہیں کہ احسان مند ہوں ۔ اپنے پہلے محسنوں کے ساتھ انہوں نے کیاکیا؟وہ ایک خودپسند آدمی ہیں ، ماضی میں زندہ رہنے والے ۔ ان کی ترجیحات ذاتی ہیں یا فرقہ ورانہ ۔ مزید براں ان کی کوئی سیاسی حیثیت نہیں ۔ تبلیغی جماعت یا لشکرِ جھنگوی میں تو شاید کچھ پذیرائی ہو مگر سیاسی محاذ پر مولانا فضل الرحمٰن ہی اس مکتبِ فکر کے نمائند ہ ہیں ۔ 
O۔ دوسرے مدارس ناخوش ہوں گے ۔ صرف اثنا عشری ، سلفی اور بریلوی نہیں بلکہ خود دیو بندی مدارس کی اکثریت بھی ۔جماعتِ اسلامی بھی۔ عمران خاں کے اندازِ سیاست ، خاص طور پر اس کے جلسوں میں خواتین کی شرکت اور انداز سے وہ پہلے ہی ناراض ہیں۔ ان کی ناراضی میں مزید اضافہ ہوگا۔ بریلوی اکثریت خاص طور پر شکوک و شبہات کا شکار ہوگی ۔ 
O۔کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے ساتھ پیش آنے والے المناک واقعات پر کپتان کے جرأت مندانہ موقف نے جو مثبت اثرات مرتب کیے ، وہ اس طرح دھل جائیں گے ، جیسے مون سون کی بارش پتوں پہ پڑی گرد دھو ڈالتی ہے ۔ 
O۔ لبرل اندازِ فکر رکھنے والے ہزاروں نہیں لاکھوں افراد عمران خان کے حامی ہیں یا اس کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے ۔ کم از کم اتنا کہ اس کے امیدوار کو ووٹ ڈالتے رہے ، خواہ وہ اسد عمر ہی کیوں نہ ہو، جو اسلام آباد میں اجنبی تھا۔ اب وہ نظرِ ثانی کریں گے ۔
O۔ مفلس طبقات میں ، کچی بستیوں میں بھی ردّعمل منفی ہوگا۔ اپنی قسمت پر شاکر یہ لوگ اظہار کم کرتے ہیں مگر حساس وہ دوسروں سے زیادہ ہوتے ہیں ۔ 
O۔ مئی 2013ء کے شہر کراچی میں 9لاکھ ووٹ حاصل کرنے والی تحریکِ انصاف بتدریج وہاں پیپلز پارٹی سے بھی پیچھے کیسے چلی گئی ؟ تحریکِ انصاف کا سیاسی ڈھانچہ ایسا دلچسپ ہے کہ تجزیہ کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاتی ۔عمران خان ایسے چند فیصلے اور کر ڈالیں تو پورے ملک میں ان کی پارٹی کا حال کراچی ایسا ہو جائے گا۔ 
O۔ کہا جاتاہے کہ مولانا سمیع الحق کے لیے فیاضی کا مظاہرہ پرویز خٹک کے ایما پر ہوا ۔ عمران خان کو مبارک ہو کہ انہیں ایک اور شاہ محمود مل گیا ہے ۔ عجیب سیاستدان ہیں ، پولیٹیکل سائنس کا بنیادی نکتہ ہی نہیں سمجھتے کہ کامیابی اور ناکامی کا انحصار عوامی احساسات کے ادراک اور ہر ممکنہ حد تک ان سے آہنگ پید اکرنے میں ہوتا ہے ۔ 
O۔ گمان یہ ہے کہ اس فیصلے پر عمل درآمد ممکن نہ ہوگا۔ ردّعمل کی لہر اتنی شدید ہوگی کہ اس کشتی کو بہا لے جائے گی جو ساٹھ ہزار شہدا کے خون پر تیر رہی ہے ۔ لاکھوں بے لوث کارکنوں کا خیال آتاہے تو صدمہ شدید تر ہوجاتاہے ۔ زرداری صاحب نے یکسر انہیں نظر انداز کیا تو ڈوب گئے ۔ کپتان کیاتیرتا رہے گا؟ 
ایک ہی طرح کی غلطی کے نتائج مختلف لوگوں کے لیے الگ الگ کیسے ہو سکتے ہیں ؟ ازل سے فطرت کے قوانین وہی ہیں اور تابہ ابد وہی رہیں گے ۔ ولن تجد لسنۃ اللہ تبدیلا ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved