تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     26-06-2016

اصلی تے نِکّی پِدّی‘ گونگی کوئل اور دیگر خواتین و حضرات

اگلے روز واک کر کے بیٹھا ہی تھا کہ ایسے لگا کہ ایک بڑا سا بھونرا موتیے کے پودے میں گھس گیا ہے۔ تھوڑی دیر بعد دیکھا تو وہ ایک سیاہ رنگ کی چڑیا تھی جو نازک سی شاخ سے الٹی لٹکی پھول کا رس چوس رہی تھی۔ حیرت ہوئی کہ یا مظہر العجائب! چڑیا اتنی چھوٹی بھی ہو سکتی ہے؟ یادآیا کہ اصلی تے وڈّی‘ ہیر وارث شاہ کی طرح اصلی تے نِکّی پدّی یہی ہے کیونکہ جسے اب تک ہم پدّی سمجھتے رہے ہیں یہ اس کا بھی تقریباً نصف تھی۔ کوئل کی طرح کالی سیاہ لیکن پھرتیلی۔ بلکہ اسی سائز کی ایک اور چڑیا بھی لگی پھرتی تھی، جس کا رنگ اوپر سے میلا سیاہ اور نیچے سے سفید! کوئل کا ذکر آیا تو یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ہمارے ہاں یوں تو کئی کوئلیں پائی جاتی ہیں اور وہ کوکتی بھی خوب ہیں لیکن ایک ایسی ہے جس کا گلا ایسا بیٹھا ہوا ہے کہ آواز بمشکل نکلتی ہے اور وہ بھی نہایت غیر کوئیلانہ‘ کیونکہ اس کی خصوصی آواز کے بغیر تو کوئل کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ضرور کوئی کھٹی چیز کھا بیٹھی ہو گی!
کچھ دن پہلے طارق کریم کھوکھر آ گئے جو غزلوں کے ایک مجموعے''پنکھ گراتی شام‘‘ کے خالق اور آج کل نارووال میں اے ڈی سی ہیں۔ کئی سال پہلے جب آتے تو عباس تابش کے ساتھ آیا کرتے تھے بلکہ وہی ان کے ساتھ تعارف کا باعث بھی بنے۔ وہ تو فارم ہائوس کا کوہِ قاف بھی پار کر کے آنے کو تیار تھے لیکن اس روز میں ماڈل ٹائون میں جنید کے پاس گیا ہوا تھا اس لیے وہیں بلا لیا۔ مذکورہ کتاب کا دیباچہ خاکسار ہی کا لکھا ہوا ہے۔ آپ کی گریڈ 20 میں حال ہی میں ترقی ہوئی ہے اور پوسٹنگ کے منتظر ہیں۔ مزید فضیلت یہ ہے کہ ان کا تعلق بھی اوکاڑہ سے ہے بلکہ چند سال پہلے اوکاڑہ میں بطور ڈی او سی تعینات بھی رہے ہیں۔ دو روز پہلے سانگھڑ سے اکبر معصوم کا فون آیا کہ وہ اپنے پنجابی کلام کو تربیت دے چکے ہیں جس کا مسودہ مجھے بھجوا رہے ہیں۔ اکبر معصوم جیسے بے مثال اردو شاعر کا پنجابی میں بھی لکھنا ایک خبر سے کم نہیں ہے۔
''اور کہاں تک جانا ہے‘‘ کے بعد ہم تو ان کے دوسرے اردو مجموعے کا انتظار کر رہے کہ انہوں نے یہ دھماکہ کر دیا۔ یقین ہے کہ وہ پنجابی میں بھی اپنی کلاس کا اظہار ضرور کریں گے۔
کچھ اور ملی جلی خبروں میں سے ایک تو افسوس ناک واقعہ ملتان میں ہوا ہے جہاں ''دیر سویر‘‘ نامی شعری مجموعے کی خالق رفعت ناہید کا راہ چلتے پرس چھین لیا گیا جس میں دس بارہ ہزار روپے‘ ان کا موبائل‘ زیورات اور کئی دیگر قیمتی اشیاء تھیں۔ یہ تو سب کو معلوم ہے کہ کراچی کے بعد یہ وبا اب پنجاب میں بھی پھیل چکی ہے‘ حتیٰ کہ دارالحکومت بھی اس سے محفوظ نہیں ہے‘ بلکہ بھتہ خوری بھی عام ہوتی جا رہی ہے۔ شعری مجموعے''وعدہ‘‘ کی مصنفہ ‘ پلاک کی ڈائریکٹر اور کالم نویس ڈاکٹر صغریٰ صدف کی والدہ محترمہ کا برین 
ہیمبرج کے بعد گرشتہ جمعے کو آپریشن ہوا جس کے بعد وہ ماشاء اللہ رو بصحت ہیں۔ ایسی اطلاعات تو عموماً ہمارے شاعر دوست ناصر بشیر ہی دیا کرتے ہیں جن کا کبھی فون آئے تو سنبھل کر بیٹھ جاتے ہیں کہ وہ کوئی بُری خبر ہی سنائیں گے۔ لیکن یہ ایک اچھی خبر تھی اس لیے ہم نے اپنے کھاتے میں ڈال لی ہے۔
تین چار روز کڑاکے کی گرمی پڑتی ہے لیکن اس کے بعد بارش کے چھینٹے سب کچھ بھلا دیتے ہیں۔ اگلے روز آندھی اور بارش تو رات کو آئیں لیکن صبح اس قدر خنک اور تیز ہوا تھی کہ عقب کی ہو تو ایسے لگتا ہے کوئی آپ کو پیچھے سے باقاعدہ دھکیل رہا ہے۔ بارش کے بعد یہ ایک اضافی نعمت ہے جسے کم از کم غیر مترقبہ تو کہا جا سکتا ہے۔
اگلے روز محبی اقتدار جاوید سے سرسری ذکر ہوا کہ میں ستیہ پال آنند کی شاعری پر کچھ مزید لکھ رہا ہوں جس پر موصوف نے فیس بک پر یہ سرخی جما دی کہ ظفر اقبال ستیہ پال آنند پر پھر برسے ہیں۔ میں نے انہیں کہا‘ بندۂ خدا ‘ مجھ سے تو پوچھ لینا تھا کیونکہ میں نے بعد میں یہ ارادہ ترک کر دیا تھا اور یہ بھی کہا کہ وہ فیس بک پر اس کی درستی کر دیں۔ ستیہ پال آنند کا شمار ہمارے ان سینئر ہم عصروں میں ہوتا ہے جو اپنے کام کی وجہ سے اپنا ایک الگ امتیاز رکھتے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ شاعری ان کے لیے دردِ سر کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہم میں سے کتنے ایسے ہیں جو اس حوالے سے اتنے سنجیدہ ہوں کیونکہ بہت سوں کو تو شوقیہ شاعر ہی کہا جا سکتا ہے۔ ان کی حالیہ غزلوں میں ڈکشن کی ایک تبدیلی بھی واضح طور پر نظر آتی ہے۔ میں خود اس حق میں ہوں کہ شاعر کو اپنے آپ کو تبدیل کرتے رہنا چاہیے۔ حیرت ہے کہ یارلوگ ایک ہی طرح کی شاعری کرتے ہوئے عمر گزار دیتے ہیں۔ تنوع کے بغیر زندگی کا کیا مزہ ہے؟
پچھلے دنوں میں نے ایک کالم میں اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ پاک ٹی ہائوس اور حلقہ ارباب ذوق کے حوالے سے شاعروں ادیبوں پر ایک پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے جو پچاس ساٹھ سالہ دلچسپ ادبی تاریخ ہو سکتی ہے اور اس سلسلے میں میں نے زاہد ڈار اور ڈاکٹر یونس جاوید کا نام لیا تھا کہ وہ یہ کام کر سکتے ہیں۔ جس پر ڈاکٹر یونس جاوید نے لکھا کہ وہ تو یہ کام پہلے ہی کر چکے ہیں اور ساتھ ہی اس موضوع اپنی موٹی تازی کتاب بعنوان''حلقۂ ارباب ذوق ــ تنظیم‘ تحریک‘ نظریہ‘‘ بھی بھجوا دی جو کوئی ڈیڑھ ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ اسے دوست پبلی کیشنز اسلام آباد نے چھاپا ہے اور قیمت 700روپے رکھی ہے۔ ٹائٹل پر جن ادیبوں کے سکیچ شائع کئے گئے ہیں ان میں کشور ناہید‘ قتیل شفائی‘ ناصر کاظمی‘ صوفی تبسم‘ شہرت بخاری‘ بانو قدسیہ ‘ ڈاکٹر وحید قریشی اور منیر نیازی شامل ہیں۔ پس سرورق ڈاکٹر یونس جاوید کی تصویر‘ انتظار حسین اور ڈاکٹر خواجہ محمد ذکریا کی آراء ہیں جبکہ کتاب کا انتساب یونیورسٹی اورینٹل کالج اور شہر لاہور کے نام ہے۔ اس کا تفصیلی تذکرہ پھر کبھی سہی‘ یار زندہ صحبت باقی‘ فی الحال تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ ع
ایں کار از تو آید و مرداں چُنیں کُنند
آخر میں ایک ریکارڈ کی درستی بھی کہ کچھ عرصہ پہلے سُورج مکھی کے واحد پھول کا ذکر کیا تھا‘ جبکہ دراصل یہ پھول بھی زیادہ تھے اور پودے بھی‘ جہاں میں بیٹھا تھا‘ ایک بڑے پودے کی اوٹ میں تھے اور مجھے نظر نہ آئے۔ اگرچہ بہت سوں کے نزدیک یہ بات کچھ زیادہ اہمیت نہ رکھتی ہو حالانکہ باقی باتیں بھی کچھ ایسی اہمیت کی حامل نہیں ہوتیں!
آج کا مطلع 
جو پہلے کہہ چکا اُس سے مُکرنا چاہتا ہے
اسی خاطر وہ ہم سے بات کرنا چاہتا ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved