''استعفیٰ دیا تو جمہوریت ڈی ریل ہو جائے گی۔ میں چلا گیا تو قوم کی ترقی رک جائے گی۔ میری فتوحات محمود غزنوی سے زیادہ ہیں۔ استعفیٰ کا مطالبہ کرنے والے پاکستان پر رحم کریں‘‘۔
فرض کریں ڈیوڈ کیمرون پاکستانی ووٹر، ہمارے شہری اور پھر وزیراعظم بن جاتے تو استعفیٰ دینے کے معاملے پر ''اصولی‘‘ موقف وہی ہوتا جو ہم نے اوپر لکھ چھوڑا۔ڈیوڈ کیمرون کے بھائی ایلن الیگزینڈر پیشے کے لحاظ سے وکیل، بیرسٹر ہیں۔ ذرا تصور میں لائیں پاکستانی وزیراعظم کا بھائی بیرسٹر نہ بھی ہو تو اپنے ''بھا جی‘‘ کے لئے کیاکیا نہیں کر گزرتا، چھوٹا الیگزینڈر اپنے چیف ایگزیکٹوکے حق میں یقینا یوں بولتا۔ اپوزیشن راجہ پورس کے راستے پر چل پڑی۔ چند ہاتھی، تھوڑے سے گھوڑے، پوٹھوہار کی بنی کلہاڑیاں اور ہٹانے چلے ہیں سکندرِ اعظم کو۔اپوزیشن اگر محب ِوطن ہے تو اس کو چاہیے وہ ٹیکسلا کے راجہ امبی والا مفاہمت کا فارمولا اپنا لے، جس نے جمہوریت مضبوط کرنے کے لئے اپنی ریاست الیگزینڈر دی گریٹ کے حوالے کی۔ اپنے گھوڑے، فوجی، عوام کی فصلیں تک بھا جی کی مضبوطی پر قربان کر دیں۔ راجہ امبی جیسے محبِ وطن تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گے جبکہ راجہ پورس الگزینڈرکا باغی تھا۔ وہ دھرتی کا بیٹا نہیں کہلا سکتا۔ اس کی ایک اور وجہ بھی ہے، راجہ پورس کا ہاتھی بھی غدار تھا۔
میں اس تاریخی موقع پر ایران کے بادشاہ دارا کا سر کاٹ کر سکندرِ اعظم کی خدمت میں پیش کرنے والے ایرانی معززین اور سفید پوشوں کو سلام پیش کرتا ہوں جن کی جمہوریت یعنی سکندر اعظم کے لئے خدمت نے نئی تاریخ بنائی۔ ایسے ہی جمہوری رویے کی وجہ سے سکندر اعظم برصغیر میں داخل ہو پایا۔ آپ خود دیکھ لیں دھرتی کا اصل بیٹا سکندرِ اعظم تھا، جس کا نام سکندر بھی اور اعظم بھی ہے۔ ہمارے ناموں سے کتنا ملتا جلتا جبکہ راجہ پورس ہندو تھا اس لئے ہمیں اس کا نام لیتے ہوئے شرم آنی چاہیے، جیسے مودی کے نام پر شرماتے ہیں۔ دھرتی کا بیٹا Alexender the great زندہ باد اور بھاجی یعنی سکندر اعظم ثانی ڈبل زندہ باد!!
ڈیوڈ کیمرون پاکستانی وزیراعظم ہوتے تو ان کے بچے اپنی سیاسی جد و جہد کا آغاز ایک سابق چیف جسٹس کے بیٹے کی طرح لازماً اس دعا سے کرتے:اے خدا میرے ابُّو سلامت رہیں۔ اے خدا میرے ابُّو کی سیاست سلامت رہے۔ اسی کی وجہ سے ہم نے دن دگنی رات چگنی ترقی کی۔ ہمارے کئی غریب رشتہ دار آج بھی گوالمنڈی۔۔۔۔ میرا مطلب ہے ہائیڈ پارک لین کی گلیوں میں رُل رہے ہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے، ان کے ابُّو ہمارے ابُّو سے کوئی مقابلہ نہیں کر سکتے۔ ہمارے ابُّو نے غریبی میں نام پیدا کیا۔ غریبی میں سٹیل ملیں، شوگر ملیں، فلیٹ، اپارٹمنٹ، ٹاور، شیٹو اور آف شور کمپنیاں بنا کر عالمی ریکارڈ بنائے۔ ہمارے سکندراعظم ثانی نے سکندر اعظم کو بھی شرمندہ کر دیا، جو خود یورپ کا رہنے والا تھا ساری دنیا فتح کی، مگر اپنے پیچھے محل چھوڑا نہ شیٹو نہ کوئی آف شورکمپنی نہ ہی کمرشل ٹاور۔ اسی لئے اس کے وارث ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ ہمیںاپنے ابُّو پر فخر ہے۔ اے خدا میرے ابُّو سدا سلامت رہیں۔ ابُّو ہیں تو جمہوریت ہے،ابُّو ہیں تو سیاست ہے۔ ابُّو ہیں تو پارلیمینٹ ہے، ابُّو ہیں تو ملک ہے۔ابُّو ہیں تو عوام ہیں ورنہ ہر طرف قیامت ہی قیامت ہے۔
قیامت کے اچانک ذکر سے پوٹھوہار میں دریائے سواں کے کنارے بیٹھے کسان کا قصہ یاد آیا۔ سچے زمانے میں لوگ کسانوں کا گنا خرید کر 85,80کروڑ دبا کر بیٹھ نہیں جاتے تھے۔ اس دور میں شیر نظر آئے تو کسان اس کے گلے میں پٹہ ڈال کر اس کی نمائش کرنے کی بجائے دشمن سمجھ کر اسے فوراً مار دیتے۔ البتہ گیدڑ سے آنکھ مچولی چلتی رہتی۔ ایک نڈھال گیدڑ پانی میں بہتا ہوا جا رہا تھا۔ اس نے کسان کو دیکھتے ہی شور مچا دیا۔۔۔۔ قیامت آ گئی، قیامت آ گئی! سادہ لوح کسان گیدڑ کی طرف بھاگا، اس سے پوچھا کیسی قیامت؟ کہاں ہے قیامت؟ گیدڑ نے جواب دیا مجھے پانی کے سونامی سے بچاؤ پھر بتاتا ہوں۔کسان نے گیدڑ کی دم پکڑ کر کھینچا، باہر نکالا، اس کا علاج معالجہ کیا، اپنی دھوتی سے اس کے بال سکھائے، اپنی روٹی اسے پیش کر دی۔ جب گیدڑکے حواس بحال ہوئے اور وہ صحت مند ہو گیا تو کسان نے پوچھا، قیامت کا حال بتاؤ۔۔۔؟ گیدڑ بولا شکر کرو میں بچ گیا ورنہ میرے لئے تو قیامت آ گئی تھی۔گیدڑ کے اس ''اصولی‘‘ مؤقف کو آپ شیروں کی سیاست پر لاگو نہیں کر سکتے کیونکہ شیر مغلوں یا منگولوں کی طرح بادشاہ ہوتا ہے۔ خواہ وہ محمد شاہ رنگیلا ہی کیوں نہ ہو۔ اورگیدڑ شغلیہ فن کار، محض جگت باز۔ اسی لئے گیدڑ کا دوسرا نام ''شغال‘‘ رکھا گیا۔
اگر ڈیوڈ کیمرون پاکستانی وزیراعظم ہوتے تو وہ ریفرنڈم کے نتائج مسترد کر دیتے۔ ان کے لیے ضیاء الحق کے ریفرنڈم کی نظیر موجود تھی، جس میں انسانی تاریخ کی سب سے بڑی آزادی ووٹروں کو ملی۔۔۔ نہ شناخت، نہ نام، نہ پتہ! جس کو جتنے ووٹ ڈالنے تھے وہ قریبی پولنگ ا سٹیشن میں گھس گیا اور آزاد ملک میں آزادی کے ساتھ اپنی پسندیدہ شرعی جمہوریت کو جی بھر کر ووٹ ڈالے۔ حق رائے دہی کی اسی بالا دستی نے اس صاف ، منصفانہ اور شفاف عمل کی قبر پر علامہ اقبال کے اس شعر کا یہ کتبہ لگا دیا ؎
جمہوریت وہ طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
تبدیلی یورپی یونین میں ہی نہیں آئی ڈیوڈ کیمرون کے پڑوس میں بھی آئی ہے۔ مراد لندن سے ہے جہاں ہمارے''جلا وطن‘‘ وزیراعظم پناہ گزین ہیں۔ لندن والوں کے بارے میں آئر لینڈ اور اسکاٹ لینڈ کے لیڈروں نے اس ریفرنڈم میں وہی کہا جو سرائیکی اور پوٹھوہاری علاقے کے غریب عوام تخت لاہورکے شہزادوں سے کہتے ہیں۔ لندن والوں کا جواب آیا میٹرک فیل اور مزدور نما ووٹروں نے یورپی یونین سے نکلنے کا فیصلہ کیا۔ تازہ خبر ہے 20 لاکھ ووٹرز پھر سے ریفرنڈم مانگ رہے ہیں۔ برطانوی پارلیمنٹ نے اس مطالبے کو بحث کے لیے قبول کر لیاکیونکہ برطانیہ میں دوبارہ ریفرنڈم کے لئے جلوس نکل رہے ہیں۔کیمرون اگر پاکستانی وزیراعظم ہوتے تو انہیں ملک بھر کی 40 ہزار پولیس اور 20 ہزار مسلح ٹروپس بلا کر شاہراہِ دستور بلاک کرنے کی سہولت مل جاتی۔ ہائیڈ پارک نما دھرنا عرف ( ڈی۔چوک)کی اینٹیں تک اکھاڑ دیتے۔ کیمرون کے سامنے ہزاروں گولیاں برساتے لاشیں گراتے۔20,10 ہزار لوگوں پر پرچے کٹواتے جبکہ پارلیمنٹ جلوس نکالنے والوں کو غدار، شر پسند، ترقی کے دشمن، جمہوریت ڈی ریل کرنے والے مسخرے، یہودیوں کے ایجنٹ جیسے''پارلیمانی اعزازات‘‘ سے نواز تی اور ریفرنڈم پر کوئی ایک آدھ حبیب جالب یوں بولتا جیسے ضیا کے ریفرنڈم کے خلاف بولا تھا:
شہر میں ہُو کا عالم تھا
جِن تھا یا ریفرنڈم تھا
قید تھے دیواروں میں لوگ
باہر شور بہت کم تھا
کچھ باریش سے چہرے تھے
اور ایمان کا ماتم تھا
مرحومین شریک ہوئے
سچائی کا چہلم تھا
یہ وعدہ تھا حاکم کا
یا اخباری کالم تھا