تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     27-06-2016

برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی

اگر سیاسی بھونچا ل کو جانچنے والا کوئی ریکٹر سکیل ہوتا تو مجھے یقین ہے کہ برطانیہ کے یورپی یونین سے نکل جانے کے فیصلے سے اٹھنے والی شاک ویو کی شدت دس سے کم نہ ہوتی۔ چوبیس جون کو ہونے والی اس تاریخی ووٹنگ سے پھیلنے والے ارتعاش کو دنیا بھر میں محسوس کیا گیا ۔اس کی وجہ سے شیئر مارکیٹوں سے اڑھائی ٹریلین ڈالر نکل گئے جبکہ پائونڈ کی قدر میں ریکارڈ کمی دیکھنے میں آئی۔ ریفرنڈم کے نتائج کے مطابق دنیا کے سب سے بڑے تجارتی بلاک، یورپی یونین، سے اخراج کا آپشن چننے والوں نے جشن منایا جبکہ اس کے ساتھ رہنے والوں کا پارہ چڑھتا دکھائی دیا۔ 
اگرچہ اہل ِ برطانیہ کو آنے والے کئی برسوں تک اس حماقت کی قیمت چکانی پڑے گی لیکن کچھ قیمت تو نتائج کا اعلان ہوتے ہی چکانی پڑگئی۔ برطانوی وزیر ِ اعظم ڈیوڈ کیمرون نے فوراً ہی عہدہ چھوڑنے کا اعلان کردیا۔ا گرچہ وہ اکتوبر تک منصب پر موجود رہیں گے اور اس دوران کنزرویٹو پارٹی کو ان کا جانشین منتخب کرنے کا موقع دیںگے لیکن اس دوران اُن کی پوزیشن محض علامتی ہوگی۔ اگرچہ لندن کے سابق میئر ، بورس جانسن اس عہدے کے لیے فیورٹ امیدوار دکھائی دیتے ہیں لیکن جب مارکیٹوں میں پھیلی ہوئی سراسیمگی، مالیاتی خسارے اور پائونڈ کی سمٹتی ہوئی قدرجیسے مسائل سے نمٹنا پڑا تو اُنہیں پتہ چلے گا کہ اُن کے ہاتھ زہرآلود مشروب کا جام آگیاہے ۔ 
معاشی کساد بازاری سے کہیں مہلک اس کے سیاسی مضمرات ہوں گے ۔ اگرچہ سکاٹ لینڈ نے بھاری اکثریت سے یورپی یونین کے ساتھ ٹھہرنے کی حمایت میں ووٹ دیا لیکن برطانیہ ایک حصہ ہونے کے ناتے اس پر یورپی یونین کے دروازے بند ہوگئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی فرسٹ منسٹر ، نیکولا سٹروجن نے اعلان کیا ہے کہ سکاٹ کے برطانیہ سے نکلنے کے لیے دوسرا ریفرنڈم بہت جلد ہوگا۔ شمالی آئر لینڈ سے بھی اسی قسم کی آوازیں آنا شروع ہوگئی ہیں۔ یہ دونوں خطے برطانیہ سے آزادی پانے کے بعد یورپی یونین کی رکنیت اختیار کرنے کے خواہش مند ہیں۔ اس سے دنیا میں برطانیہ کا مقام مزید سمٹ جائے گا۔ یورپی یونین سے اخراج کے فیصلے نے اسے پہلے ہی خاصا دھچکا پہنچایا ہے ۔ اس ریفرنڈم کے نتائج کا سیاسی اثر صرف برطانیہ تک ہی محدود نہیں رہے گا، یورپ بھر سے دائیں بازو کی اٹھنے والی آوازوں نے ان نتائج کا خیر مقدم کیا ہے ۔ وہ بھی اپنے اپنے ممالک میں ایسے ریفرنڈم کا مطالبہ کررہے ہیں۔ اگر یہ جذبات شدت اختیار کرتے گئے تو اس کے نتیجے میں یورپی یونین مکمل طور پر تحلیل ہوجائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ لندن اور برسلز کے درمیان علیحدگی پر تلخی پائی جاتی ہے ۔ بورس جانسن جیسے افراد اسے خوشگوار علیحدگی قرار دے رہے تھے کہ اس کے بعد بھی سنگل مارکیٹ کے تصور کو قائم رکھا جائے گا، لیکن برلن اور پیرس سے ہونے والے اعلانات کے بعد ایسا ہونا ممکن نہیں۔ 
جس دوران حکمران جماعت قیادت کی تبدیلی کے مرحلے سے گزر رہی ہے، لیبر پارٹی پر بھی دبائو ہے کہ وہ اس مہم کے دوران جرمی کوربین کے کردار کا جائزہ لے ۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ یورپی یونین کے ساتھ رہنے کے لیے اپنے حامیوں کو متحرک کرنے کی کوشش کرتے دکھائی نہ دیے ۔ پول جائزے ظاہر کرتے ہیں کہ لیبر پارٹی کے بہت سے حامیوں نے یورپی یونین سے اخراج کے موقف کی حمایت کی ۔ اس سے لیبر پارٹی کی مزدر پیشہ افراد سے دوری کا بھی پتہ چلتا ہے ۔ جس دوران ڈیوڈ کیمرون کے پاس برائے نام اقتدا ر ہوگا، ویسٹ منسٹر میں طاقت کا خلا نمودار ہونا یقینی ہے ۔ یورپی یونین سے اخراج کی حمایت کرنے والوں نے اس موقف کو اجاگر کرنے اور پھیلانے کے لیے مہم تو زوردار چلائی تھی اور وہ کامیاب بھی ہوگئے ، لیکن اب ایسا لگتا ہے جیسے بعد کے واقعات سے نمٹنے کے لیے اُن کے پاس کوئی حکمت ِعملی نہیں ہے ۔ جس دوران یورپی یونین کے رہنما جلد از جلد مذاکرات کے لیے دبائو ڈال رہے ہیں، ویسٹ منسٹر میں ان کے سامنے میز پر بیٹھنے والا کوئی نہیں ہے ۔ یورپی یونین کے چارٹر کا آرٹیکل 50یورپی یونین سے نکل جانے کا فیصلہ کرنے والوں کو فوری طور پر نکال دیتا ہے ۔ اگرچہ ڈیوڈ کیمرون کا کہنا ہے کہ وہ اکتوبر تک منصب چھوڑ دیں گے اور پھر ان کا جانشین برسلز میں افسران کے ساتھ مذاکرات کرے گا لیکن یورپی یونین کی چھ بانی ریاستوں کے وزرائے خارجہ کی ایک حالیہ میٹنگ میں برطانیہ پر یہ بات واضح کر دی گئی کہ اتنا زیادہ انتظار نہیں کیا جاسکتا ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اخراج کے مضمرات کیا ہوں گے، اور یہ کہ اب برطانیہ کو مذاکرات کی میز پربہت کچھ نہیں ملے گا۔ 
مبصرین کئی ماہ سے برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کی وجوہ کا تجزیہ کررہے تھے ۔ یہ بات اب تک واضح ہوچکی ہے کہ آنے والے تارکین ِوطن کے خوف نے اس مہم کو سب سے زیادہ بال وپرَ عطا کیے ۔ لندن کے علاوہ انگلینڈبھر سے لیے گئے مختلف انٹرویوز سے یہ بات عیاں ہوچکی تھی کہ دیگر ممالک سے برطانیہ کی طرف آنے والے مہاجرین کی وجہ سے مقامی افراد کو شدید تحفظات پائے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ لبرل اور روادار افراد بھی اپنے درمیان لاکھوں غیر ملکیوں کی موجودگی پر سوال اٹھاتے تھے ۔ ایک شہری سے جب ایک ٹی وی نمائندے نے سوال کیا تو اس کا جواب تھا۔۔۔'' ہم اپنے درمیان ان.... مسلمانوں کوبرداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔‘‘کچھ دیگر شہریوں نے مشرقی یورپ سے آنے والے افراد کے بارے میں بھی اسی رائے کا اظہار کیا ۔ فنانشیل ٹائمز، جس نے یورپی یونین کے ساتھ ٹھہرنے کی مہم کی حمایت کی تھی، میں مارٹن ولف لکھتے ہیں۔۔ ۔''ڈیوڈ کیمرون نے ایک بہت بڑا جوا کھیلا تھا۔ بورس جانسن، مائیکل گوو، نیگل فاراج اور 'ڈیلی میل‘کی چلائی گئی مہم، جس میں دروغ گوئی سے کام لے کر خوف کی فضا قائم کی گئی، جیت گئی۔اس نے برطانیہ، یورپ اور مغرب اور باقی دنیا کو نقصان پہنچا یا ہے۔ اس وقت برطانیہ بہت چھوٹا ملک دکھائی دیتا ہے، اور خدشہ ہے کہ اس میں مزید دراڑیں پڑ جائیں گی۔ یورپی یونین اور انگریزی بولنے والی دنیا کے درمیان رخنہ پڑ گیا ہے۔ شاید یہ برطانوی تاریخ میں دوسری جنگ ِ عظم کے بعد ہونے والا سب سے بڑا سانحہ ہے ۔ ‘‘
یہ تبصرہ اُن تاریک مضمرات کی نشاندہی کرتا ہے جن کا یورپی یونین سے اخراج کے نتیجے میں برطانیہ اور باقی دنیا کو سامنا کرنا پڑے گا۔ پائونڈ کی گراوٹ اور دنیا بھر کی سٹاک مارکیٹوں میں آنے والی مندی نے بہت سے خدشات کی تصدیق کردی ۔ تاہم اس کی وجہ سے معاشرے میں نمودار ہونے والی دراڑیں پرُ کرنے میں شاید بہت وقت لگ جائے گا۔ جائزے ظاہر کرتے ہیں کہ معمر، بے روزگار اور نسبتاً کم تعلیم یافتہ افراد نے ''اخراج‘‘ کے حق میں ووٹ دیا، جبکہ نوجوان، تعلیم یافتہ اور خواتین یورپی یونین کے ساتھ ٹھہرنے کے حق میں تھے۔ شکست کے بعد یہ طبقہ مشتعل ہو گا کیوں اُنہیں معمر افراد کے فیصلے کی وجہ سے اُن فوائد سے محروم ہونا پڑا جو یورپی یونین کا حصہ بن کر اُنہیں حاصل تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اخراج کی مخالفت کرنے والوں نے اپنی مہم کے دوران اعدادوشمار کے ساتھ بتا دیا تھا کہ یورپی یونین سے نکلنے کی صورت میں ان معاشی نقصانات کا سامنا کرنا ہو گا تو پھر اخراج کی حمایت میں باون فیصد ووٹ کیوں پڑے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ''ہمیں اپنا کنٹرول واپس چاہیے‘‘ ایک طاقتور نعرہ بن کر ابھرا۔ اس کے پیچھے جو کشش تھی، اُس نے معاشی نقصانات کے خدشے کو بہت پیچھے دھکیل دیا۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ ریفرنڈم معاشی اور سیاسی معاملات کو نظر انداز کرکے صرف ایک نقطے پر مرکوز ہوگیا تھا کہ سرحدوں کی حفاظت کرنی ہے اور تارکین ِوطن کے سیلاب کو کنٹرول کرنا ہے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved