تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     27-06-2016

بے یقینی

حالات بے بس نہیں کرتے ، اپنے آپ کو آدمی خود لاچار کرتاہے۔ سن اے تہذیبِ حاضر کے گرفتار!غلامی سے بتر ہے بے یقینی ۔
لاہور کے رائل پام کلب، نہر کنارے 140ایکڑ پر پھیلے سبزہ زار کا تنازع کیا اتنا پیچیدہ ہے کہ عدالتِ عظمیٰ پانچ سال میں فیصلہ نہ کر سکے ؟ جمعہ کی صبح سینکڑوں پولیس والے کلب میں داخل ہوئے اور اس پر قبضہ کر لیا ۔ اسی شام خواجہ سعد رفیق نے اخبار نویسوں کو بتایا کہ 2ارب 16کروڑ روپے واجب الادا ہیں ؛چنانچہ معاہدہ مٹ گیا۔
اس احاطے میں چائے کی ایک پیالی طلب کرنے کے لیے بارہ لاکھ روپے ادا کر نا پڑتے ہیں ، ممبر شپ فیس ۔ یہ صرف تین ہزار خوش قسمت لوگ ہیں ۔ 
سولہ برس سے افواہوں کی بازگشت ہے ۔مثلاً یہ کہ لاہور کے کور کمانڈر جنرل ضرار عظیم نے جنرل پرویز مشرف سے کلب کا افتتاح نہ کرنے کی درخواست کی تھی ۔ یہ درخواست مان لی گئی تھی مگر عملا برعکس ہوا ۔ باخبر لو گ حیرت زدہ رہ گئے ۔ آخر کیوں ؟ بتایا گیا کہ جنرل کا سمدھی بریگیڈئیر آفتاب اس شب کچھ سر کشیدہ لوگوں کے ساتھ ایوانِ صد رمیں داخل ہوا تھا۔
ایک دو نہیں ، تین چار جنرل اس قضیے میں ملوث تھے ، تین سبکدوش۔ ان میں ایک وہ مشہور متفنّی کردار ہے ، جس نے وہ انجن درآمد کیے کہ ریلوے سٹیشن چھوٹے پڑ گئے ۔ ایوانِ صدر کی ایک تقریب میں ، جنرل پرویز مشرف نے ریلوے کے وزیر سے اچانک پوچھا: آج کتنے انجن خراب ہیں ؟ ''12عدد جناب ‘‘اس نے جواب دیا ۔ ان کی مرمت ممکن نہیں تھی ۔ کیا کبھی کسی نے کھلونوں کی مرمت کرائی ہے ؟ 
ایک اور واقعہ سنانے کو دل بے قرار ہوا جاتاہے ۔ کس طرح کچھ چینی تاجروں نے اس ناچیز کو لبھانے کی کوشش کی تھی ۔ انجنوں کی خریداری سے اخبارنویس کا کیا تعلق ؟ اپنے عظیم دوست ملک کا اسے دورہ کرنا تھا ۔چند کالم لکھنا تھے۔ ان انجنوں کی قیمت اگرچہ دس فیصد ہے مگر وہ امریکی انجنوں سے اچھے ہوتے ہیں ۔ دنیا کی کوئی چیز ایسی نہیں، اخبار نویسوں کا جس سے تعلق نہ ہو ۔ خوامخواہ ہی وہ ہر قابلِ ذکر آدمی کے پڑوسی ہوتے ہیں ، ہر تنازعے کے فریق۔
امریکی انجن بھی اسی بھائو خریدا جا سکتاتھا ،ایک ملین ڈالر ہی میں ۔ جنوبی کوریا سے ، ری کنڈیشنڈ ۔ مگر کبھی نہ خریدے گئے ۔ آخر کیوں ؟ یہ اسی طرح کا ایک اور سوال ہے ، جیسا یہ کہ ساڑھے پانچ برس میں عدالتِ عظمیٰ رائل پام کلب کے تنازعے کا فیصلہ کیوں نہ کر سکی ۔اس اثنا میں بارہ جج کیوں بدلے گئے ، دراں حالیکہ چیف جسٹس جناب انور ظہیر جمالی سرتاپا نیک نام !
نظام ِ انصاف اس قدر پیچیدہ اور پتھریلا ہے کہ انصاف کے اکثر طلب گار خون تھوک دیتے ہیں ، خواہ جج دیانت دار ہی کیوں نہ ہوں۔ کراچی میں دہشت گردی کے مرتکب ایک تہائی ملزم ضمانت پر رہا ہو جاتے ہیں ؛حتیٰ کہ درجنوں افراد کا قاتل اجمل پہاڑی بھی ۔ جج کہتے ہیں ، پولیس تفتیش نہیں کرتی ، پولیس پوچھتی ہے ، اسے تفتیش کرنے کون دیتاہے ۔ پولیس افسروں کا تقرر کرنے والے سیاستدان یہی کہتے ہیں کہ ہمیں کوئی کام نہیں کرنے دیتا۔ فوج کی تلوار ہمارے سروں پہ لٹکتی رہتی ہے ۔ 
لاہور کے کلب کا مسئلہ بظاہر بہت سادہ ہے ۔ سعد رفیق کو چھوڑیے ، ابتدا میں فریاد کرنے والے ڈاکٹر مبشر حسن تھے اور اسحٰق خاکوانی ۔ حکومت توبعدمیں فریق بنی ۔ دو تین سادہ سے سوالات ہیں ۔ اوّل یہ کہ کیا لیز کی رقم 21.6ملین تھی ، جو جعل سازی کر کے 2.16ملین کر دی گئی ؟ کیا ریلوے کا وفاقی وزیر اور ان کا عملہ اس میں ملوث تھا یا نہیں مثلاً پشاور کے سابق کور کمانڈر جنرل سعید الظفر؟ پھر ایک اور سوال ، ریلوے میں فوجی افسروں کا کیا کام تھا۔جنرل جاوید اشرف قاضی کون کون سے کارنامے انجام دے رہے تھے اور ان کارناموں کے باوجود الگ کیوں نہ کیے گئے ؟
ان معاملات کو ہم عدالت پر چھوڑتے ہیں اور سادہ سا حساب لگاتے ہیں ۔ لاہو رکے قلب میں 140ایکڑزمین کے اس خوبصورت ٹکڑے کو اگر سات حصوں میں بانٹ دیا جائے ۔ 20ایکڑ یعنی 140کنال فی کس پرمشتمل سات عدد کلب بنائے جائیں ۔(وہ زیادہ سے زیادہ رقبہ جو اس وقت زیرِ استعمال ہے )۔ امیدوار زیادہ ہیں مگر ان میں ہر ایک کی ممبر شپ تین ہزار بھی ہو تو کتنی فیس جمع ہوگی ؟ کیلکولیٹر کی ضرورت نہیں ،پورے 21ارب روپے ۔ اکیس ارب سے کتنے انجن خریدے جا سکتے ہیں ؟ 210، جب کہ ضرورت 200 کی بتائی گئی ہے ۔ کیا ایک برس میں ریلوے کا خسارہ ختم نہ ہو جائے گا، بیس ارب روپے سالانہ ؟
حکومتیں اس قابل ہواکرتیں تو چند لاکھ روپے سالانہ پر اتنے عظیم امکانات کا سودا کیوں کر لیتیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں ، جو غلام احمد بلور ایسے وزیر کو پانچ برس تک برداشت کر سکتے ہیں ، جومغرب تو چھوڑیے ، ایران اور افغانستان میں بھی تحصیلدار نہ بن سکتے ۔ اے این پی نے اسے نامزد کیا ، پیپلز پارٹی نے گوارا کیا اور نون لیگ نے اسے ہٹانے کی تحریک کبھی نہ اٹھائی ؛حتیٰ کہ اس میڈیا نے بھی ، جس کے بعض معمار لگتاہے کہ کسی وقت بھی پیغمبری کا دعویٰ کر سکتے ہیں ۔ 
جی ہاں اخبار نویس! لیجیے سنیے ، ان میں سے بعض اس لاہوری کلب کے ممبر ہیں ، جس کی فیس خاندانی جاگیردار بھی آسانی سے ادا نہیں کر سکتے ۔ جی نہیں ، انہوں نے ایک دھیلا بھی نہیں دیا۔ وہ مفت میں ممبر بنائے گئے ۔ لاہور کے لگ بھگ ایک سو شرفا ۔ کیاعدالتِ عظمیٰ ان کی فہرست طلب کرنا پسند کرے گی ؟ 
جناب چیف جسٹس سے کیا درخواست کی جا سکتی ہے کہ قانون اگر اجازت دے تو ہر اہم زیرِ سماعت مقدمے کے وکلا کی فیسیں الم نشرح کر دی جائیں ؟ لوگوں کو بتا دیا جائے کہ ایک فریق کے وکلا نے 6کروڑروپے وصول فرمائے ہیں ، دوسرے نے صرف دو لاکھ ۔ وکلا کی تحریک کے سرخیل تین عدد قانون دان ایک ملزم کے قانونی مددگار ہوں تو ان کے علم و فضل سے کیا عدالت کے احاطے میں بہتی ہوا تک سہم نہ جائے گی ؟ 
ایک قانونی راستہ یہ ہے کہ جنرل راحیل شریف اس معاملے میں ملوث سبکدوش جنرلوں کو طلب کریں ۔ فوجی عدالت کے سپرد کر دیں ۔ جہاں اتنے مشکل معرکے ہیں ، وہاں ایک چھوٹا سا قضیہ یہ بھی سہی ۔ طے ہو جائے تو خلق ِ خدا سکھ کا سانس لے ۔ واضح ہو جائے کہ وہ جرم کے مرتکب ہیں یا جیسا کہ کل ان میں سے ایک نے دعویٰ کیا ، یہ فوج کو بدنام کرنے کی مہم ہے ۔اگر نصف درجن حاضر سروس فوجی افسروں کو ٹانگ دینے سے سپاہ کی عزت میں اضافہ ہوا تو تین چار سبکدوش جنرلوں کے خلاف خالص قانونی کارروائی سے وہ رسوا کیسے ہوگی ؟ 
کیا ایک سبق اس میں یہ بھی نہیں کہ چینی کمپنیوں سے لین دین میں آخری درجے کی احتیاط چاہئیے ۔ دوستی ریاستِ چین سے ہے ، اس کے کاروباریوں سے نہیں ۔ ساری دنیاکے تاجر ایک جیسے ہوتے ہیں ، نودولتیے اور بھی چھچھورے!
جنرل مشرف کے دور میں بارہ انجن خراب ہو چکے تو مشورہ دیا گیا کہ باقی نہ خریدے جائیں ۔یہ ناممکن تھا۔ انجن کی بجائے وہ بھوسہ بھیجتے ، تب بھی قبول کرنا پڑتا ۔ ادائیگی کی جا چکی تھی ۔ اے این پی کاوزیر اس کے بعد آیا۔ وہ کیوں گل نہ کھلاتا؟ کیا اس کامحاسبہ مشکل تھا ؟ ایک اکیلی لڑکی مریم گیلانی ڈٹ گئی تھی ۔ تین برس تک اسے تنخواہ نہ ملی ۔ آخر کار سپریم کورٹ سے اس نے مقدمہ جیتا۔ اس سے بات کرتے ہوئے ، اب ہر شخص کو یہ بات یاد رہتی ہے۔
رائل پام کلب کا تنازع طے ہو سکتاہے۔ عدالت کیا، مذاکرات کی میز پر بھی۔ تاجر کو منافع سے غرض ہوتی ہے ۔ سارا جاتا دیکھے تو آدھا کیا، آدھے سے زیادہ چھوڑ دے گا ۔ لگ بھگ 7ارب روپے اس نے ممبروں سے وصول کیے ۔ بمشکل ایک ارب عمارت پہ اٹھے ۔ بنیے بیچارے کی کیا اوقات ہوتی ہے ، خواہ وہ ارب پتی ہی کیوں نہ ہو۔ یومِ جزا دیانت دار کاروباری کے لیے سایہ ء عرشِ الٰہی کا وعدہ ہے ۔ اس لیے کہ دولت مندی کے ساتھ دیانت اور ایثار وہی کر سکتے ہیں ، اپنے آپ سے جو اوپر اٹھ جائیں ۔ قرآنِ کریم قرار دیتاہے ، اولیا ء اللہ کی طرح ۔ لا خوف علیہم ولا ھم یحزنون ۔ 
غلام احمد بلور اور جاوید اشرف قاضی اس ملک میں دندناتے پھرتے ہیں ۔ مریم گیلانی ایسے افسر برسوں تک عدالتوں میں ٹھوکریں کھاتے ہیں ۔ کوئی ان کو داد دینے والا نہیں ۔ یہ میڈیا بھی نہیں ، جو خود کو پیغمبری کے منصب پر فائز کرنا چاہتاہے ۔سچائی کی راہ واضح ہوتی ہے ۔سرکارؐ کا فرمان ہے ،ایک سیدھی لکیر کی طرح ۔ اس کے لیے مگر خود کو خطرے میں ڈالنا ہوتاہے ، مریم گیلانی کی طرح ۔ 
اللہ کا وعدہ یہ ہے کہ وہ حق کا ساتھ دیتاہے ۔ فوجی قیادت سمیت اس راز سے کتنے لوگ با خبر ہیں ؟کتنے ہیں ، اپنے رب پر مکمل بھروسہ کرنے کے لیے جو تیار رہتے ہیں ؟حالات بے بس نہیں کرتے ، اپنے آپ کو آدمی خود لاچار کرتاہے۔ سن اے تہذیبِ حاضر کے گرفتار! غلامی سے بتر ہے بے یقینی ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved